Get Alerts

!ایک ہار۔۔۔اور پھر قومی ٹیم کا چیمپئن ٹرافی میں کھیل تمام

انڈیا کا ریکارڈ پاکستان کیخلاف2017 چیمپئن ٹرافی فائنل کی ہار کے بعد سے نہایت شاندار رہا ہے،8سالوں سے پاکستان انڈیا کو کسی بھی آئی سی سی ایونٹ میں شکست نہیں دے سکا ،پاکستان کو گروپ اے کے دو مزید میچ کھیلنے ہیں ،23فروری کو بھارت اور 27فروری کو بنگلہ دیش سے اگر پاکستانی ٹیم بھارت کیساتھ میچ ہار جاتی ہے تو اسکے ساتھ ہی چیمپئن ٹر افی میں اسکا سفر اختتام کو پہنچے گا ، لیکن اگر گرین شرٹس نے ٹورنامنٹ میں اپنا سفر جاری رکھنا ہے تو اسے 23فروری کے میچ میں بھارت کو ہر صورت شکست دینے کیساتھ بنگلہ دیش کیخلاف بھی فتح سمیٹنی ہوگی

!ایک ہار۔۔۔اور پھر قومی ٹیم کا چیمپئن ٹرافی میں کھیل تمام

29 سال  بعد پاکستان میں چیمپئن ٹرافی کا انعقاد ہوا مگر قومی ٹیم نے افتتاحی میچ میں ہی شکست کھا کر قوم کو مایوس کردیا ہے،گرین شرٹس کی ون ڈے کرکٹ میں کامیابیوں کا تسلسل نیوزی لینڈ کیخلاف سیریز ہارنے کے بعد ٹوٹ چکا ہے،کرکٹ ٹیم میں ہم آہنگی نہ ہونے کے برابر ہے ، کھلاڑیوں کے اپنے ذاتی اختلافات ٹیم پاکستان سے بڑے ہوگئے ہیں،اس تناظر میں بھارت کیساتھ میچ کیلئے ٹیم کے ممکنہ 11 کھلاڑیوں کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے پاس صرف ”گھر کے ہی شیر “ہیں  جنہیں صرف ہمارا میڈیا ہی  ورلڈ کلاس”سٹارز“ مانتا ہےمگر  دنیا ایسا نہیں سوچتی ، ویسے بھی دنیائے کرکٹ میں انکی کی پہچان صرف پاکستان ہےاس سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہیں !

”ٹرافی ہمارے پاس رہے یا ہاریں ، مگر دل نہ ہاریں گے“

ایک اور ہار۔۔۔مطلب  کھیل تمام !

سال 2024سے  لے کر اب تک قومی ٹیم نے 12ون ڈے میچز کھیلے جن میں سے 8میں فتح سمیٹی، اس طرح قومی کرکٹ ٹیم کا ریکارڈ کافی بہتر نظر آرہا تھا لیکن چیمپئن ٹرافی کے افتتاحی میچ میں نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہاتھ پاؤں پھلا دئیے ہیں ،اب حالیہ ٹیم  کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو اس سے یہ اندازہ لگانے میں زیادہ مشکل نہیں ہوگی کہ گرین شرٹس کا چیمپئن ٹرافی میں سفر اختتام کی جانب گامزن ہے اگرچہ اس سفر کی شروعات نیوزی لینڈ کیخلاف سیریز ہارنے کے بعد ہی ہوگئیں تھیں ۔ اب 23فروری کا میچ (جسے میڈیا پبلسٹی کیلئے ”پاک بھارت ٹاکڑا“ سے پکارتا ہے ) اب صرف نمائشی  میچ کی حیثیت رکھتا ہے ۔کیونکہ ہوم گراؤنڈ پر مسلسل شکستوں کے بعد سےقومی کرکٹ ٹیم شدید دباؤ کا شکار ہے ، بھارتی ٹیم پر ایسا کوئی نفسیاتی دباؤ نہیں ، بلکہ انھوں نے تو حالیہ ہوم سیریز میں انگلینڈ کرکٹ ٹیم کو ون ڈے  میں 0-3 سےشکست دی ہے ، جبکہ چیمپئن ٹرافی سے پہلے گرین شرٹس نے سہہ فریقی  ہوم سیریز میں1-2 سے شکست کھائی ہے۔بھارتی ٹیم کے پاس حقیقی معنوں میں” سٹار پاور“ ہے، انکی بیٹنگ لائن نویں نمبر تک جاتی ہے ، روہت شرما ، شبھن گل ،ویرات کوہلی  جبکہ مڈل آرڈر میں کے ایل راہول، رشبھ پنت ، آل راؤنڈرز میں  ہارتکھ پانڈیا ، روینڈرا جڈیجا سے لے کر اکثر پٹیل  تک جاتی ہے جبکہ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ محمد شامی جیسے فاسٹ باؤلر کے آگے شاید ہی پاکستانی بیٹنگ لائن اس بار چل پائے ۔

