ہاتھ کی صفائی ایک آرٹ ہے جسے مغرب نے عروج پر پہنچایا۔ سٹیج پر ہزاروں کے مجمع کے سامنے انڈہ غائب کر دینا، رومال غائب کر دینا حتیٰ کہ کسی لڑکی کو دو حصوں میں تقسیم کر دینا، یہ سب محیر العقول کام صرف ہاتھ کی صفائی ہوتے تھے۔ حقیقت میں کچھ نہیں ہوتا تھا۔ پتہ نہیں ہمارے 'جادوگروں' نے وہاں سے یہ آئیڈیا لیا یا کہیں اور سے لیکن ہاتھ کی صفائی کے وہ فی زمانہ ماہر ترین افراد ہیں۔ ان کی جادوگریوں سے سانپ بھی مر جاتا ہے اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی۔
پچھلی بار غلطی کہاں ہوئی تھی؟
تیرہ میں وہ میڈیا کے کچھ حصوں کو سدھار کر یہ امید لگا بیٹھے تھے کہ کام ہو گیا لیکن معلوم ہوا کہ فی زمانہ جادو بھی ایک اسی طرح کی سائنس ہے جس طرح 'روحانیت'۔ اس دفعہ جادوگروں نے کئی سال پہلے محنت شروع کر دی۔ سب سے پہلے میڈیا پر کام شروع کیا گیا۔ احمد نورانی جیسے ڈھیٹوں کے لئے غیب سے ایسے سخت گیر فرشتے منگوائے گئے جو ہتھ چھٹ تھے۔ چوٹوں کی ٹیسوں سے اٹھنے والی کراہ اور نارمل آواز میں جو فرق ہوتا ہے، اس سے اس جادو کی پائیداری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بھٹی میں تپ کر کندن بن جابے والے ارشاد بھٹیوں، عارف حمید بھٹیوں، صابر شاکر اور سب سے بڑھ کر وہ قابل احترام شخصیت کہ جس کا نام سنتے ہی عزت، راست گوئی، کردار کی عظمت اور ذہانت کا ایک ہالہ چاروں طرف چھا جاتا ہے، مبشر لقمان۔ ان 'ناموں' کو اتنا معتبر بنا دینا کہ وہ اگر کہیں کہ کلثوم نواز مر چکی ہے تو آپ ایمان لے آئیں اور اگر وہ کہیں کہ فی الحال وہ زندہ ہیں تو آپ کے دلوں میں وہ زندہ ہو جائیں، اسی جادو کا ایک ادنیٰ کرشمہ ہے۔ نئے آنے والے چینل نائینٹی ٹو، سیون، پبلک وغیرہ کو تو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی، پرانوں کو راہ راست پر لانے میں کچھ تردد کرنا پڑا۔ جب نارمل منتر نہ چلے تو جادوگروں نے اس ہولناک تجربے کو آزمایا جس میں مؤکل کی موت کا بھی امکان ہوتا ہے۔ کچھ دن جب جیو کا سانس بند کیا تو اس کی عقل فوراً ٹھکانے پر آ گئی۔ ڈان، خبیث، البتہ ایسا ڈھیٹ ہے کہ تین مہینے سے اوپر ہو گئے اس کا ٹیٹوا دبائے، ابھی تک اس کے نڑخڑے سے آوازیں برآمد ہو رہی ہیں۔ باقی بتیس چینل، الحمد للہ، راہ عمران پر آ گئے۔
کچھ ٹیڑھی کھیروں کو سیدھا کرنے والا سادہ منتر، جو موبائل فون پر بھی دستیاب ہے
جادوگروں کی دوسری صفائی ایک اور ادارے کی تھی۔ یہ بادی النظر میں ایک ٹیڑھی کھیر تھی جسے ایک سابقہ سربراہ حق گوئی کی بد علت لگا گیا تھا۔ کام مشکل تھا لیکن ناممکن نہیں۔ خیر ان کے بیرون ملک دوروں میں کی گئی عیاشی، کسی کیس میں پکڑی رقم، کسی پلاٹ کا کوئی مدعا، یہ سب تو آج کل صرف موبائل فون کالوں سے ہی مل جاتا ہے۔ کچھ جو ذرا ٹیڑھے تھے ان کو غیب سے آنے والی کالوں، بچوں کے تحفظ، بیوی کو آنے والے ڈراؤنے خوابوں سے سیدھا کیا گیا۔ یہ سلسلہ جو شروع ہوا تو پھر تو ایسی ساون کی جھڑی لگی کہ کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ وہ صرف مؤدبانہ پوچھ لیتے تھے کی اس کا کیا کرنا ہے؟ اب جادوگروں کی بھی کوئی مجلس عاملہ ہوتی ہے۔ کئی دفعہ مشاورت میں دیر ہو گئی تو فیصلوں میں کچھ گھنٹوں کی تاخیر ہو جاتی تھی۔ کئی دفعہ تو رات گیارہ بھی بجے۔ جادو میں یہ کچھ تو ہوتا ہے۔ ایک ڈھیٹ ہڈی البتہ ابھی تک کسی منتر میں نہیں آ رہا۔ عجیب روح ہے، ابھی تک چکنی مچھلی بنا ہوا ہے، اپنی شوکت کردار کے خبط میں مبتلا ہے۔ کر لیں گے اسے بھی سیدھا۔
