وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نےکہا ہےکہ جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی کو کمیشن کا سربراہ بنانے سے پہلے ان سے رضامندی حاصل کرلی تھی تاہم ان کے انتخاب کے بعد جس طرح سوشل میڈیا اور میڈیا پر معاملے کو متنازعہ بنایا گیا جو ان کے انکار کی وجہ بنی۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں بات چیت کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ کابینہ کی طرف سے کمیشن کے ٹی او آرز کی منظوری کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے مجھے دوبارہ جسٹس (ر) تصدق حسین سے رابطہ کرنے کا کہا تھا ۔ جس پر انہیں ٹی او آرز بھی بھیجے گئے تھے، جس کے بعد انہوں نے کمیشن کا سربراہ بننے کی پیشکش بخوشی قبول کی۔ جسٹس تصدق نے کہا کہ اگر تمام سٹیک ہولڈرز کی خواہش ہے تو کمیشن کی سربراہی ضرور کروں گا۔
وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ اس کے بعد شام میں جس طرح سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس معاملے کو متنازعہ کیا گیا۔ بدقسمتی سے اس معاملے پر دھاوا بولاگیا، یہ بھی شاید ان کے انکار کی وجہ بنی ہے۔ میں ایک ٹویٹ پڑھ رہا تھا کہ 'بڑک اور سڑک کی سیاست نے ہمارا بہت نقصان کیا ہے'۔ میں اسی لیے بہت دلگرفتہ ہوں۔
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ انہیں سپریم کورٹ کی طرف سے سوموٹو لینے پر حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ تصدق حسین جیلانی کی کمیشن سے علیحدہ ہونے کی اطلاع سوموٹو نوٹس سے ایک گھنٹہ پہلے وزیراعظم ہاؤس میں آ چکی تھی۔ میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ان کا اپنا فیصلہ ہے انہوں نے اپنے لیے بہتر سوچا ہو گا۔ بہرحال اگر وہ کمیشن کی سربراہی کرتے تو اچھا ہوتا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی کی جانب سے کمیشن سربراہ بننے سے انکار کے بعد سپریم کورٹ نے جو سوموٹو لیا وہ درست فیصلہ ہے۔ کیونکہ جو صورتحال ہے مجھے لگتا ہے کہ چیف جسٹس نے بالکل صحیح فیصلہ ہے۔
وفاقی وزیر قانون نے یہ بھی کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ آرٹیکل 184 تھری کے دائرہ کار میں سپریم کورٹ حقائق کی انکوائری نہیں کرسکتی۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ شاید ماضی کی طرح اس معاملے میں کمیشن بنایا جائے یا سپریم کورٹ خود اس معاملے کو دیکھےکیوںکہ معاملے میں ججوں کی موجودگی کی وجہ سے شاید جے آئی ٹی بنانا مناسب نہ ہو۔
پی ٹی آئی کی جانب سے فل کورٹ سماعت کے مطالبے کے حوالے سے اپنی ذاتی رائے دیتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ فل کورٹ سماعت کی ضرورت ہے۔ تین پانچ یا سات ججز کا بینچ بھی بیٹھ کر اس معاملے پر فیصلہ کر سکتا ہے کہ اس میں کیا میکنزم ہونا چاہیے؟ کس طرح اس معاملے کی تحقیقات کرنی ہیں؟ ججز نے خط میں جو سوالات اٹھائے ہیں ان کا کیسے جواب یا جائے گا؟ بہر حال یہ صوابدید اب عدالت کی اور اس بینچ کی ہے کہ اس معاملے کے لیے فل کورٹ بینچ بنا دیں یا لارجر بینچ۔ اس پر حکومت کو کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں۔
واضح رہے کہ پیر کو جسٹس (ر) تصدق جیلانی نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط پر الزامات کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے انکوائری کمیشن کی سربراہی سے انکارکیا تھا جبکہ انہوں نے بذریعہ خط فیصلے سے وزیراعظم شہباز شریف کو آگاہ کیا۔
خط میں سابق چیف جسٹس نے لکھا کہ مناسب ہوگا چیف جسٹس ادارے کی سطح پر اس ایشو کا فیصلہ کریں۔ خود پر اعتماد کرنے پر وزیراعظم اور کابینہ کا مشکور ہوں۔ چیف جسٹس اور سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ کا بھی مشکور ہوں تاہم میں ذاتی مصروفیات کی بنا پر کمیشن کی سربراہی نہیں کرسکتا۔
خط کے متن میں جسٹس (ر) تصدق جیلانی نے مزید کہا کہ ہائیکورٹ ججز نے خط سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا۔ سپریم جوڈیشل کونسل خودایک آئینی باڈی ہے۔ میرے لیے اس معاملے کی انکوائری کرنا جوڈیشل پروپرائرٹی کی خلاف ورزی ہوگی۔ اگرچہ ہائیکورٹ ججز کا خط پوری طرح آئین کے آرٹیکل 209 کا بھی نہیں بنتا۔ چیف جسٹس ادارہ جاتی سطح پر اس معاملے کو بہتر حل کر سکتے ہیں۔
جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی کا مزید کہنا تھا کہ کمیشن کے ٹی او آرز معاملے سے صحیح مطابقت نہیں رکھتے۔ ججزنے خط میں ادارہ جاتی مشاورت کی بات کی تھی۔
خیال ہے کہ وفاقی حکومت نے 30 مارچ 2024 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط کے معاملے پر جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی کو انکوائری کمیشن کا سربراہ بنایا تھا۔