پی سی بی چیئرمین محسن نقوی نے اگرچہ چیمپئن ٹرافی کے پاکستان میں انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے سر توڑ کوششیں کیں جس میں وہ کامیاب بھی رہے ۔گذشتہ سال 24دسمبر کو بالاخر آئی سی سی نے چیمپئن ٹرافی کے شیڈول کااعلان کردیا جس کیساتھ 24سال بعد پاکستان کو آئی سی سی ایونٹ کی میزبانی مل گئی، آخری مرتبہ 1996 کے ورلڈ کپ فائنل کا انعقاد قذافی اسٹیڈیم میں ہوا تھا جوسری لنکا اور آسٹریلیا کے مابین کھیلا گیا ، اس کے بعد سے دونسلیں جوان ہوگئیں مگر پاکستان کے اندرونی حالات اور بھارت کی سازشوں کی وجہ سے پاکستان کسی بھی بڑے آئی سی سی ایونٹ کی میزبانی سے محروم رہا۔چیمپئن ٹرافی 2025 کا انعقاد فروری 19فروری سے لیکر 9مارچ تک فیوژن فارمولے کے تحت پاکستان کے تین شہروں لاہور، راولپنڈی ، کراچی اور دبئی میں کھیلا جائے گا ۔
چیمپئن ٹرافی میں 8ممالک کے درمیان کل 15میچز کھیلیں جائیں گے بھارت کے فائنل میں کوالیفائی کرنے کی صورت میں فائنل دبئی میں ہوگا ۔ اس کے علاوہ بھارت اپنے تمام گروپ میچز دبئی میں کھیلے گا ،پاکستان،انڈیا میچ بھی 23 فروری کو دبئی میں ہی شیڈول ہے۔اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ چیمپئن ٹرافی 2025 ءکی میزبانی کو لے کر محسن نقوی کو اپنے مؤقف پر یوٹرن لینا پڑاہے، یہ توپہلے سے طے تھا کہ بی سی سی آئی کو پاکستان جاکر کھیلنے کی کسی بھی صورت مودی حکومت سے اجازت نہیں ملے گی ۔ تو پھرآخروہ کونسی وجوہات تھیں کہ بھارتی کرکٹ بورڈ کوپی سی بی مؤقف کے سامنےہتھیار ڈالنے پڑےکیونکہ 3 ہفتے پہلے تک تو چیئر مین پی سی بی پاکستانی قوم کو”مثبت نتائج “کی امیدیں دلارہے تھے۔
چیئر مین محسن نقوی نے پہلےبابنگ دہل دعویٰ کیا کہ پی سی بی کسی صورت ”ہائبرڈ ماڈل پر رضامندی ظاہر نہیں کرے گا اور اگر بھارت پاکستان آکرکھیلنے سے انکار کرتا ہے توپھر پاکستان بھی مستقبل میں کسی آئی سی سی ایونٹ میں بھارت کیساتھ بھارت جاکر نہیں کھیلے گا“۔ لیکن وہ کون سی وجوہات تھیں کہ پہلے 29 نومبر کو آئی سی سی بورڈ میٹنگ کے پہلے ہی راؤنڈ کے بعد پی سی بی نے خاموشی اختیار کرلی اور پھراسکے اگلے ہفتے شیڈول آئی سی سی کی بورڈ میٹنگ ہی ملتوی کردی گئی۔ اس دوران محسن نقوی نے معاملات کے حل کیلئے دبئی میں آئی سی سی صدر جئے شاہ سے” غیر رسمی “ملاقات بھی کرڈالی مگر نتائج آنے میں ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ لگ گیا۔
(پاکستان نے 2017چئمپئنز ٹرافی فائنل میں انڈیا کو 180رنز سے شکست دیکر تاریخی اوول گراونڈ میں فائنل جیتا)
“Take it or leave it”پی سی بی بمقابلہ بگ تھری
آئی سی سی کی باگ ڈور اب بی سی سی آئی کے سابق سیکرٹری جئے شاہ سنبھال چکے ہیں جنہوں نے یکم دسمبر 2024ءمیں بطور آئی سی سی صدر ذمہ داریاں سنبھالیں ۔ ایک ایسے وقت میں جب آئی سی سی کی سربراہی بھارت کے پاس ہو ، کیا یہ ممکن تھا کہ جئے شاہ کسی ایسے تحریری معاہدے پر دستخط کردیتےجس کے تحت بھارت کوپاکستان کیساتھ میچز کیلئے بھارت سے باہر کسی ”نیوٹرل“جگہ پر جاکر کھیلنے کیلئےمعاہدے کوباقاعدہ تحریری شکل دینی پڑتی۔ کرکٹ کے معاملات پر خبر رکھنے والے صحافیوں کو علم ہے کہ آئی سی سی کا موجودہ اکنامک ماڈل جس کا سالانہ ریونیو 600 ملین ڈالر ہے اس میں بھارت کا حصہ سب سے زیادہ یعنی 38.5فیصد ہےجس کے بعد انگلینڈ کرکٹ بورڈ(6.89فیصد)ور پھر کرکٹ آسٹریلیا(6.25فیصد) کا نمبر آتا ہے، ایسے میں پی سی بی کی اپنے سالانہ ریونیو5.75فیصدمیں 2 فیصد اضافےکا مطالبہ محض ایک خام خیالی کے سوا کچھ نہیں تھا ، اگرچہ پی سی بی اپنے اسٹڈیمز کی تعمیر و مرمت پر پہلے ہی 12ارب روپے کی رقم خرچ چکا ہے۔
