گزشتہ 72 سالوں میں فلسطینی عوام شہید ہورہے ہیں۔جنگ کی حالت میں زندگیاں گزار رہے ہیں۔پچھلے بیس سالوں کے دوران پاکستان میں فلسطین کی آزادی کے حق میں کوئی بڑا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔جذباتی بیانات اور کہانیوں سے فلسطینی عوام کےلئے کیا آسانی پیدا ہوئی ہے۔کتنے فلسطینی اسرائیلی جیلوں سے رہا ہوئے ہیں۔ کشمیر ہماری شہ رگ ہے ۔ کشمیر میں پاکستان کی حکومت اور عوام نے کیاکر دار ادا کیاہے۔افغانستان،عراق،شام،
امت یا امہ کا تصور محض خیالی ہے۔عملی طور پرامہ کے تصور کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔امہ کا حقیقی وجود ہوتا تو عراق،شام ،افغانستان،لیبااور یمن جیسے آباد ملک کھنڈرات میں تبدیل کرنے کی کسی کو جرات نہ ہوتی اور نہ پاکستان میں غربت،مہنگائی اور دہشت گردی کا ناسور اس قدر پھیلتا اورہم دربدر قرض مانگتے پھر رہے ہوتے۔
امہ کے تصور کی صرف پاکستان میں خودفریبی اور فوبیا ہے۔امہ کی مرکزیت کا کہیں کوئی نام و نشان تک نہیں ہے۔مسلم دینا کےعقیدت کے مراکز سعودی بادشاہت کی ملکیت ہیں۔دنیا بھر کے مسلمانوں کو خانہ کعبہ اور روضہ رسولﷺ کی زیارت کےلئے سعودی عرب کا ویزہ لینا پڑتا ہے۔مسلمانوں کےلئے تو عقیدت کے مراکز کھلے نہیں ہیں کہ مسلمان بغیر ویزے کے زیارت ہی کرسکیں۔حج و عمرہ مفت میں نہیں کیا جاسکتا ہے۔خریدنا پڑتا ہے۔
جلتی آگ پر تیل ڈالنے سے آگ بھڑ کتی ہے۔ہم نے صرف تیل ہی ڈالا ہے۔اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کےجذباتی نعرے لگائے ہیں۔سنجیدگی کے ساتھ کبھی بات نہیں کی ہے۔آگ پر پانی ڈالنے اور آگ کو بجھانے کےلئے کبھی کوشش نہیں کی ہے۔ کبھی سوچا ہےان پر کیا گزر رہی ہے جو برسوں سے اس آگ میں جل رہے ہیں۔کتنی انسانی جانیں اس آگ نے بھسم کردی ہیں۔ کیا یہ آگ جلتی رہے گی۔اس آگ کو بجھایا نہیں جائے گا۔کیا فلسطینی عوام کا یہی مقدر رہے گا ۔فلسطینی عوام بھی آزادی چاہتے ہیں۔جنگ سے نکلنا چاہتے ہیں۔آزاد فضاوں میں سانس لینا چاہتے ہیں۔
دنیا انگڑائی لے چکی ہے۔سب کچھ بدل گیا ہے۔گلوبل ویلج کا تصور حقیقت بن چکا ہے۔مگر ہم کہاں کھڑے ہیں۔ گلوبل ویلج میں ہماری پوزیشن کیا ہے۔ محض قرض خوار ، سیاسی،سماجی،معاشی اور اخلاقی پستی۔
پاکستان میں بدقسمتی سے نفرت ،تعصب اورلعنت وملامت کی تعلیم ریاست کا بیانیہ ہےجو عوام میں سرایت کرچکا ہے۔ ریاست کے بیانیہ کے برعکس امن ،ترقی اوربھائی چارہ کے خیالات غداری قرار پاتے ہیں۔ نوبل انعام یافتگان کے پاکستانیوں کو ملک میں امان نہیں ملتی ہے۔ان کی تصویریں بھی برداشت نہیں کی جاتی ہے۔تصویروںپرسیاہی پھیردی جاتی ہےمگر نفرت کے علم برداروں کے جنازے بھی دھوم دھام سے ہوتے ہیں اور ان پر تفاخربھی ہوتا ہے۔
اسرائیل سے نفرت یا محبت فلسطین کی آزادی کا سبب نہیں بن سکتی ہے۔ عرض صرف اتنی ہے کہ ہم گزشتہ 72 سالوں میں نفرتوں،لعنت وملامت،تکفیریت اور غدار ی کے کارخانے چلارہے ہیں۔زیادہ نہیں ۔اک سال کےلئے نفرتوں کا کاروبار چھوڑ دیں۔بند بے شک نہ کریں۔صرف ایک سال محبت،امن،بھائی چارے کو بھی دے کر دیکھیں کہ کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔چلیں 2021 کا سال فلسطین کے نام کرتے ہیں ۔خود مختار فلسطین کے نام کرتے ہیں۔محبت،امن،بھائی چارے اور نفرتوں کومٹانے کے نام کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ محبت فاتح عالم ہے۔