 کیا پاکستانی ٹیم چیمپئن ٹرافی 2025 فائنل کیلئے کوالیفائی کرپائے گی؟

چیمپئن ٹرافی کے پوائنٹس ٹیبل پر بھارتی ٹیم (0.408+) پوائنٹس کیساتھ دوسرے نمبر پر ہے(نیوزی لینڈ کے بھی پوائنٹس برابر ہیں مگر بہتر رَن ریٹ کی وجہ سے پوائنٹس ٹیبل پر پہلی پوزیشن سنبھالے ہوئے ہے) جبکہ بنگلہ دیشں اور پاکستان نے اپنے دونوں میچ ہارنے کے بعد ابھی تک کوئی پوائنٹ حاصل ہی نہیں کیا۔( جبکہ بنگلہ دیش  کا نیٹ رَین ریٹ پھر بھی پاکستان سے بہتر  یعنی 0.408-ہےاور پاکستان کا منفی 1.200ہے)۔ اب اس صورتحال میں پاکستان کو گروپ اے کے 2 مزید میچ کھیلنے ہیں ۔23فروری کو بھارت اور 27فروری کو بنگلہ  دیش سے اگر  پاکستانی ٹیم بھارت کیساتھ میچ ہار جاتی ہے تو اسکے ساتھ ہی چیمپئن ٹڑافی میں سفر اختتام کو پہنچے گا ، لیکن اگر گرین شرٹس نے ٹورنامنٹ میں اپنا سفر جاری رکھنا ہے تو اسے 23 فروری کے میچ میں بھارت کو ہر صورت شکست دینے کیساتھ بنگلہ دیش کیخلاف بھی فتح سمیٹنی  ہوگی (جو اور ایک پہاڑ سر کرنے کے برابر ہے کیونکہ بنگلہ دیش حالیہ ٹیسٹ سیریز میں ”بنگلہ واش“ کرچکا ہے)۔ اس گتھی کو  سلجھانے  کیلئے صرف اتنا   سمجھ لیں کہ 23 فروری کو بھارت کے ہاتھوں شکست کے بعد بھی قومی کرکٹ  کی سیمی فائنل تک پہنچنے کی امیدیں اسی صورت قائم رہ سکتی ہیں اگر 24فروری کو بنگلہ دیش ٹیم نیوزی لینڈ کو شکست دے، جس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے!

