گوادر احتجاج کی کامیابی اور اسٹیبلشمنٹ کی آپسی رسہ کشی

گوادر احتجاج کی کامیابی اور اسٹیبلشمنٹ کی آپسی رسہ کشی
عوامی تحریکیں متاثرکن اور امید پیدا کرنے والی ہوتی ہیں جیسا کہ گوادر بلوچستان میں ہونے والا عوامی مظاہرہ تھا۔ یہ تو انتہاٸی خوبصورت ہے کہ جب ہم ہزاروں لوگوں کو اپنے حقوق کے لیے مارچ کرتے اور نعرہ بازی کرتے پاٸیں، مگر اہم ترین مدعا یہ ہے کہ یہ ایک اہم واقعہ ہے مگر اسے پاکستانی میڈیا میں بہت کم کوریج دی گٸی۔ اس کا جاٸزہ نہیں لیا گیا۔

میں اسے مظاہرین کی نظر سے دیکھنے کی بجائے ریاست اور اس کے اداروں کی نظر سے اس کا جاٸزہ لینا چاہوں گی کہ جو کچھ ہماری نظر کے سامنے ہو رہا ہے وہ پاکستان میں حقیقی اختیارات ک منتقلی ہے؟ حتمی طاقت کے مساوات کی تشخیص اور ان کا جائزہ مستقبل کےلیے اہم اسباق ہونگے۔

16 دسمبر کو بلوچستان کے وزیراعلٰی اور مولانا ہدایت الرحمٰن کے درمیان ہونے والا معاہدہ شاید لوگوں کو وقتی طور پر کچھ فاٸدہ دے۔ لیکن میں یہ کہون گی اگرچہ معاہدہ عوامی طاقت کے متعلق کچھ امید فراہم کرتی ہے مگر یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ اس سے طاقت ور اسٹیبلشمنٹ پیچھے ہٹ رہی ہے۔ سوشل میڈیا میں گوادر مظاہرے کے متعلق عام بحث ومباحثہ بہت سے چیزوں بشمول صوبے پر راج کرنے والوں کے مابین آپسی چپلقش اور ریاست کے جیو پالٹیکل مقاصد میں ہم آہنگی کو بڑی نفاست سے چھپا رہی ہے۔

پاکستان میں غیر قانونی ماہی گیری

چلیں معاہدے کی طرف چلتے ہیں جس کے مطابق گوادر کے ماہی گیروں سے وعدہ کیا گیا کہ سمندری حدود میں غیر قانونی ٹرالرنگ کے خلاف کارروائی، چیک پوسٹوں کی تعداد میں کمی اور ایرانی سرحد پر تجارت کے لیے آسانیاں پیدا کر دی جاٸیں گی۔ عمران خان کی حکومت نے بھی طوفانوں سے متاثرہ ماہی گیروں کی امداد اور کشتیوں کو چھڑوانے کے لیے ایک طریقہ کار بنانے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ میں نے ایک شخص سے اس بابت گفتگو کی جو حکومت کی جانب سے معاہدے پر عملدر آمد کے بارے میں زیادہ پرامید نہیں تھا۔ بے شک کچھ چیک پوسٹوں کو ہٹایا اور کچھ ٹرالرز کے خلاف کارروائی بھی عمل میں لائی جائے مگر تب بھی مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مقتدرہ قوتیں احتجاج کو جلد بازی میں سمیٹنے کے حق میں تھیں جیسا کہ انہوں نے 2017ء میں تحریک لبیک کے احتجاج کے ساتھ مظاہرین کو رشوت دے کر کیا۔ بلوچستان کے وزیراعلٰی کو بھی ایک ویڈیو میں پیسے تقسیم کرتے ہوٸے دیکھا جا سکتا ہے۔

