وفاقی کابینہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن کی منظوری دے دی۔
ذرائع کے مطابق سابق چیف جسٹس پاکستان تصدق حسین جیلانی انکوائری کمیشن کے سربراہ ہوں گے جس کی وفاقی کابینہ نے منظوری دے دی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہےکہ انکوائری کمیشن اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے الزامات کی انکوائری کرے گا۔
ذرائع کے مطابق وزیر اعظم اور چیف جسٹس پاکستان کے درمیان ملاقات میں انکوائری کمیشن کی تشکیل پر اتفاق ہوا تھا۔
سربراہ کمیشن جسٹس (ر) تصدق جیلانی کا کہنا تھا کہ ججز خط تحقیقاتی کمیشن کا سربراہ بنا میرے لئے ایک چیلنج ہے۔ سپریم کورٹ اور پارلیمان کا مجھ پر اعتماد کرنے پر ممنون ہوں۔
سربراہ انکوائری کمیشن کا کہنا تھا کہ میں خود سپریم کورٹ کا چیف جسٹس رہا ہوں۔ میرے لئے کمیشن کا سربراہ بننا باعث اعزاز ہے۔ ابھی تو کمیشن کے قیام کا اعلان ہوا ہے۔ ابھی تک کمیشن کے ٹی او آرز نہیں دیکھے۔کمیشن کے ٹی او آرز دیکھنے کے بعد انکوائری شروع ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات صاف، شفاف اور میرٹ پر ہوں گی، انکوائری کمیشن کا مقصد ہے کہ عدلیہ کی آزادی برقرار رہے۔
خیال رہے کہ تصدق حسین جیلانی پاکستان کے 21ویں چیف جسٹس رہے ہیں جن کی وجہ شہرت پشاور کے چرچ میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے ازخود نوٹس کا فیصلہ بنا۔
پاکستان نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان تصدق حسین جیلانی کو دی ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کے معاملے پر ایڈہاک جج مقرر کیا تھا۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
واضح رہے کہ 26 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز نے ججوں کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا خط سامنے آیا تھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا۔
خط میں کہا گیا کہ ہم بطور اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز سپریم جوڈیشل کونسل سے ایگزیکٹیو ممبران بشمول خفیہ ایجنسیوں کے ججز کے کام میں مداخلت اور ججز کو دباؤ میں لانے سے متعلق رہنمائی چاہتے ہیں۔
خط میں کہا گیا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے نتیجے میں سامنے آیا جس میں سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سال 2018 میں برطرفی کو غلط اور غیر قانونی قرار دیا گیا اور کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔
خط میں لکھا گیا کہ ججز کا موجودہ کوڈ آف کنڈکٹ اس حوالے سے رہنمائی کرنے سے قاصر ہے کہ ججز کی جانب سے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کا کا کیا ردعمل دیا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس بات کی تحقیقات انتہائی اہم ہیں کہ کیا ریاست کی جانب سے عدلیہ کے کام میں مداخلت کی پالیسی اب بھی جاری ہے جس پر خفیہ ایجنسی کے اہلکار عمل درآمد کرواتے ہیں؟
ججز کی جانب سے لکھے گئے خط میں اسلام آباد کی عدلیہ کو خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے درپیش دھمکی امیز واقعات کا بھی ذکر کیا گیا۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط کی اوپن کورٹ تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر ہوگئی۔
میاں داؤد ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی جس میں سپریم کورٹ سے با اختیار کمیشن تشکیل دے کر انکوائری کروانے استدعا کی گئی ہے۔
اس معاملے پر سپریم کورٹ کے 2 فل کورٹ اجلاس ہوئے تھے جبکہ چیف جسٹس اور وزیراعظم کی ملاقات بھی ہوئی تھی جس کے بعد حکومت نے عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا۔