 پاک بھارت سابقہ میچوں کا جائزہ ۔۔۔

پاکستان نے نیوزی لینڈ کیخلاف چیمپئن ٹرافی کے پہلے میچ میں شکست کھا کر نیوزی لینڈ سے آئی سی سی ایونٹ میں  ناقابل شکست رہنے کا 9سالہ ریکارڈ توڑ دیا، آخری دفعہ پاکستان کو 2016کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی۔ جبکہ بنگلہ دیش کیخلاف بھی پاکستان کو آخری  مرتبہ  شکست کا سامنا رہا 1999کے ورلڈ کپ میچ کرنا پڑا تھا ۔انڈیا  کا ریکارڈ پاکستان کیخلاف2017 چیمپئن ٹرافی فائنل کی ہار کے بعد سے  نہایت شاندار رہا ہے۔8سالوں سے پاکستان انڈیا کو کسی بھی آئی سی سی ایونٹ میں شکست نہیں دے سکا ۔ اسکا نفسیاتی دباؤ23 فروری کو دبئی میں ہونیوالے میچ میں  یقیناً پاکستانی ٹیم پر ہوگا۔ جبکہ دونوں روایتی حریفوں کا آخری مرتبہ آمنا سامنا 2023کے ون ڈے ورلڈ کپ اور پھر ایشیاء کپ 2023 میں ہوا تھا ، جہاں بھارت نے باآسانی پاکستان کو شکست سے دوچار کردیا تھا (بلکہ سری لنکا میں ایشیاء کپ کا ون ڈے  میچ تو بارش کی وجہ سے 2 دن تک کھیلا گیا تھا جس کے پیچھے وجہ صرف براڈکاسٹرز کی زیادہ سے زیادہ پیسہ بنانے کی دھن تھی )۔پاکستان کو انڈیا سے 2018 کے ایشیاء کپ میں 2 مرتبہ شکست ہوئی ،پھر 2019 کے ورلڈ کپ میں ہار مقدر بنی اور پھر 2023کے ورلڈ کپ اور ایشیاء کپ میں شکست پاکستانی ٹیم کے حصے میں آچکی ہے۔ 23 فروری کے میچ میں بھارت  سے حساب برابر کرنے کا گرین شرٹس کے پاس ایک موقع ضرور ہے لیکن چیمپئن ٹرافی میں اب تک کی مایوس کن کارکردگی کے بعد اس جیت کی توقع بہت کم ہے!

  رضوان کی کپتانی کا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے!

محمد رضوان کی کپتانی جو انہوں نے کافی”محنت“ کے بعد حاصل کی ہے اب اس کپتانی پر نہ صرف سوالات اُٹھ رہے ہیں بلکہ آنیوالے چند دنوں میں محمد رضوان کی مسلسل خراب کارکردگی  کے باعث  اس کپتانی کا تاج بھی ان کے ہاتھ سے جانیوالا ہے ۔ اب سرجن نے آپریشن تھیٹر میں تمام تیاری مکمل کرلی ہے صرف میریض  کا انتظار باقی ہے، جیسے ہی مریض کو سرجری کیلئے تاریخ ملی اسی دن سرجری کا عمل شروع ہوجائے گا اور پھریہ سلسلہ صرف یہیں نہیں رُکے گا بلکہ اس کی لپیٹ میں باقی ”سٹارکھلاڑی “ بھی آئیں گے ، جن کے قومی ٹیم میں مستقبل کے حوالے سے کیرئیر داؤ پر لگے چکے ہیں ! چئیرمین پی سی بی نے نئے سٹیڈیم تو تعمیر کروادئیے لیکن شاید انہیں کسی نے یہ نہیں بتایا کہ اِن نئے تعمیر شدہ میدانوں میں جن کھلاڑیوں نے کھیلنا ہے وہ تو وہی پرانے ہیں ، پانی سر کے اوپر سے اب گز ر چکا ہے بس چند دنوں کی بات ہے پھر کھیل ختم ! 

 چئیرمین پی سی بی نئے میدانوں میں کھیلنے کیلئے کھلاڑی نہ لاسکے!

چئیرمین پی سی بی محسن نقوی نے کرکٹ کے میدان تو نئے کھڑے کردئیے مگر ان میدانوں میں کس نے لڑنا ہے اس کا فیصلہ نہ کرسکے ، انجرڈ کھلاڑیوں کیساتھ ایک ایسے 15 رکنی اسکواڈ کا اعلان کیا گیا جس کا نہ سر ہیں نہ پاؤں ۔۔۔!فخر زمان جو نیوزی لینڈ کیخلاف میچ  کے پہلے ہی اوور میں فیلڈنگ کرتے ہوئے گر گئے تھے ، اب پسلیوں میں  شدید شکایت کی وجہ سے چیمپئن ٹرافی کے باقی میچز نہیں کھیل سکیں گے ، اب  آئی سی سی  کی منظوری کے بعد فخرزمان کے متبادل  کے طور پر  امام الحق نے  پاکستانی ٹیم کے سکوارڈکو جوائن کرلیا ہے جو انڈیا کیخلاف میچ میں اوپننگ کریں گے۔فخر زمان کا  چیمپئن ٹرافی سے باہر ہونا بہت بڑا سیٹ بیک ہے ، وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کی بیٹنگ لائن مشکلا ت کا شکار ہے اور پاکستان کو 23 فروری کو انڈیا کیخلاف اس ٹورنامنٹ کا سب سے بڑا اور آر یا پار نوعیت کا میچ کھیلنا ہے ۔ فخر زمان ٹیم پاکستان میں واحد ایکس فیکٹر کی حیثیت رکھتے تھے جو کسی بھی لمحے میچ کا پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں  لیکن اب چیمپئن ٹرافی سے آؤٹ ہونے کے بعد پاکستان کی بیٹنگ لائن کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا  پڑ سکتا ہے ۔

