لندن جا کر ہی بیٹھنا تھا تو نوجوانوں کو ایسٹبلشمنٹ کے سامنے لا کھڑا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

لندن جا کر ہی بیٹھنا تھا تو نوجوانوں کو ایسٹبلشمنٹ کے سامنے لا کھڑا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
نواز شریف اور مریم نواز نے بالآخر ایک طویل خاموشی توڑتے ہوئے پچھلے کچھ دنوں سے دوبارہ بیانات دینے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نواز شریف اور مریم نواز کے لندن بیٹھ کر داغے گئے بیانات مسلم لیگ نون کو ریاستی جبر اور انتخابات میں دھاندلی سے بچانے کے لئے کافی ہیں؟ ابھی تک کی صورتحال دیکھتے ہوئے یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ محض لندن میں بیٹھ کر بیانات دینے سے بات ہرگز نہیں بنے گی۔ ایک ایسے وقت میں جب اس جماعت کے امیدواران برائے قومی اور صوبائی اسمبلی کو مختلف ہتھکنڈوں کی مدد سے ہراساں کیا جا رہا ہے اور انہیں عدلیہ اور نیب کی مدد سے شکار کر کے انتخابی اکھاڑے سے ناک آوٹ کیا جا رہا ہے، نواز شریف اور مریم نواز کا لندن میں بیٹھے رہنا اور پاکستان واپس نہ آنا مسلم لیگ نواز کی انتخابات میں شکست کا باعث بنتا دکھائی دیتا ہے۔

یہ کڑا امتحان شہباز شریف کی صلاحیت سے کہیں بڑا ہے


شہباز شریف جو کہ اس وقت مسلم لیگ نواز کے صدر ہیں کے لئے یہ کڑا امتحان ان کی اہلیت اور صلاحیت سے کئی گنا زیادہ ہے۔ شہباز شریف ویسے بھی نواز شریف کے بیانئے سے اظہار لاتعلقی کر چکے ہیں۔ ان کی جماعت کے ارکان کی گرفتاری کا معاملہ ہو یا نااہلی کا یا پھر ممبران کو ہراساں کیے جانے کا، شہباز شریف ان معاملات میں زبان کو تالہ لگا کر خاموش بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔ حال ہی میں کامران خان کو دیے گئے ایک انٹرویو میں شہباز شریف یہ بھی بیان کر چکے ہیں کہ وہ مقتدر قوتوں سے ڈکٹیشن لینے کے لئے بالکل تیار ہیں بلکہ وہ تو یہ بھی فرما چکے ہیں کہ معاشی اور خارجہ پالیسیوں کو بناتے وقت جرنیلوں کے ساتھ مشاورت کرنا بے حد ضروری ہے۔ یعنی شہباز شریف بھی عمران خان کی مانند صرف حصول اقتدار کو اول و آخر مقصد گردانتے ہوئے گذشتہ ستر برس کے سٹیٹس کو تبدیل کرنے پر ہرگز آمادہ نہیں ہیں۔

عمران خان یہ تاثر دینے میں کامیاب ہو چکے ہیں کہ  وہ اگلے وزیر اعظم ہیں


دوسری جانب نواز شریف اب کھل کر خفیہ اداروں کی انتخابات میں پری پول رگنگ کے بارے میں بیانات دے رہے ہیں۔ ایک ہی سیاسی جماعت کے دو مختلف بیانئے ہیں اور اس صورتحال سے مسلم لیگ نواز کا ووٹر انتہائی نالاں دکھائی دیتا ہے۔ دوسری جانب عمران خان راولپنڈی والوں کی آشیرباد سے کم سے کم عوام میں یہ تاثر دینے میں کامیاب ہو چکے ہیں کہ بیساکھیوں اور الیکٹیبلز کے سہارے وہ آئندہ انتخابات کے بعد وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ایسی صورتحال میں محض لندن میں بیٹھ کر بیانات دینے سے نواز شریف کا 'ووٹ کو عزت دو' کا بیانیہ نہ صرف دن بدن کمزور ہوتا جا رہا ہے بلکہ اس جماعت کا ووٹر بھی مورال کھونے لگا ہے۔