حقیقت یہی ہے کہ گوادر کے مظاہرین اور ان کے مطالبات حقیقی تھے جن کا تحریک لبیک کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ گوادر کو پاکستان کے جیو پالیٹکل مقاصد اور سی پیک میں شاہی تاج میں جڑے ہیرے سے تشبیہ دی جا سکتی ہے اور وہاں کے عوام کا موازنہ محرومی اور غربت کے کیچڑ میں لتھڑنے والے جواہر سے کیا جا سکتا ہے۔ گوادر کے مقامیوں کو جن کی اکثریت ماہی گیروں پر مشتمل ہے، معاشی مسائل درپیش ہونے کے ساتھ ساتھ گوادر میں بجلی کے شدید بحران کا بھی سامنا ہے۔ درحقیقت مظاہرین نے بجلی کے 300 یونٹس ماہانہ مفت فراہمی کا بھی مطالبہ کیا تھا جسے تسلیم نہیں کیا گیا اور اس تناظر میں ایران بارڈر پر بغیر کسٹم ادائیگی کے گاڑیوں کی اجازت سے یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ مقامی لوگوں کے مطالبات اور اس اختیاراتی مفاد سے فائدہ اٹھانے والوں میں فرق کیا جانا چاہیے۔

غیر قانونی ٹرالنگ واقعی میں ایک حقیقی مسئلہ ہے جس کی بنیادیں 1990ء تک جاتی ہیں، جب صوبائی فشریز کے محکمے اور کچھ غیر مقامی ٹرالر مالکان کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ طے پایا تھا۔

جب ٹرالر مالکان بالخصوص سندھ سے تعلق رکھنے والوں نے سرمایہ کاری کی اور سندھ اور بلوچستان کے حکام کو رشوت دینی شروع کی۔ تب سے ہی معاملہ مزید گھمبیر ہوتا چلا گیا۔ نامور صحافی شاہ میر بلوچ نے بلوچستان کے ساحل پر غیر قانونی شکار پر ایک تفصیلی رپورٹ لکھی تھی۔ 2002ء میں صوبائی حکومت کی طرف سے ٹرالرنگ کو روکنے کے لیے ایک الگ میرین لیویز کے قیام کی کاوشیں رائیگاں ثابت ہوٸیں۔ یا پھر شاید غیر قانونی ٹرالرنگ سے رشوت سمیٹنے کے لیے ایک اور ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا۔ نئے قائم کردہ ادارے کو چینی ماہی گیری مفادات سے کوئی سروکار نہیں جو کہ 2016ء میں سی پیک کے باقاعدہ آغاز کے ساتھ ابھرا۔ بڑے چینی ٹرالرز ناصرف زیادہ مچھلی پکڑتے ہیں بلکہ وہ تو سفید چھوٹے پامفرٹ نامی مچھلی کو بھی نہیں بخشتے جس کی مناسبت سے علاقہ مشہور ہے کہ یہ فقط وہیں پائی جاتی ہیں۔

ماضی کی برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح چینی کمپنیوں اور رئیل اسٹیٹ کی تعمیراتی کمپنیوں کو مقامی ماہی گیروں سے کم ہی دلچسپی ہے جنہیں رئیل اسٹیٹ میں پاکستانی اور غیر ملکی سرمایہ کار بڑے تعمیراتی منصوبوں کی تکمیل میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔

مجھے لندن کے ایک مقامی سرمایہ کار کمپنی کے ایک سیلزمین نمائندے کی گفتگو یاد آرہی ہے جس میں اس نے مجھ سے کہا تھا کہ مقامی ماہی گیروں تعمیراتی منصوبے کے مقام سے کہیں اور منتقل کیا جائے گا۔ اس سیلزمین کی آواز میں اتنی عجلت تھی جیسے وہ بیزاری سے آوارہ کتوں کو کہیں بھگا رہا ہو۔ اور نہ ہی مقامی حکام کو ماہی گیروں سے کوئی ہمدردی ہے۔ حکومت بلوچستان یا پھر صوبے کے اصل حکمران، پاکستان کی عسکری اسٹیبلشمنٹ مظاہرین سے مذاکرات کی زحمت ہی نہیں کرتے۔ اگر یہ بطور ضرب المثل ” ملین مارچ“ والے نہیں ہوتے۔ مگر مظاہرین کو خوش کرنے کے عمل نے لگتا ہے اسٹیبلشمنٹ کو چائنیز کو پیچھے دھکیلنے کا ایک موقع فراہم کیا ہے جنہوں نے اپنی طاقت کا مظاہرہ مثال کے طور پر سی پیک اتھارٹی کے فوجی چیئرمین کو اس کے عہدے سے ہٹا کر کیا تھا۔