 رہی بات نسیم شاہ اور شاہین شاہ آفریدی کی تو ان  دونوں فاسٹ باؤلرز  کی پرفارمنس بھی اب پہلے جیسی نہیں ، یہ باؤلرز صرف نام  کے سٹار ز رہ گئے ہیں کام شاید انکے بس کا اب رہا نہیں ۔ چیمپئن ٹرافی کے پہلے میچ میں نسیم شاہ نے 10 اوورز میں بغیر کوئی وکٹ لیے 68 رنز دئیے ، جبکہ حارث رؤف نے 83 رنز دے کر صرف 2 وکٹیں لیں وہ میچ کے مہنگے ترین باؤلر ثابت ہوئے ۔ ( یاد رہے دونوں کھلاڑیوں کو گذشتہ دو سالوں کے دوران مختلف انجریوں کا شکار ہونا پڑا ہے )۔ حارث رؤف جنہیں ایک فرنچائز نے ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام سے دریافت کیا تھا وہ ماضی میں صرف آسٹریلیا کی وکٹوں پر ہی  کامیاب ہوسکے ہیں ، اور 2023 کی آسٹریلیا ٹیسٹ سیریز میں تو وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے سے صاف انکار بھی کرچکے ہیں ۔ حالانکہ سینٹرل کنٹریکٹ کا حصہ ہوتے ہوئے  اگر بورڈ کو کسی کھلاڑی کی دستیابی درکار ہو تو وہ کھلاڑی بورڈ کو انکار نہیں کرسکتا، مگر حارث رؤف نے ایسا کیا ، انکے سینٹرل کنٹریکٹ کو معطل بھی کیا گیا لیکن پھر بورڈ نے مصلحت سے کام لیا اور حارث رؤف کی ون ڈے میں واپسی ہوگئی۔ 83 رنز دے کر صرف 2 وکٹیں لینے والے حارث رؤف پاکستان کیلئے چیمپئن ٹرافی مقابلوں میں دوسرے مہنگے ترین باؤلر ہیں ۔ان تمام کھلاڑیوں کی ترجیح صرف ٹی ٹوئنٹی کرکٹ رہ گئی ہے جہاں کم وقت میں زیادہ پیسہ کمایا جاسکتا ہے پاکستان ان کی ترجیحات میں کہیں بہت دور رہ گیا ہے آج  پاکستانی میڈیا  اور عوام اِن کھلاڑیوں کی مایوس کن کارکردگی سے تنگ آچکی ہے ، انھیں  تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن اس سارے معاملے میں اگر کوئی خاموش ہے تو وہ بورڈ ہے جو یہ سب خاموشی سے دیکھ ررہا ہے ۔

 اب وقت بڑی سرجری کرنے کا  آگیا ہے جس کا وعدہ چئیر مین پی سی بی  محسن نقوی نے گذشتہ سال ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شکست کے بعدقوم سے کیا تھا ۔اسطرح کی کارکردگی کے بعد گرین شرٹس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ آئی سی سی چیمپئن ٹرافی کے نویں ایڈیشن میں اپنے ٹائٹل کا دفاع کرنے میں کامیاب ہوجائے گی  احمقوں کی جنت میں رہنے کےبرابر ہے !اس طرح  سے دیکھا جائے تو ٹیم پاکستان کی بیٹنگ اور باؤلنگ لائن   میں وہ جان نظر نہیں آرہی جو کبھی گرین شرٹس کا خاصا ہوا کرتی تھی ، 90 کی دہائی پاکستان کرکٹ کیلئے ایک سنہری دور کی حیثیت رکھتی ہے  جب ہمارے پاس بھی حقیقی معنوں میں سٹارز ہوا کرتے تھے ۔ 

