کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

چھ ماہ کا عرصہ کسی بھی نوزائیدہ حکومت کی کارکردگی جانچنے کیلئے انتہائی قلیل مدت ہے۔ خاص طور پر جب حکومت میں آنے والی جماعت حکمرانی کے چیلنجز سے نمٹنے کا تجربہ نہ رکھتی ہو۔ گو تحریک انصاف میں بہت سے ایسے افراد شامل ہیں جنہیں سیاست اور رموز حکمرانی کا طویل تجربہ حاصل ہے لیکن ایک ٹیم کے بننے میں ہمیشہ وقت لگتا ہے۔ اور شاید یہی اس وقت حکمران اتحاد کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی زیر قیادت حکمران اتحاد یہ تاثر پیش کر رہا ہے کہ یہ طرز حکمرانی کے اسرار سمجھنے کیلئے ابھی ناپختہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کی نوزائیدہ ٹیم کیلئے معاملات کو مزید بگاڑنے کا سبب دو تجربہ کار سیاسی جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن ہے جنہوں نے 80 کہ دہائی کے درمیانی عشرے سے لیکر آج تک طاقت کے ایوانوں میں وقت صرف کیا ہے۔ سول انتظامیہ بھی سیاسی وابستگیوں کا شکار ہے۔


حکومت کی بدقسمتی ہے کہ سول انتظامیہ آج کل ہمہ وقت نیب کی تلوار سر پر لٹکنے کے باعث تقریباً غیر فعال ہو چکی ہے۔ تیسرا اہم عنصر جو حکومت کیلئے حکمرانی کرنا مشکل بنا رہا ہے وہ میڈیا ہے، جس کہ ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت وقت کی کارکردگی پر نگاہ رکھے۔ اب یوں ہے کہ وہی میڈیا جو تحریک انصاف کو کنٹینر کے احتجاج کے دنوں میں مدد فراہم کرتا تھا، آج حکمران اتحاد کے ہر اقدام اور پالیسیوں پر سوالات اٹھا رہا ہے۔ تحریک انصاف کی بدقسمتی یہ ہے کہ میڈیا اس کی کارکردگی کو ان معیارات کے مطابق جانچ رہا ہے جن کا اعادہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر کیا گیا تھا۔ نتیجتاً اس وقت وطن عزیز ایک نامعلوم سفر کے دھانے پر کھڑا ہے اور اس وقت عدالتیں ضرورت سے زیادہ فعال اور اسٹیبلشمنٹ مکمل طور پر سرگرم ہے جو جمہوری پردے کے پیچھے سے راج کر کر کے تھک چکی ہے۔ فوری طور پر مخالف سیاسی کیمپوں کیلئے سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور الزامات کےکھیل میں نہ الجھنا ناممکن ہو گا۔ لیکن مستقبل کو مد مظر رکھتے ہوئے وہ تمام فریقین جو اس سیاسی بساط پر معنی رکھتے ہیں اپنے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر اس نظام کو چھیڑ کر حالات کو اس بحرانی نہج تک نہیں لے جائیں گے جس کے نتیجے میں منتقلی اقتدار کے جاری عمل کی بساط کو لپیٹ دیا جائے۔ فوجی حکمرانی سے اصل جمہوری نظام تک کا عمل مرضی سے بٹن دبا کر آن یا آف نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ایک دفعہ یہ شروع ہو جائے تو تاریخی حوالوں کے تناظر میں یہ عمل طویل مدت میں اپنے وزن کے ساتھ خود اپنا راستہ بناتا ہے۔



پاکستان 2008 کے انتخابات سے ظاہر شدہ نو سالہ آمریت کے دور کے بعد جمہوری عمل کے منتقلی کے دور سے گزر رہا ہے۔ اس عمل میں اسٹیبلشمنٹ ایک ایسے کھلاڑی کے طور پر موجود رہی ہے جو اپنی مرضی سے یہ عمل نہیں جاری رکھنا چاہتی اور جو صرف اپنے لئے وقت خرید کر ایک صحیح موقع کا انتظار کر رہی ہے تاکہ اپنی طاقت کو پھر سے بحال کر سکے۔ ہمیشہ کی مانند اداروں کی کنفیوژن اور تنظیمی بدنظمی جو اس منتقلی اقتدار کے عمل کے ساتھ آتی ہیں، قوم کے صبر کا امتحان لیے جا رہے ہیں۔ اس لئے اس بات کا امکان موجود ہے کہ یہ انتقال اقتدار کا عمل یکدم تعطل کا شکار ہو جائے اور ایک بار پھر غیر جمہوری اقدام کا شکار ہو جائے۔ دراصل یہ خدشہ کبھی بھی کم نہیں ہوا۔