ہدایت الرحمٰن کی سیاست

یہ بات انتہاٸی اہم ہے اور یہ بہت کچھ واضح بھی کرتا ہے کہ مولانا ہدایت الرحمٰن کو اتنے دباٶ کا سامنا نہیں کرنا پڑا جنہوں نے گوادر میں موجود چینی شراب بنانے والی کمپنیوں اور ساحلی رئیل اسٹیٹ منصوبوں کی مسلسل مخالفت کی، جتنا کہ بلوچ علیحدگی پسندوں یا پھر قوم پرستوں کو کرنا پڑتا ہے۔

گوادر تحریک میں مولانا ہدایت الرحمٰن کے ملوث ہونے کے دو انتہائی اہم قابل غور تناظر پر فکرمند ہونا چاہیے۔ پہلا یہ کہ وہ ایک عام بندہ نہیں بلکہ جماعت اسلامی بلوچستان کا جنرل سیکرٹری ہے اور یہ جماعت بلوچستان میں لمبے عرصے سے فوج کی حمایتی اور شراکت دار رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بہت پراعتماد ہے کہ اسے استعمال کرکے مقامی لوگوں کو مجبوراً کوئی رعایت دینے کا خطرہ اٹھائے بغیر اپنے جیو پالیٹیکل مقاصد پر بات چیت اور مقاصد حاصل کر سکتی ہے۔

مذہبی ملاٶں کے تحریک کو یا پھر ان کی رہنمائی میں چلنے والی تحریک پرانی حکمت عملی کی یاد دلاتی ہے جو کہ امریکیوں کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا اور اب اسے چینیوں کے لیے آزمایا جا رہا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ چین اور پاکستان کی گہری شراکت داری پر زور دینے کے باوجود اسٹیبلشمنٹ اس بات پر فکر مند ہے کہ بیجنگ کو مطلوبہ حد سے زیادہ ”اسپیس“ نہیں دینی چاہیے۔ یہ پاکستان کے لیے اہم ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بناٸے کہ اس کے ساتھ سری لنکا یا پھر چین کے افریقی گاہک ممالک جیسا برتاٶ نہ کیا جاٸے۔

دوسرا یہ کہ ہدایت الرحمٰن مقبولیت کے لیے ایک قوم پرستانہ بیانیے کا سہارا  لے رہا ہے۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ جماعت اسلامی سے اپنے تعلقات ترک کر دے گا۔ اس کی جماعت وہ واحد جماعت ہے جس کی قیادت نے پچھلے چند ماہ میں گوادر کا دورہ کیا۔ قوم پرستانہ ڈھال طویل عرصے سے الیکشن جیتنے والی بی این پی جیسی قوتوں کو پیچھے دھکیلنے میں اس کا معاون ہوگا۔

ہدایت رحمان کو ڈاکٹر اللہ نذر جیسے آزادی پسند رہنماٶں سے بھی حمایت حاصل ہوئی۔ شاید اس لئے کہ انہیں اندازہ ہے مولانا تحریک کی رہنمائی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ٹارگٹ ہوٸے بغیر کر سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آزادی پسند اپنی تواناٸیاں پاکستانی الیکشن کے عمل میں ضاٸع کرنے کے قاٸل نہیں۔ میری گفتگو علیحدگی پسندوں اور قومپرستوں سے ہوٸی، یہ اندازہ لگا سکتی ہوں کہ ان کے پاس مارچ کو لیڈ کرنے کا کوٸی دوسرا متبادل منصوبہ یا حکمت عملی نہیں تھی۔ ھدایت الرحمٰن انتہاٸی چالاک ہے جو اپنی جماعت کے نظریے کے ذریعے لوگوں کا توجہ منتشر نہیں کرتا۔ وہ اب تک قوم پرست ہونے کا تاثر دیتا رہا ہے جیسا کہ اس نے ٹویٹر پر ایک گفتگو کے دوران افرا سیاب خٹک سے کہا تھا کہ وہ بلوچ قوم پرستوں کو دوبارہ قوم پرستانہ سیاست میں دھکیلنے کا خواہش مند ہے اور وہ لوگوں کا نماٸندہ ہونے کا دعویٰ بھی کرتا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کی آپسی رسہ کشی