اس بونے کو کچھ کہنے کی بجائے اکثر روکنا پڑ جاتا ہے
میڈیا پر روز رات کو سات سے دس بجے تک گالم گلوچ شو ہوتا تھا۔ اس کا ایسا کمال کا اثر ہوا کہ چھابڑی والے سے لے کر پی ایچ ڈی تک سب یک زبان چور چور کی خوش کن چہچہاہٹ سننے کو ملتی۔ کیا بات ہے جادوگروں کی۔
ترازو کو ایک طرف جھکایا ہی تھا کہ موجودہ 'بونا' آ گیا۔ پھر تو ہم ہوئے تم ہوئے والی بہار لگ گئی۔ اسے کہنے کی بجائے کئی دفعہ روکنا پڑ جاتا ہے۔ ریلوے پر اس کے نوٹس نے جادوگروں کو بھی برافروختہ کر دیا کہ جس نے ریلوے کے مردہ بدن میں روح پھونک دی، اسے ہی نوٹس۔ یہ 'چنے والا' گو ایک سخت مشکل کردار ہے لیکن اس پر کام جاری تھا۔ ایسے میں اسے نوٹس کے ذریعے بہت کچھ عیاں ہونے کا اندیشہ تھا۔ وہ تو شکر ہے کہ ساحر مدہوشی نے ایسا گھوٹ کے قوم کو پلایا ہوا ہے کہ الحمدللہ قوم لمبی تان کر سوئی رہی۔
'چوروں' کی آخری 'پین دی سری' کرنے کے لئے ایک لنگڑے کو میدان میں اتارا گیا
الیکشن کے قریب ایک اور سحر ان پر بھی پھونکنا پڑا جن کے حلقوں میں جیت یقینی تھی۔ اس کے بعد احتیاطاً 'چوروں' کی آخری 'پین دی سری' کرنے کے لئے ایک لنگڑے کو میدان میں اتارا گیا۔ اس نے تو دل خوش کر دیا۔ ان حلقوں میں تیسرے نمبر پر آیا جہاں جیت کا مارجن بہت کم تھا۔ جن حلقوں میں یہ نہیں چلتا تھا وہاں یہ کام جیپ سواروں نے بخوبی سر انجام دیا۔ کراچی میں ڈولفن سمندر سے نکل کر پتنگیں کاٹنے میں مصروف ہو جائے، یہ جادو بھی انہی کی کرامت ہے۔
سوشل میڈیا کا ایسا حال کیا کہ بلیو وہیل بھی آ کر شرما سی گئی
ایک اور کرامت سوشل میڈیا رہا۔ اللہ اللہ ایسی ایسی جادوئی پوسٹ اور ایسا ایسا اس پر قوم کا جھومنا۔ وہاں تو یہ حال ہو گیا تھا کہ بلیو وہیل پاکستان میں آ کر شرمندہ ہی ہو گئی۔ وہاں پہلے سے ایسی جادوئی وہیل کا راج تھا کہ جو ہاں کہیں تو ہاں، نہیں کہے تو نہیں۔
جادوگروں کو بھی جادو ہو جاتا ہے۔ اس سارے جادو کے بعد بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ عظیم اور غیور پختونوں کو کس طرح سحر زدہ کیا جائے۔ وہاں 'فرشتے' نے دھیلے کا کام نہیں کیا تھا۔ پشاور میٹرو کے نام پر ادھڑا پڑا تھا، لیڈی ریڈنگ میں بدبو، گندگی کے ابنار تھے۔ کوئی نیا ہسپتال، یونیورسٹی، بجلی کا کارخانہ نہیں لگا تھا۔ بحرین کالام ستر کلومیٹر روڈ پانچ سال میں نہیں بنی تھی، مردان چکدرہ اکاسی کلومیٹر موٹر وے پانچ سال بعد نامکمل تھی۔ موا نواز شریف وہاں لواری ٹنل مکمل کر چکا تھا۔ وفاقی حکومت کی طرف سے چکدرہ میں کڈنی ہسپتال بنا چکا تھا۔ کافی سوچ بچار کے بعد اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا کہ چلو تیس چالیس سیٹیں ہی ہیں نا، آٹھ دس تو الیکٹیبل نکال لیں گے۔ کے پی نے لیکن جادوگروں کو بھی حیران کر دیا۔ انہوں نے آنکھوں پر پٹی باندھ کر ایسے ووٹ دیا کہ چور تو ایک طرف سراج الحق جیسا فرشتہ بھی روند ڈالا۔ ایک بات البتہ سمجھ میں آ گئی کہ یہ پرفارمنس پر ووٹ وغیرہ، سب بکواس ہوتی ہے۔ مصالحہ ووٹ ڈلواتا ہے، تماشا ووٹر کو کھینچتا ہے۔
دامن پر کوئی چھینٹ نہ خنجر پر کوی داغ
تم الیکشن کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
سید جواد احمد لاہور میں مقیم محقق اور تجزیہ نگار ہیں۔ پاکستان کے شمالی علاقوں پر دو کتب لکھ چکے ہیں۔