یہ کسی صورت ممکن نہیں تھا کہ”بگ تھری“ اپنےریونیو میں کٹوتی کرکےاپنا حصہ پی سی بی کی گود میں ڈال دیتا۔انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے پہلے ہی اپنے کھلاڑیوں کو ڈومیسٹک سیزن کے دوران پی ایس ایل کھیلنے سے منع کردیا ہے، جبکہ کرکٹ آسٹریلیا کی ترجیح بھارت ہے جس کی تازہ مثال آسٹریلیا میں جاری پانچ ٹیسٹ میچوں کی سیریز ہے جس کی آسٹریلن بورڈ بھرپور کمرشل پبلسٹی کررہا ہےاور نظر آرہا ہے کہ آسٹریلین بورڈ کو اپنا مالی مفاد بھارت کاساتھ دینے میں نظر آتا ہے، ایسے حالات میں پی سی بی کی پوزیشن انتہائی کمزور دکھائی دیتی ہے ۔ چیمپئن ٹرافی کی میزبانی پی سی بی کو ایک سنہری موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ اس ٹورنامنٹ کا انعقاد کامیاب بنا کر کرکٹ ورلڈ میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کرے۔
فیوژن فارمولہ اور پاکستان کرکٹ کےمستقبل پر اثرات؟
پی سی بی حکام نے محسن نقوی کی سربراہی میں آئی سی سی بورڈ میٹنگ میں اپنی 4شرائط (جس کا بھارتی ذرائع ابلاغ میں خوب چرچا ہوا)اس امید کیساتھ رکھیں تھیں کہ بھارت انکار نہیں کرے گا کیونکہ اسے بھی مالی مفادات عزیز ہیں اور کسی صورت چیمپئن ٹرافی کا انعقاد ملتوی نہیں کروائیگا لیکن یہاں تصویر کا دوسرا رخ پی سی بی حکام اپنی سٹرٹیجی کا حصہ نہیں بناسکے ۔جئے شاہ اب آئی سی سی کی باگ ڈور باقاعدہ سنبھال چکے ہیں ،اگرچہ بھارتی میڈیا میں اس معاہدے کو لے کر ابھی تک ابہام ہے کہ آخر جئے شاہ نے ایک ایسے معاہدے پر دستخط کیوں کیے جسکےکے تحت بی سی سی آئی کو اس بات کا پابندکردیا گیا کہ وہ پاکستان کیساتھ کرکٹ آئندہ 3 سال کیلئے بھارت سے باہر جاکر کھیلے گا (لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان 3 سالوں میں صرف ایک آئی سی سی ایونٹ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2026ءہی بھارت میں منعقد ہونا ہے اور جس کی میزبانی انڈیا اور سری لنکا مشترکہ طور پر کررہے ہیں۔
لیکن اگر بھارت یا پاکستان اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل کیلئے کوالیفائی کرتے ہیں (جس کا انعقاد بھارت میں ہونا ہے) تو اس صورت میں کیا بھارت فائنل میچ بھارت سے باہر جاکر کھیلنے پر راضی ہوگا یا نہیں اور کیا پاکستان فائنل کھیلنے بھارت جائے گااس بات کا تذکرہ آئی سی سی کی جانب سے جاری چھ لائنوں کی پریس ریلز میں نہیں کیا گیا( پریس ریلز جس میں صرف ایک سہہ فریقی سیریز اور ویمن ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2028ءکی میزبانی شامل ہے، کا تذکرہ ہی ملتا ہے جسکے انعقاد کا زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ سعودی عرب میں ہوگی اور ویمن کرکٹ میچز کی ویسے ہی پاکستان میں viewershipنہ ہونے کے برابر ہے ایسے میں براڈکاسٹرز کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے کوئی خاص مالی فائدہ نہیں ہوگا)کیا یہ ”وقتی ارینجمنٹ “ بھارت کی ایک سوچی سمجھی چال ہے جسے پی سی بی حکام سمجھنے سے قاصر رہے ؟ بظاہر یہ اس فیوژن فارمولے کی منظوری بھارت کی خارجہ پالیسی کے لحاظ سے ایک ناکامی تصورہوتی ہے ،گذشتہ دس سالوں کے دوران مودی سرکار کا موقف راتوں رات تبدیل ہوجانا کیا محض صرف اتفاق ہے؟بی سی سی آئی نےپوری کوشش کی کہ کسی طرح چیمپئن ٹرافی کے پاکستان میں انعقاد کو ملتوی کرایا جاسکے ۔حتیٰ الامکان کوشش کی گئی کہ پی سی بی کے پاس take it or leave it کےسوا کوئی آپشن باقی نہ رہے، اگر معاملہ ووٹنگ تک جاتا تواس کاسادہ سا مطلب تھا کہ چیمپئن ٹرافی کا انعقاد پاکستان میں نہ ہوپاتااور اس کیساتھ پاکستان کوHosting rightsسے بھی ہاتھ دھونا پڑتے۔
لیکن چیئرمین پی سی بی محسن نقوی جو ایک وقت میں کئی عہدوں پر ذمہ داریاں بیک وقت نبھارہے ہیں ، (جس میں طاقتور حلقوں کی مکمل حمایت بھی شامل ہے) اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھے جس کی وجہ سے بگ تھری کو چیمپئن ٹرافی کی میزبانی پاکستان کو دینا پڑی ۔یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کرکٹ کے محاذ پر ابھی تک چئیرمین پی سی بی اپنے 10ماہ کے عرصے میں کوئی خاطر خواہ کامیابی دکھانے میں ناکام رہے ہیں کیا اس بار چیمپئن ٹرافی کے کامیاب انعقاد کو یقینی بنانے میں محسن نقوی کامیاب ہوپائیں گے اس میں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔
آئی سی سی چیمپئن ٹرافی 2025کیلئے ہائبرڈ ماڈل کی منظوری پر پی سی بی کے آفیشل انسٹاگرام پر جاری کیا گیا بیان
کرکٹ میں سیاست نہیں سیاست میں کرکٹ ہورہی ہے!
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ چئیرمین پی سی بی پہلے کیوں میڈیا کے ذریعےعوام کو یہ تاثر دیتے رہے کہ'پاکستان کسی صورت ہائبرڈ ماڈل کو قبول نہیں کرے گا '، اور اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایک ایسے کمپرومائزڈ معاہدے پر دستخط کردئیے ہیں جس کےاثرات پاکستان کرکٹ کے مستقبل پر شدید منفی ہوں گے۔پی سی بی کی صرف یہی کوشش رہی کہ کم از کم چیمپئن ٹرافی کاانعقاد پاکستان میں یقینی بنایا جائے۔ آج کی کرکٹ باقاعدہ انڈسٹری کا درجہ اختیار کرچکی ہے جس میں کھلاڑی محض ایک پراڈکٹ سے زیادہ کچھ نہیں، اور کرکٹ بورڈز صرف اور صرف 'پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنیز' ہیں جن کی پہلی اور آخری ترجیح پیسہ ہے اوران سب میں آئی سی سی کا کردار ایک 'ایونٹ مینجمنٹ کمپنی'سے زیادہ کچھ نہیں ۔ آئی سی سی کا موجودہ اکنامک ماڈل جس کا سالانہ ریونیو 600 ملین ڈالر ہے اس میں بھارت کا حصہ سب سے زیادہ یعنی 38.5فیصد ہےجس کے بعد انگلینڈ کرکٹ بورڈ(6.89فیصد)ور پھر کرکٹ آسٹریلیا(6.25فیصد) کا نمبر آتا ہے جنہیں کرکٹ کی دنیا میں زبان زد عام اصطلاح یعنی"بگ تھری" کہا جاتا ہے، یہی تین کرکٹ بورڈز دنیا کرکٹ کے چاچے مامئے ہیں ، ان کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا ۔