فوج سیاست سے دور جاتی ہے تو سیاست دان اسے واپس بلا لیتے ہیں

فوج سیاست سے دور جاتی ہے تو سیاست دان اسے واپس بلا لیتے ہیں
موجودہ سیاسی حالات کا اگر جائزہ لیں تو ایک بات واضح نظر آتی ہے کہ فوج اپنے آپ کو غیر جانبدار رکھنے کا فیصلہ کر چکی ہے اور ڈی جی آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر نے ایک غیر معمولی پریس کانفرنس کرکے تمام باتیں واضح کر دی ہیں۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی حاضر سروس ڈی جی آئی ایس آئی کی پہلی پریس کانفرنس ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ فوج کو پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات کی نزاکت کا بخوبی اندازہ ہے ۔ ان کی جانب سے وہ تمام امور اس پریس کانفرنس میں زیر بحث لائے گئے جن پر آج کل پاکستان کے سیاسی حلقوں میں خدشات اور تحفظات پائے جاتے ہیں۔

فوج کی پریس کانفرنس میں زیادہ تر اشارے تحریک انصاف کے موجودہ سیاسی پس منظر میں کردار کی طرف جاتے ہیں۔ اگر تاریخی حوالوں سے دیکھا جائے تو صرف فوج کو ہی ریاست میں مداخلت کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا بلکہ اس میں سیاست دانوں کا بھی حصہ ہے جو اس کھیل میں شامل رہے ہیں اور آج بھی شامل ہیں۔ اسی طرح عدلیہ کے فیصلے بھی نظرانداز نہیں کیے جا سکتے۔ اس سارے منظر نامے کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو آج یہ بات واضح ہو کر سامنے آ رہی ہے کہ جب فوج اپنے آپ کو غیر جانب دار رکھنے کی کوشش کر رہی ہے تو سیاست دانوں کا ایک گروہ ان کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ اپنے غیر آئینی کردار کو جاری رکھیں۔ دوسرے لفظوں میں فوج کو بلیک میل کیا جا رہا ہے کہ اگر انہوں نے میرا ساتھ نہیں دیا تو پھر ان کی سابقہ غلطیوں کے حوالے سے انہیں نشانہ بنایا جاتا رہے گا۔

آئینی حدود اور اختیارات تو اپنی جگہ مگر ہماری صورت حال سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا مسئلہ محض سیاسی یا آئینی نہیں رہا بلکہ اخلاقی بن چکا ہے۔ ہم خود نمائی کی اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ جہاں ہمیں انفرادی طور پر اپنے آپ کے سوا کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا۔ صرف اپنا قول و فعل ہی سچائی کے قریب لگتا ہے اور اسی کو ہم معیار سمجھتے ہیں جو انتہائی خطرناک صورت حال ہے۔ ہماری سوچ پر ہمارے اس عمل کی اس قدر دھاک بیٹھ چکی ہے اور معاشرے نے اس رواج کو اس طرح اپنا لیا ہے کہ اب اس خود غرضی کو برا بھی نہیں سمجھا جاتا۔ اس سوچ کا شاخسانہ جہاں بھی نمودار ہوتا ہے وہ اپنا رنگ دکھا کر ملک و قوم کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔

اب سوچنے کی ضرورت یہ ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو تھوڑی دیر کے لیے بھلا کر اگر سب سٹیک ہولڈرز واقعی ملک میں آئین کی پاسداری کو یقینی بنانے کے بارے میں مخلص ہیں تو پھر سب سر جوڑ کر بیٹھیں اور مستقبل میں غیر آئینی اقدامات کے خدشات کو ختم کرنے کے لیے کوئی لائحہ عمل بنا کر اس پر عمل کرنے کا آغاز کریں۔

جب فوج اس بات کا اظہار کرتی ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو آئینی حدود میں رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو یہ بات بذات خود ایک اعتراف ہے۔ دوسری جانب عدلیہ اور سیاست داں بذات خود بھی اپنے آپ کو اس سارے غیر آئینی عمل سے بری الزمہ قرار نہیں دے سکتے تو پھر اس اعادے کے بعد بار بار باتوں کو دہرانے کی بجائے اُس غیر آئینی سوچ کے دہرائے جانے کے خدشات پر قدغن لگانے کی ضرورت ہے۔

ہم جس جمہوریت کے سفر پر رواں ہیں اس کے ابھی ہم نے کئی مراحل طے کرنے ہیں۔ سب سے مشکل دورانیے کا آغاز ہوچکا ہے۔ جب غیر ذمہ دار معاشرے کو یکدم آزادی اور آزادی اظہار رائے کا حق مل جائے اور اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہ ہو تو پھر ایسے معاشروں کا شر ہی بہت بڑا چیلنج بن جاتا ہے جس کا آج کل ہم سامنا بھی کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس آزادی اظہار رائے نے جو گل کھلائے ہوئے ہیں اس سے شاید شیطان بھی پناہ مانگ رہا ہو۔

جب ہم پارلیمانی نظام سے مستفید ہونے کی بات کرتے ہیں تو پھر ہمیں اس پارلیمانی نظام کی کامیاب مثال برطانیہ میں ملتی ہے جہاں پچھلے ایک ماہ میں تین وزرائے اعظم بدل گئے ہیں مگر کوئی غیر اخلاقی بات نہیں ہوئی۔ کسی بھی عالمی طاقت یا کسی دوسری ریاست پر الزام نہیں لگایا گیا۔ کسی نے کسی ادارے کی مداخلت کا ذکر تک نہیں کیا۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں ان کے بحث مباحثے دیکھیں تو کتنے تحمل، تدبر اور شائستگی کے ساتھ وہ باری باری ایک دوسرے کو کتنے دھیان سے سن رہے ہوتے ہیں اور چند قطاروں میں آگے پیچھے بیٹھ کر اپنے مسائل کو زیر بحث بھی لا رہے ہوتے ہیں۔ اعتراضات بھی اٹھ رہے ہوتے ہیں، جواب بھی دیے جا رہے ہوتے ہیں اور ان پر عمل درآمد بھی کروایا جارہا ہوتا ہے۔ جو بات انتہائی دلچسپ ہے وہ یہ ہے کہ ان کا آئین کسی کتابی شکل میں نہیں ہے اور انہوں نے پھر بھی اس کو ایک روایت کے طور پر اپنایا ہوا ہے۔

اب اس سارے ماحول کو اپنے پارلیمنٹیرین سے موازنہ کرکے دیکھیں تو رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔ ہمارے شاہانہ پارلیمنٹ ہاؤس میں خودنمائی کے دل دادہ ہمارے نمائندگان کیا کیا گل کھلاتے ہیں۔ کسی بھی ادارے کی عزت و تکریم اس میں موجود لوگوں کے اعمال اور کردار سے جڑی ہوئی ہوتی ہے۔ انہوں نے خود ہی اپنے نظام کی کامیابی کو ممکن بنانا ہوتا ہے اور اگر وہ خود ہی اپنے مسائل کو وہاں سے اٹھا کر چوک چوراہوں میں پہنچ جائیں اور پھر دوسروں پر انگلیاں اٹھانا شروع کر دیں تو پھر زمانہ محو حیرت ہی ہوگا۔ اور پھر ستم کی بات یہ ہے کہ اپنی غلطیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے نظام کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیتے ہیں۔