سما ٹی وی، دنیا نیوز نے ملک ریاض کے خلاف رپورٹنگ سے روکا: وجاہت سعید خان

سما ٹی وی، دنیا نیوز نے ملک ریاض کے خلاف رپورٹنگ سے روکا: وجاہت سعید خان
پاکستانی صحافی و تجزیہ کار وجاہت سعید خان نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا نیوز اور سما نیوز میں بطور صحافی کام کرنے کے دوران انہیں ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن کے خلاف رپورٹنگ سے روکا گیا۔

گذشتہ چند روز سے سوشل میڈیا پر ملک ریاض کی بیٹیوں کی جانب سے اداکارہ عظمیٰ خان کے گھر پر کیا جانے والا حملہ زیربحث ہے۔ سوشل میڈیا صارفین اس معاملے پر میڈیا کی خاموشی اور جانبدرانہ رپورٹنگ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ صارفین کی ایک بڑی تعداد کا کہنا ہے کہ پاکستانی میڈیا ملک ریاض کے خلاف رپورٹنگ سے گھبراتا ہے اور طاقتوروں کے گھر کی لونڈی بنا ہوا ہے۔

اب سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے پاکستانی صحافی و تجزیہ کار وجاہت سعید خان نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں بطور صحافی کام کرنے کے دوران انہیں ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن کے خلاف رپورٹنگ سے روکا گیا۔

وجاہت سعید نے ملک ریاض کی بیٹی عنبر ملک کو گرفتار کرنے کے حوالے سے وائرل ٹرینڈ میں اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ پاکستان میں 15 سالہ رپورٹنگ کرئیر میں، میں نے جن مقامی چینلز کے لئے کام کیا ان میں سے کچھ میں یہ حکم تھا کہ ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن سے دور رہا جائے۔

وجاہت سعید نے اپنی ٹویٹ میں مزید بتایا کہ سما نیوز اور دنیا نیوز نے ملک ریاض کے خلاف رپورٹنگ سے روکا لیکن جیو نیوز، ڈان نیوز اور آج ٹی وی کے لیے کام کرتے ہوئے ایسا کوئی آرڈر نہیں تھا۔

یہ ایک ایسا راز ہے جس پر پاکستان میں کوئی پردہ نہیں۔ سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں میڈیا چینلز کے ملک ریاض کے ہاتھوں بک جانے کے الزامات نئے نہیں۔ 2012 میں جب ملک ریاض نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے بیٹے ارسلان افتخار پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے چیف جسٹس سے ایک کیس میں ریلیف لے کر دینے کے لئے ان سے مراعات حاصل کی تھیں تو بھی ملک ریاض نے دنیا نیوز ہی پر صحافیوں مبشر لقمان اور مہر بخاری کو ایک انٹرویو دیا تھا جس میں اس وقت کے چیف جسٹس پر شدید الزامات لگائے گئے تھے اور اگلے ہی روز اس کی ایک behind the scenes ویڈیو لیک ہو گئی تھی جس میں مہر بخاری اور مبشر لقمان ملک ریاض کو اشتہار کے بعد پروگرام کے اگلے حصے میں ہونے والے سوالات کے لئے تیاری کروا رہے تھے۔

اس ویڈیو لیک سے ملک ریاض کی طاقت کا چھوٹا سا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس میں مبشر لقمان ان کی بات اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے بات کرنے کے لئے اپنا فون دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس لیک کے ذریعے صورتحال کی ایسے عکاسی کی گئی گویا ملک ریاض کے تمام الزامات یوسف رضا گیلانی یا ان کے بیٹے کے کہنے پر لگائے گئے ہوں۔ چند ہی روز بعد چیف جسٹس نے یوسف رضا گیلانی کو سوئس عدالتوں کو صدر زرداری کے خلاف خط لکھنے سے انکار پر وزارتِ عظمیٰ سے عدالت کی توہین کی پاداش میں برطرف کر دیا۔

