Get Alerts

ججز کے خط کا معاملہ: جوڈیشل انکوائری کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر

درخواست میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ خود ججز کے خط معاملہ پر انکوائری کرے۔ ججز کو دھمکانے اور عدالتی امور میں مداخلت کے ذمہ داران کو مثالی سزا دی جائے۔

ججز کے خط کا معاملہ: جوڈیشل انکوائری کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر

اسلام آباد ہائیکورٹ ججز  کی جانب سے عدالتی امور میں مداخلت کے خط کے معاملے کی جوڈیشل انکوائری کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی۔

سپریم کورٹ میں درخواست لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر کی گئی، جس میں حکومت پاکستان اور وفاق کو فریق بنایا گیا۔

درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ چھ ججز کے 25مارچ کے خط میں لگائے الزامات کی سپریم کورٹ ججز سے جوڈیشل انکوائری کروائی جائے ۔

درخواست میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ حکومتی کمیشن کی تشکیل کو کالعدم قرار دے۔ سپریم کورٹ خود ججز کے خط معاملہ پر انکوائری کرے۔ ججز کو دھمکانے اور عدالتی امور میں مداخلت کے ذمہ داران کو مثالی سزا دی جائے۔

گزشتہ روز  جسٹس (ر) تصدق جیلانی نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط پر الزامات کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے انکوائری کمیشن کی سربراہی سے انکارکردیا تھا جس کے بعد چیف جسٹس نےججز کے خط کے معاملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے پرنسپل سیٹ اسلام آباد پر موجود تمام ججز پر مشتمل سات رکنی لارجر بینچ بھی تشکیل دے دیا۔

7 رکنی بینچ کی سربراہی چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کریں گے۔ جسٹس منصور علی شاہ یحییٰ خان آفریدی جمال خان مندخیل، جسٹس اطہر من اللہ ،جسٹس مسرت ہلالی جسٹس نعیم اختر افغان بینچ میں شامل ہیں۔ 

سپریم کورٹ کا لارجر بینچ بدھ کو  ساڑھے گیارہ بجے سماعت کرے گا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

خیال رہے کہ ملک بھر کے 300 سے زیادہ وکلا نے 6 ججوں کی جانب  سے خط کے معاملے پر سپریم کورٹ سے از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔

وکلا کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہےکہ ہائیکورٹ کے 6  ججوں کے ساتھ اظہاریکجہتی اور ان کے جرأت مندانہ اقدام کو سراہتے ہیں۔ ہائیکورٹ ججوں کے خط کے معاملے پر  مناسب کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔یہ عوامی مفاد اور بنیادی حقوق کے نفاذ کا معاملہ ہے، سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس معاملے کا نوٹس لے۔ سپریم کورٹ تمام دستیاب ججوں پر مشتمل بینچ تشکیل دے کر سماعت کرے۔

خط میں کہا گہا ہےکہ مفاد عامہ کی کارروائی کو عوام کے لیے براہ راست نشرکیا جائے۔ اگر جج بغیرکسی خوف  انصاف کی فراہمی میں آزاد نہیں تو پھر وکلا سمیت پورا قانونی نظام اہمیت نہیں رکھتا۔ یہ پہلا موقع نہیں اس سے قبل شوکت صدیقی نے بھی ایسے الزامات لگائے تھے۔

خط میں کہا گیا ہےکہ فوری اور  شفاف انکوائری میں ناکامی سے عدلیہ کی آزادی  پر عوام کے اعتماد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔  تمام بار ایسوسی ایشنز  اجتماعی لائحہ عمل طےکرکے فوری وکلا کنونشن بلائیں۔ اس معاملے کو  شفاف طریقے سے نمٹا کر عدلیہ کی آزادی  پر عوام کا اعتماد بحال کرنےکی ضرورت ہے۔  شفافیت یقینی بنانے کے لیے اس معاملے کو سیاست زدہ نہ کیا جائے۔

وکلا نے مطالبہ کیا ہےکہ سپریم کورٹ گائیڈ لائنز  مرتب کرے اور  تمام ہائیکورٹس سے مل کر شفاف ادارہ جاتی میکانزم قائم کرے۔  مؤثر اور شفاف طریقے سے اس معاملے کو نمٹایا  جائے تاکہ مستقبل میں عدلیہ کی آزادی  پر حرف نہ  آئے۔

واضح رہے کہ 26 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز نے ججوں کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا خط سامنے آیا تھا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا۔

خط میں کہا گیا کہ ہم بطور اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز سپریم جوڈیشل کونسل سے ایگزیکٹیو ممبران بشمول خفیہ ایجنسیوں کے ججز کے کام میں مداخلت اور ججز کو دباؤ میں لانے سے متعلق رہنمائی چاہتے ہیں۔

خط میں کہا گیا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے نتیجے میں سامنے آیا جس میں سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سال 2018 میں برطرفی کو غلط اور غیر قانونی قرار دیا گیا اور کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔

خط میں لکھا گیا کہ ججز کا موجودہ کوڈ آف کنڈکٹ اس حوالے سے رہنمائی کرنے سے قاصر ہے کہ ججز کی جانب سے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کا کا کیا ردعمل دیا جائے، ہم سمجھتے ہیں کہ اس بات کی تحقیقات انتہائی اہم ہیں کہ کیا ریاست کی جانب سے عدلیہ کے کام میں مداخلت کی پالیسی اب بھی جاری ہے جس پر خفیہ ایجنسی کے اہلکار عمل درآمد کرواتے ہیں؟

ججز کی جانب سے لکھے گئے خط میں اسلام آباد کی عدلیہ کو خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے درپیش دھمکی امیز واقعات کا بھی ذکر کیا گیا۔