کیوں نادیدہ قوتوں کے خلاف کھڑا کروا کر کے انہیں انہی قوتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا؟


یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر نواز شریف اور مریم نواز نے آخر میں لندن جا کر ہی بیٹھنا تھا اور انتخابی مہم کے عمل سے پرے رہنا تھا تو پھر 'ووٹ کو عزت دو' کا انتخابی نعرہ اور ایک اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ بیانئے کی بنیاد رکھ کر پنجاب کی مڈل کلاس کے نوجوانوں کو ایسٹبلشمنٹ کے سامنے لا کھڑا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر شہباز شریف نے بطور صدر مسلم لیگ نواز نادیدہ قوتوں کے آگے سر جھکانے کا فیصلہ ہی کرنا تھا تو پھر ایک عام ووٹر اور ورکرز کو کیوں نادیدہ قوتوں کے خلاف کھڑا کروا کر کے انہیں انہی قوتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا؟ یہ قریب قریب اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کا اختتام ہے اور اس جدید دور میں یہ توقع کرنا کہ لندن سے بیٹھ کر پارٹی معاملات چلائے جائیں گے یا خود لندن میں بیٹھ کر یہ توقع کرنا کہ ووکر اور ووٹر جیلیں کاٹے یا صعوبتیں برداشت کرے ایک غیر دانشمندانہ اقدام اور سوچ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ قربانی ہمیشہ لیڈر دیتا ہے اور پھر ورکرز اور عوام اس کے نظریے کی بقا کی خاطر بقیہ لڑائی لڑتے ہیں۔


جمہوریت کی جنگ لڑنی ہے تو پھر انہیں جلد سے جلد وطن واپس آ کر قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑے گا


یہ 1999 نہیں ہے کہ کوئی ڈیل یا عذر پیش کر کے خود جلاوطنی اختیار کی جائے اور ووٹرز یا ورکرز سے توقع کی جائے کہ لیڈروں کے حصے کی جیلیں وہ کاٹیں۔ راقم کئی بار عرض کر چکا ہے کہ اینٹی ایسٹبلشمنٹ یا مزاحمتی سیاست کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہوا کرتا اور یہ راستہ ازل سے بےپناہ قربانییوں کا طالب ہے۔ گڑھی خدا بخش کا قبرستان جہاں ذوالفقار بھٹو اپنی بیٹی اور بیٹوں سمیت دفن ہے اس بات کا ثبوت بھی ہے اور اس راستے پر چلنے والوں کے لئے ایک سبق بھی۔ نواز شریف اور مریم نواز نے اگر حقیقتاً سویلین بالادستی اور جمہوریت کی جنگ لڑنی ہے تو پھر انہیں جلد سے جلد وطن واپس آ کر قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑے گا کہ یہ وہ واحد راستہ ہے جو مسلم لیگ نواز کی سیاست کی بقا کا باعث بن سکتا ہے۔