2018 میں ڈان اخبار نے ملک ریاض کی زمینوں پر قبضے کے حوالے سے ایک خبر چلائی تو اس کو اشتہارات کی بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی سال جب بحریہ ٹاؤن کراچی میں زمینوں پر قبضوں کے خلاف ایک مقدمے میں سپریم کورٹ کو صحافی کامران خان نے سپریم کورٹ کو اپنے پے در پے کئی پروگراموں میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں اور سرمایہ داروں کی رقمیں ڈوبنے کے واسطے دے کر بحریہ ٹاؤن کے لئے ایک باقاعدہ میڈیا مہم چلائی۔

گذشتہ برس ملک ریاض خاندان کی برطانیہ میں منی لانڈرنگ کے کیس میں زمین ضبطگی اور رقم کے حکومتِ پاکستان کو واپس ملنے کے معاملے کو میڈیا کے ایک بڑے حصے کی جانب سے ذرا بھی نہیں اچھالا گیا۔ الٹا اسے حکومت کے ایک کارنامے کے طور پر کچھ گھنٹے پیش کرنے کے بعد مکمل خاموشی اختیار کر لی گئی۔ اس transaction کے حوالے سے آج بھی ایک بہت بڑا سوال موجود ہے کہ یہ رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں کیوں گئی؟ ملک ریاض کا دعویٰ تھا کہ یہ رقم بحریہ ٹاؤن کراچی کیس میں ہوئے جرمانے کی مد میں سپریم کورٹ اکاؤنٹ میں جمع کروائی گئی ہے۔ اس کی آج تک نہ سپریم کورٹ نے تردید کی ہے اور نہ ہی حکومتِ پاکستان کے کسی عہدیدار نے۔ آخر ایک جرم کے جرمانے کی رقم دوسرے جرم کے جرمانے کی مد میں کیسے جمع کروائی جا سکتی ہے؟ پھر تیسرا سوال یہ ہے کہ برطانیہ میں ملک ریاض خاندان پر منی لانڈرنگ ثابت ہو جانے کے بعد پاکستان میں ان پر کوئی مقدمہ کیوں نہیں چلایا گیا جب کہ رقم تو پاکستان سے گئی تھی۔ نقصان تو ہمارا ہوا تھا۔ یاد رہے کہ یہ محض ایک ماورائے عدالت معاہدے کے تحت حاصل ہونے والی رقم تھی جو پاکستان کو برطانیہ کی جانب سے دی گئی، لانڈر کی گئی اصل رقم کا کوئی تخمینہ لگایا ہی نہیں گیا۔ یہ تمام رقم پاکستان سے بیرونِ ملک منتقل ہو گئی اور پاکستان میں کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

لیکن اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ یہ سوالات میڈیا میں کیوں نہیں اٹھائے گئے۔ یہ درست ہے کہ شاہزیب خانزادہ نے اس پر پروگرامز کیے۔ ڈان اخبار نے بھی اس پر رپورٹنگ کی۔ لیکن میڈیا کا زیادہ تر حصہ ان جرائم پر آنکھیں بند کیے بیٹھا رہا۔ یاد رہے کہ یہ وہی دو میڈیا گروپ ہیں جن پر آئے روز غداری کے الزامات لگتے ہیں اور الزامات لگانے والے کوئی اور نہیں یہی میڈیا چینلز اور ان کے اینکرز ہوتے ہیں جو ملک ریاض کے جرائم پر چپ سادھے رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ گذشتہ ماہ اے آر وائے نیوز ہی کے ایک پروگرام میں مولانا طارق جمیل بھی ملک ریاض کی تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے ملا چکے ہیں اور ان کی درازی عمر کے لئے اپنے رب کے حضور گڑگڑا کر دعائیں فرما چکے ہیں۔ اللہ ریاض ٹھیکیدار کے لئے ان کی دعائیں قبول فرمائے، اور ہمارے میڈیا، علما اور سیاسی و عسکری اشرافیہ کو بھی توفیق دے کہ وہ اپنے اپنے ذاتی اور گروہی مفاد سے اوپر اٹھ کر غلط کو غلط کہنے کی ہمت پیدا کریں۔ (آمین)