جہاں تک ریاستی دلچسپی کا معاملہ ہے تو وہ ہدایت الرحمان کی فضل الرحمٰن اور خادم رضوی کے ملاوٹ نما طرز سے خوش دکھائی دیتی ہے جو کہ مستقبل میں گوادر کے سیاسی افق پر ابھر سکتا ہے۔ پیسے بنانے کا شوقین اور ایک بدزبان مولانا وہاں کے سیاسی معاملات کو سنبھالنے والا ہو تو یہ عسکری اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک مناسب ملاپ ہے۔ افغانستان سے لے کر پاکستان تک اسٹیبلشمنٹ مذہبی دائیں بازو کی حمایت اور حوصلہ افزائی کے موڈ میں دکھاٸی دیتی ہے۔

مولانا کو داخل کرنے اور مظاہرے کو سنبھالنے کا ایک اور پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے اندر ایک تقسیم ہے۔ طاقتور قوت ایف سی، آئی ایس آئی اور فوجی ہیڈ کوارٹرز کوئٹہ کے بیچ آپس میں بھی ایک طرح کی کھینچا تانی ہے۔ گوادر اور باقی بلوچستان کے لوگ اس حقیقت کی گواہی دیں گے کہ ایف سی ہی صوبے میں حقیقی طاقت ہے جیسا کہ ایک سابقہ سینئر بیوروکریٹ نے مجھے بتایا کہ ایف سی وہ طاقت ہے جو بلوچستان کو یکجا رکھتی ہے اور اس نے گزرے برسوں میں بادشاہت کی شکل اختیار کر لی ہے۔ حتیٰ کہ آئی ایس آئی بھی ایف سی پر انحصار کرتی ہے۔ یہ ظالم ایجنسی جبری گمشدگی کے اکثریتی کیسوں کی ذمہ دار، عام آدمی کی زندگی کے لیے ایک خطرہ اور کسی طرح کے احتساب اور پوچھ گچھ سے بالاتر ہے۔

آئی جی ایف سی کے سامنے وزیراعلیٰ بلوچستان کی بھی کوئی وقعت نہیں اور اس کے افسروں کو سول بیورو کریٹس کچھ کہنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ اس طاقت کو مزید دلچسپ بنانے والی جو بات ہے وہ یہ ہے کہ ایک بہت بڑی لوٹی ہوئی دولت اور اس کو فوج کے باقی اداروں میں تقسیم کرنے کا اختیار بھی آئی جی ایف سی کے پاس ہے۔ روزمرہ کے ٹریفک کا کنٹرول، پیٹرول ڈیزل کے غیر قانونی کاروبار کی دیکھ بھال، نان کسٹم گاڑیاں، قالین ہو کہ منشیات ایسی کوئی شے نہیں جس پر ایف سی کی گرفت نہ ہو یا پھر اسے اس کا معاوضہ نہ ملے۔ حتیٰ کہ سابقہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی ایجنسی کو صاف کرنے کی خاطر آرمی کے 11 افسران کو گرفتار کیا تھا جو کہ 2016ء میں بلوچستان ایف سی میں فرائض سر انجام دے رہے تھے مگر کام نہیں بنا۔ اسی لیے وزیر اعلیٰ کی جانب سے چند چیک پوسٹوں کے خاتمے کا اعلان حقیقی مطالبات ک پورا کرنے سے بڑھ کر ہے کیونکہ یہ ایف سی کو دوبارہ کنٹرول کرنے کے لیے کسی اور ریاستی ادارے کا حربہ بھی ہو سکتا ہے۔

بلاشبہ گوادر  کے مظاہرین کا احتجاج ایک سنجیدہ سیاسی عمل تھا جو کوئی بڑی چیز حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ ایسا ناصرف ریاستی اداروں کا احتساب نہ ہونے کی وجہ سے ہوا، بلکہ سیاسی جماعتوں کی نااہلی بھی اس میں شامل تھی جو اتحاد واتفاق سے مل کر اس تحریک کی جانب مددگارانہ ہاتھ نہیں بڑھا سکے۔ جب تک اسٹیبلشمنٹ سیاسی عمل کو اس طرح روکنے کے خطرات سے آگاہ ہو، شاید اس وقت تک بہت دیر ہو جائے گی۔

نوٹ: ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی اس تحریر کا فرید مینگل نے ترجمہ کیا