عمران اور شہباز میں سے کوئی بھی جیتے، فتح اسٹیبلشمنٹ کی ہوگی


بصورت دیگر شہباز شریف کی صدارت میں موجود مسلم لیگ نواز ہمیشہ کی مانند ایسٹبلشمنٹ کی "بی ٹیم" کا کردار ادا کرے گی۔ ایسٹبلشمنٹ ویسے بھی شہباز شریف بمقابلہ عمران خان کے انتخابی معرکے کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتی ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی جیتے، جیت دراصل ایسٹبلشمنٹ کی ہونی ہے اور دونوں ہی ڈکٹیشن لے کر کام کرنے میں کوئی عار بھی نہیں سمجھتے۔ یہاں یہ بات بھی حل طلب ہے کہ کیا شہباز شریف موجودہ صورتحال کے تناظر میں اپنی جماعت کو مزید ٹوٹ پھوٹ اور اندرونی خلفشار سے بچا پائیں گے؟ فی الحال شہباز شریف جس انداز میں اپنی جماعت کے ہی زیر عتاب لوگوں سے لاتعلقی اختیار کیے بیٹھے ہیں، اس کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شاید شہباز شریف کو مسلم لیگ نواز کی بقا میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ ویسے بھی الیکشن کمیشن میں نواز شریف کا نام مسلم لیگ سے ہٹائے جانے کے خلاف سماعت چل رہی ہے اور جس مضحکہ خیز انداز سے عدالتوں سے مسلم لیگ نواز کے خلاف فیصلے کروائے جا رہے ہیں اس کو دیکھ کر یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ الیکشن کمیشن نواز شریف کا نام بھی شاید مسلم لیگ سے ہٹانے کا فیصلہ صادر فرما دے۔


شہباز شریف کی سیاست بھی عمران خان کی مانند  اطاعت اور فرمانبرداری ہے


یعنی مسلم لیگ نواز سے مسلم لیگ شہباز یا مسلم لیگ الف ب کچھ بھی نام رکھ دیا جائے۔ غالباً شہباز شریف اچھی طرح جانتے ہیں کہ ووٹ پہلے نواز شریف کو تن تنہا پڑتا تھا اور اب یہ ووٹ مریم نواز کو پڑتا دکھائی دیتا ہے۔ شہباز شریف اتنے کم عقل نہیں ہو سکتے کہ وہ یہ بنیادی نقطہ نہ سمجھتے ہوں۔ اس حقیقت کو جاننے کے باوجود شہباز شریف کے پرو ایسٹبلشمنٹ بیانئے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شہباز شریف کی سیاست کا محور عمران خان ہی کی مانند عوام نہیں بلکہ پس پشت قوتوں کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے۔

2007 میں پیپلز پارٹی نے جب الیکشن میں حصہ لیا تو بی بی کی قبر کی مٹی ابھی گیلی ہی تھی


نواز شریف کو اب یہ طے کرنا ہو گا کہ کیا انہیں یا مریم نواز کو مستقبل میں پاکستان کی سیاست میں کوئی فعال کردار ادا کرنا ہے؟ اور اگر وہ فعال کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو پھر ان کی فوراً واپسی ناگزیر ہے۔ سیاست بے حد بے رحم ہوتی ہے اور یہ کسی بیماری یا انسانی مجبوریوں کو نہیں دیکھا کرتی۔ غالباً نواز شریف سے بہتر یہ بات کوئی نہیں جان سکتا کہ انہوں نے بینظیر کو اپنے باپ اور بھائیوں کی اموات کے باوجود سیاست کرتے دیکھا اور 2007 میں پیپلز پارٹی نے جب الیکشن میں حصہ لیا تو بی بی کی قبر کی مٹی ابھی گیلی ہی تھی۔

شہباز اور عمران ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں


شہباز شریف اور عمران خان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور دونوں پس پشت قوتوں کی بیساکھیوں کے محتاج ہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز ایسے میں وطن واپس آنے کا فیصلہ کرتے ہیں یا نہیں اس کا اثر آئندہ انتخابات کے نتائج پر بھی پڑے گا اور مسلم لیگ نواز کی سیاست اور بقا پر بھی اس فیصلے کے اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن جمہوری بالادستی کے نظریے اور عوام کے اجتماعی شعور کو بزور طاقت رد کرنے والی قوتوں کے خلاف تقویت پاتے بیانیوں کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ کہ نظریات کبھی بھی شخصیات کے محتاج نہیں ہوا کرتے بلکہ شخصیات کو نظریات کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔ اور نہ ہی آگہی کے دریچوں پر قفل لگا کر شعور کا گلا گھونٹنے کی کوششیں کامیاب ہوا کرتی ہیں۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