پاکستانی سیاست میں اگر کوئی آپ کا مخالف ہے اور آپ چاہتے ہیں کہ اسکے خلاف ایسی آگ بھڑکائی جائے کہ اسکو پیر دھرنے کی جگہ بھی نصیب نہ ہو تو بھارت و اسرائیل اتحاد نامی آتشیں اسلحے سے مخالفین کی جانب رخ کرکے گولے برسائیں۔ یہی فارمولہ موجودہ حکمران انتظام کی جانب سے بار ہا استعال ہوتا نظر آرہا ہے۔
پہلے پہل محتاط انداز سے اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کے حوالے سے بحث کا آغاز کرانے کی کوشش کی گئی۔ تاہم یہ کوشش ناکام ہوجانے کے بعد اب اسی کے تیزابی خام مال کو سیاسی مخالفین کی جانب اچھالنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ کسی طرح اس الزام سے مفر اختیار کیا جا سکے کہ اس بحث کا بیوپار کھولنے والے وہی ہیں جو خود کو ملک کے محافظ قرار دیتے ہیں۔
اسی سلسلے کی تازہ ترین کاوش میں سما ٹی وی نے اپنے محسنوں کا ساتھ دیا ہے۔ اور ایک نا معلوم شخص کو سامنے لایا گیا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ اسکی قیادت میں نواز شریف نے بطور وزیر اعظم اسرائیل ایک وفد بھیجا تھا جس کا مقصد وزیر اعظم کی اسرائیل سے تعلقات قائم کروانے کی پرجوش خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے امکانات کا جائزہ لینا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ آںحضرت کون ہیں؟
مولانا امجد قادری نامی اس پر اسرار شخصیت کے بارے میں کسی کو خاص کچھ نہیں معلوم۔ خود سما ٹی وی جس کے پروگرام میں یہ دعوے کرنے کے لیئے حاضر ہوئے اسکی اپنی ویب سائٹ کہتی ہے کہ مولانا اجمل قادری کے بارے میں بھی زیادہ معلومات دستیاب نہیں مگر انہوں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر خود کو ’جمعیت علمائے اسلام (م) کے سربراہ اور ورلڈ خدام الدین کے سرپرست کے طور پر پیش کیا ہے
مولانا اجمل قادری نے یہ نہیں بتایا کہ یہ دورہ کب ہوا۔ یہ بھی واضح نہیں کہ انہوں نے نواز شریف کے کون سے دور اقتدار میں دورہ کیا۔
ان حضرت کے کل دعووں کی تفصیل یہ ہے کہ سماء ٹی وی کے پروگرام آواز میں میزبان علی حیدر سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا امجد قادری نے کہا کہ ’وزارت خارجہ کے لوگ جاننا چاہتے تھے کیا ہم اسرائیل سے تعلقات قائم کر بھی سکتے ہیں یا نہیں۔ اگر تعلقات قائم کرتے ہیں تو تمام تر مفادات کا رخ پاکستان کے حق میں ہوگا یا نہیں۔ یہ ایک مطالعاتی سفر تھا اور تعلقات کی ابتدا تھی۔‘
اینکر نے اس پوچھا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے یا نہ کرنے کیلئے پیمانہ کیا تھا۔ اجمل قادری نے جواب دیا کہ ’جیسے بھارت ہمارا دشمن ملک ہے۔ اس کے ساتھ ہمارے معاملات درست نہیں۔ لیکن میاں نواز شریف تجارتی پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے جانتے تھے کہ جب پاکستان انڈیا سے سبزیاں دبئی کے راستے منگوا رہا ہے تو امرتسر کے راستے کیوں نہیں۔ اسی طرح ہم نے دیکھنا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ تجارت اور تعلقات پاکستان کے مفاد میں ہے یا نہیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہاں کن کن سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے جواب دیا کہ ’ اسرائیل کے وزارت خارجہ کے لوگوں اور کابینہ کے وزرا سے ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ ہمارے ہوٹل میں آئے تھے اور ان سے بڑی سیر حاصل گفتگو ہوئی۔‘
انہوں نے کہا کہ زیادہ تجارتی امور پر بات ہوئی کیوں کہ پاکستانی ٹیکسٹائل اسرائیلیوں میں بڑی مقبول ہیں جبکہ اسرائیل فرٹیلائزر اور زرعی ٹیکنالوجی میں آگے ہے۔ اس لیے اس معاملے پر گفتگو ہوئی۔اجمل قادری کے مطابق ’اسرائیلی چاہتے تھے کہ سیاسی و سفارتی تعلقات کو فسلطین کے ساتھ مشروط نہ کیا جائے۔ مگر ہم نے انہیں یہ باور کروایا کہ جب تک فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے ہمیں اعلیٰ اسرائیلی قیادت سے یقین دہانی نہیں کروائی جاتی تو ہم اس معاملے پر آگے نہیں بڑھ سکتے۔‘
اینکر نے پوچھا کہ آپ کو وہاں بھیجنے کا فیصلہ نواز شریف کا انفرادی تھا یا فیصلے میں کوئی اور بھی شامل تھا۔ مولانا اجمل قادری نے جواب دیا کہ ’کچھ اور کوارٹرز ایسے تھے جن سے مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا۔‘میزبان نے تصدیق کرنے کیلئے دوبارہ پوچھا کہ کیا اس میں مقتدرہ ( اسٹیبلشمنٹ) بھی شامل تھی۔ مولانا اجمل قادری نے بتایا کہ ’ان کی مشاورت سے ہی ایسا ہوا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف کو یہ معلوم ہے کہ انکی اسرائیل سے متعلق دال فی الحال نہیں گلنی اور انکو لانے والوں کی یہ خواہش شاید پوری کرنا انکے بس میں نہیں اس لیئے بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی کے مصداق انہوں نے نقصان میں جاتے پراجیکٹ سے کم سے کم فائدہ اٹھانے کے لیئے ہی ن لیگ کی جانب اپنی توپوں کا رخ کردیا ہے۔