پاکستان نے اپنی مختصر 71 سالہ تاریخ میں اس طرح کے غیر جمہوری تعطل کو تین مواقع پر بھگتا ہے۔ منتقلی اقتدار کا پہلا مرحلہ گیارہ برس تک جاری رہا جس کے دوران ایک نوزائیدہ قوم نے برطانوی تاج سے ایک جمہوریہ بننے کے عمل کے دوران اس عمل سے منسلک افراتفری کے نتیجے میں پہلا فوجی مارشل لا دیکھا جو بعد ازاں 1971 میں ملک کو دو لخت کرنے کا باعث بنا۔ انتقال اقتدار کا اگلا مرحلہ محض پانچ برس تک ہی چل پایا اور ایک بار پھر فوج نے طاقت کے ایوانوں ہر قبضہ جما لیا۔ جب تک یہ مارشل لا 1987 میں طیارہ تباہ ہونے کے بعد ختم ہوا اس وقت تک مذہبی منافقت پاکستان کی نظریاتی بنیادوں میں رچ بس چکی تھی۔


تیسرا انتقال اقتدار کا مرحلہ جو کبھی بھی شفاف نہیں تھا کیونکہ فوج اس عمل کے دوران پردے کے پیچھے سے حکومتوں کو کنٹرول کرتی رہی گیارہ برس تک جاری رہا اور ایک بار پھر مارشل لا کی صورت میں اختتام کو پہنچا۔ ان گیارہ سالہ پس پردہ فوجی حکمرانی اور پھر بعد میں نو سالہ پردے کے سامنے سے نافذ فوجی آمریت کے نتیجے میں پاکستان مکمل طور پر ایک دفاعی ریاست میں تبدیل ہو گیا۔



جس وقت 2008 میں نئے عام انتخابات کا انعقاد کیا گیا، اس وقت تک ملک مکمل طور پر اپنے بانیوں کے تصورات اور 1973 کے دستور کے برعکس مخالف سمت میں گامزن ہو چکا تھا۔ آج کل پاکستان میں انتقال اقتدار کا چوتھا مرحلہ جاری ہے۔ رخصت ہونے والی فوجی حکومت نے ایک بگڑا ہوا آئین پیچھے چھوڑا اور کوئی بھی ایسا ادارہ باقی نہیں بچا جو محض نمائشی طور پر ہی جمہوری قرار دیا جا سکے۔


لیکن انتقال اقتدار کا یہ مرحلہ اب اپنے آخری راؤنڈ میں داخل ہو چکا ہے کیونکہ فوج طاقت کے اس کھیل میں تحریک انصاف کی حکومت کے باعث واپس آنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے شاید دانستہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اسے سیاسی بساط پرجگہ فراہم کی ہے اور بدلے میں سیاسی طاقت کو بنا کسی اختیار کے نمائشی طور پر دکھاوے کیلئے حاصل کرنے پر اکتفا کر لیا ہے۔



موجودہ صورتحال میں دو تجربہ کار ترین سیاسی جماعتیں مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی ایک منفرد قسم کے عدالتی ایکٹوزم کا سامنا کر رہی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کی قیادت اس عدالتی ایکٹوزم کے نتیجے میں کھیل سے باہر ہو چکی ہے۔ شاید پیپلز پارٹی کی قیادت کا بھی عدالتی ایکٹوزم کے نتیجے میں جلد ہی ایسا ہی انجام متوقع ہے۔ منتقلی اقتدار کا وہ مرحلہ جو 2008 میں شروع ہوا تھا اس وقت انتہائی تناؤ کا شکار ہو گیا تھا جب اس وقت کی منتخب حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ڈان لیکس کے مدعے کو لیکر تنازع شروع ہوا۔ اسٹیبلشمنٹ نے جوابی کارروائی کی اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کی قیادت کو عدالتوں میں گھسیٹا اور 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے تحریک انصاف کی زیر قیادت اسمبلیوں میں نشستوں کی تعداد کے اعتبار سے ایک کمزور حکومتی اتحاد کو مسند اقتدار پر بٹھا دیا۔


یہ حکومتی اتحاد اسٹیبلشمنٹ کے چنگل سے اپنے آپ کو آزاد کروانے کیلئے پارلیمان میں بھی انتہائی کمزور ہے۔

مصنف سینیئر صحافی اور انگریزی اخبار ایکسپریس ٹربیون کے مدیرِ اعلیٰ رہے ہیں۔