سابق چیف جسٹس پاکستان تصدق حسین جیلانی آئینی معاملات پر عبور رکھتے ہیں۔ جب وہ سپریم کورٹ کے جج بنے تو انہوں نے کئی آئینی معاملات پر اپنے فیصلے بھی دیے اور ان کے فیصلوں میں برطانوی قانون کے حوالوں کی جھلک زیادہ نظر آتی ہے۔
جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی کا تعلق ملتان سے ہے۔ انہوں نے وہیں سے وکالت کی پریکٹس کا آغاز کیا اور 1994 میں لاہور ہائی کورٹ کے جج بنے جبکہ اس سے قبل وہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بھی رہے اور اسی عہدے سے ہی انہیں جج بنایا گیا تھا۔ جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی ان 30 ججوں میں شامل ہیں جن کی تقرری عدالت میں چیلنج ہوئی اور جس کے بعد المعروف ججز کیس جس کا 26 مارچ 1996 کو فیصلہ آیا۔ یہ بھی ان 20 ججز میں شمار ہوئے جن کی اہلیت کو پرکھنے کے بعد درست قرار دیا گیا اور باقی ججز کو عہدے سے ہٹا دیا گیا کیونکہ وہ معیار پر پورے نہیں اتر سکے تھے۔
جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی لاہور ہائی کورٹ کے سینیئر ترین ججز میں شمار ہوتے تھے لیکن وہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نہیں بن سکے کیونکہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی آمریت کے دور میں فواد چودھری کے قریبی عزیز افتخار حسین چودھری کو زیادہ عرصہ تک چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ برقرار رکھا گیا تھا اور جسٹس تصدق حسین جیلانی کو سپریم کورٹ کا جونیئر ترین جج تعینات کر دیا گیا۔ سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چودھری کی ریٹائرمنٹ کے بعد تصدق جیلانی چیف جسٹس پاکستان بنے۔
ججز خط انکوائری کمیشن کے سربراہ اور سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی سابق نگران وزیر خارجہ کے رشتہ دار ہیں اور سابق وزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی کے ساتھ بھی ان کی تعلق داری رہی ہے۔ جسٹس تصدق جیلانی کو ایک بار نگران وزیر اعظم بننے کا بھی موقع مل رہا تھا جو اسی رشتہ داری کی وجہ سے نہ مل سکا۔
سابق چیف جسٹس پاکستان تصدق حسین جیلانی بین الاقوامی عدالت انصاف میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کیس میں ایڈہاک جج بھی رہے ہیں۔
ججز خط انکوائری کمیشن کی سربراہی کیلئے نامزد سابق چیف جسٹس پاکستان قائم مقام چیف الیکشن کمشنر بھی رہے ہیں جب فخر الدین جی ابراہیم نے بطور چیف الیکشن کمشنر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی لاہور ہائی کورٹ کی تعمیراتی کمیٹی کے رکن بھی رہے۔ انہوں نے بتایا کہ تقسیم برصغیر سے قبل لاہور ہائی کورٹ میں لگایا گیا لال پتھر زیادہ تعداد میں منگوایا گیا اور بچ جانے والے پتھر کے بارے میں فیصلہ نہیں ہو رہا تھا کہ اس کا استعمال کہاں کیا جائے، پھر یہ تجویز دی گئی کہ باقی لال پتھر کو ایچیسن کالج کے پرنسپل کے دفتر میں لگایا جائے پھر اس تجویز پر عمل کیا گیا۔
سابق چیف جسٹس پاکستان کو بطور جج آئینی معاملات کے علاوہ انسانی، اقلیتوں اور خواتین کے حقوق بارے ملکہ حاصل تھا۔ تصدق حسین جیلانی کے جج بننے کے بعد جب کوئی ملنے آتا تھا تو اچھے انداز سے ملتے تھے اور ایک بہت ہی دھیمے مزاج کے جج سمجھے جاتے تھے۔ تصدق حسین جیلانی ان ماہرین قانون میں سے ایک ہیں جن کو وکلا میں بڑی عزت اور پذیرائی حاصل ہوئی۔ انہیں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ سابق چیف جسٹس کے بیٹے ثاقب جیلانی ایڈووکیٹ بھی آئینی، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے معاملات پر عبور رکھتے ہیں۔
جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی نے اراکین اسمبلی کی دہری شہریت کے بارے میں انتہائی معروف فیصلہ دیا تھا۔ یہ ان ججوں میں بھی شامل تھے جنہوں نے 1999 میں ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا۔ وہ ان ججوں میں شامل ہیں جنہوں نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی طرف سے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف بھیجے گئے ریفرنس کی سماعت کی تھی۔ اس ریفرنس کا فیصلہ افتخار محمد چودھری کے حق میں دیا گیا تھا جس کے بعد وہ اپنے عہدے پر بحال ہو گئے تھے۔
جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی اس 7 رکنی بنچ کا بھی حصہ تھے جس نے 2007 میں سابق ڈکٹیٹر کی طرف سے لگائی گئی ایمرجنسی کے موقع پر حکم جاری کیا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کا کوئی بھی جج پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھائے اور بیوروکریسی فوجی آمر کا کوئی حکم نہ مانے۔
ججز خط انکوائری کمیشن کے سربراہ بطور جج سپریم کورٹ اس بنچ کا بھی حصہ رہ چکے ہیں جس نے 31 جولائی 2009 کو جنرل پرویز مشرف کے 3 نومبر 2007 کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ تصدق حسین جیلانی سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کے دور میں پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری کے خلاف فیصلہ دینے والے بنچ کا بھی حصہ تھے۔
جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی کا کہنا ہے کہ ججز خط تحقیقاتی کمیشن کا سربراہ بننا ان کے لیے ایک چیلنج ہے اور وہ سپریم کورٹ اور پارلیمان کے ان پر اعتماد کرنے پر ممنون ہیں۔
تصدق جیلانی کہتے ہیں کہ وہ خود سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رہے ہیں، کمیشن کا سربراہ بننا ان کے لیے باعث اعزاز ہے۔ سربراہ ججز خط انکوائری کمیشن نے کہا ہے کہ ابھی تو کمیشن کے قیام کا اعلان ہوا ہے اور کمیشن کے ٹی او آرز دیکھنے کے بعد انکوائری شروع ہو گی۔