ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے کہا ہے کہ بینظیر بھٹو شہید کے قتل کے پیچھے بیت اللہ محسود جیسی کہانیاں ایک ہی ذریعہ سے آئی ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے کی ابھی تک آزادانہ تحقیقات ہی نہیں کی گئی ہیں۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے کہا کہ بینظیر بھٹو کے قتل کیس کی آج تک درست تحقیقات کیوں نہیں ہو سکیں، اس کے پیچھے بہت سے سیاسی مسائل بھی کارفرما ہیں۔ جن اداروں پر بینظیر بھٹو کی حفاظت کی ذمہ داری تھی، وہ ثبوتوں کے اوپر بیٹھے ہیں۔ جب تک کوئی آزادانہ تحقیقات نہیں ہونگی، ہمیں کچھ پتا نہیں چلے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ بیت اللہ محسود نے جب تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ میری بینظیر بھٹو سے کوئی دشمنی نہیں، میں ان کو مارنا نہیں چاہتا، ہمیں اس کی بات کو رد نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ 18 اکتوبر کو جب بینظیر بھٹو پر جب حملہ ہوا تو ان کے پاس چوائس تھی کہ وہ چپ کرکے گھر بیٹھ جاتیں لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے خطرے کی بو اردگرد ہونے کے باوجود شہر شہر جلسے کئے۔ عوام کیساتھ جڑے رہنا ہی ان کی میراث تھی۔ آخری وقت بھی عوام کیساتھ ہی انہوں نے جان دی۔
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے کہا کہ میثاق جمہوریت ایک ایسا مضبوط دستاویز ہے جس پر عملدرآمد ہی سے پاکستانی عوام کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
بینظیر بھٹو کی تعریف کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ محترمہ شہید بہت عظیم اور باعزت خاتون تھیں۔ اور اسی باعزت طریقے سے انہوں نے موت کو گلے لگایا۔ ان کی شخصیت میں جو رواداری تھی وہ شاید دوسری جماعتوں میں آج ہمیں نظر نہیں آتی۔
انہوں نے کہا کہ مختلف دوست ممالک نے انھیں وارننگ دی تھی کہ آپ کا پاکستان جانا خطرے سے خالی نہیں لیکن وہ سب کچھ جانتے ہوئے اپنے ملک واپس آئیں۔ ان کے والد نے بھی سودا نہیں کیا اور انہوں نے بھی اپنی جان دیدی لیکن اس روایت کو برقرار رکھا۔ انھیں امید تھی کہ جنرل مشرف نے ان کیساتھ جو وعدہ کیا ہے اسے نبھائیں گے۔ یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ ڈیل میں امریکا اور برطانیہ سمیت دیگر ممالک بیٹھے تھے جنہوں نے وعدہ کرتے ہوئے ذمہ داری لی تھی۔