بابر اعظم سے اوپئنگ کرواکر ہیڈ کوچ عاقب جاوید نے بڑی غلطی کردی!

ہیڈ کوچ عاقب جاوید نے اس 15 رکنی سکواڈ میں فہیم اشرف اور خوشدل شاہ جیسے الراؤنڈز  کو شامل کرکے بڑ ی غلطی کردی ہے جس کا خمیازہ آنیوالے چیمپئن ٹرافی کے بقیہ میچز میں  ٹیم پاکستان کو اٹھانا پڑسکتا ہے۔پاکستانی ٹیم کے سٹار بلے باز بابر ( جن کے پاس ڈیٹا بہت ہے )واقعی انہوں نے یہ ثابت بھی کردیا ہے جب ٹر ائی سیریز  کے فائنل میں 123 اننگز  کھیلنے کے بعد 6ہزار رنز بنانے کا ہاشم آملہ کا ریکارڈ برابر کیا ۔  لیکن حالیہ نیوزی لینڈ سیریز میں  بابر اعظم مکمل فلاپ شو ثابت ہوئے ، بابر اعظم نے ون ڈے میچوں کی  5اننگز میں صرف 17.60 کی اوسط سے 88 رنز ہی اسکور کیے ہیں، بابر اعظم کی  بیٹنگ کو ون ڈاؤن کی پوزیشن سپورٹ کرتی ہے جہاں انکا ریکارڈ ہمیشہ سے بہتر رہا ہےیہی وہ پوزیشن ہے جہاں بابر اعظم نے 60.18 کی اوسط سے 5ہزار سے زائد رنز اسکور کررکھے ہیں ، مگر ہیڈ کوچ عاقب جاوید کو ابھی بھی ان ریکارڈز کو دیکھتے ہوئے بابر اعظم سے اوپئنگ کرواکرایک”بڑی پرفارمنس “کی توقع ہے جو شاید ایک خواب ہی رہے ، بابر اعظم بھی اب اس پریشر کو محسوس کررہے ہیں ۔  

 اب گرین شرٹس کو چیمپئن ٹرافی ٹورنامنٹ   کے سب سے اہم ترین میچ ”پاک بھارت ٹاکڑے“کا سامنا ہے  اور سب کی نظریں انڈیا کیساتھ دبئی میں ہونیوالے میچ پر مرکوز ہیں ، جس میں انڈیا کو ماضی کے ریکارڈ کے مطابق واضح برتری حاصل ہے  لیکن اگر  پاکستانی ٹیم اس اہم میچ میں ایک اور شکست کا سامنا کرتی ہے تو پھر گرین شرٹس کو گھر واپسی کی راہ لینا ہوگی اور ٹورنامنٹ میں سیمی فائنل تک کوالیفائی کرنے کے امکانات ختم ہوجائیں گے یہ پاکستانی کرکٹ اور ٹیم کیلئے یقینا ًبہت بڑا دھچکہ ثابت ہوگا ۔خالی چیمپئن ہونے اور چیمپئن ٹرافی کے میزبان ہونے کے دعوؤں سے آگے بڑھ کر محنت  سے نتیجہ حاصل کرنا  ہو گا کیونکہ بازی تو کھیل کر ہی جیتی جاتی ہے صرف دعاؤں سے کام نہیں چلتا ۔

ارسلان سید گذشتہ 8 سالوں کے دوران میڈیا کے کئی بڑے اداروں میں بطور پروڈیوسر کرنٹ افئیرز ذمہ داریاں انجام دے چکے ہیں۔ صحافتی اصولوں کی پاسداری، جمہوریت اور عوامی صحت، انسانی حقوق ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