سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین اور قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے رکن مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ حفیظ بلوچ کو غلط الزام کے تحت زیر حراست رکھا گیا لیکن سزا نہیں دی گئی۔ ایسی صورت میں سادہ حل معافی مانگنا ہے۔
مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ کہہ دیں کہ غلط شناخت کا معاملہ تھا۔ ہونا بھی یہی چاہیے کہ کسی کو غلط سزا نہ ملے۔ ریاستی اداروں سے غلطی بھی ہو سکتی ہے اور اگر ایسا ہے تو ادارے حفیظ بلوچ سے معافی مانگیں۔
بی بی سی کے مطابق حفیظ بلوچ کے بارے میں بات کرتے ہوئے مشاہد حسین سید نے کہا کہ اصل بات تو یہ ہے کہ ان اداروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے جو اس کام میں ملوث ہیں۔ ورنہ احتساب کیسے کیا جائے گا؟‘ لیکن اس وقت اہم سوال بھی یہی ہے کہ کیا ایسے اداروں کو قانون کا پابند کیا جا سکتا ہے؟
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ اٹھانے پر ان کا کہنا تھا کہ یہ چیز ایجنڈے میں شامل نہیں تھی لیکن میں نے اس لئے اٹھایا کیونکہ ملک بھر میں جبری گمشدگیوں کے کیس کافی بڑھ چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: حفیظ بلوچ دہشتگردی کے مقدمے سے باعزت بری، کیس خارج کر دیا گیا
خیال رہے کہ قائداعظم یونیورسٹی میں زیر تعلیم بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طالبعلم حفیظ بلوچ کو عدالت نے دہشتگردی کے تمام الزامات سے بری کرتے ہوئے رہا کر دیا ہے۔ ان کیخلاف کیس کو بھی خارج کر دیا گیا ہے۔
حفیظ بلوچ کے وکیل عمران بلوچ ایڈووکیٹ نے بتایا کہ بدھ کو عدالت نے مقدمے کی سماعت مکمل کرکے اس پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ جمعرات کو اس پر فیصلہ سناتے ہوئے عدالت کےجج محمد علی مبین نے حفیظ بلوچ کو تمام مقدمات سے بری کرتے ہوئے ان کو رہا کرنے کا حکم دیا۔ عمران بلوچ کے مطابق استغاثہ نے حفیظ بلوچ پر جو بھی الزامات لگائے تھے عدالت میں وہ ان کو ثابت نہیں کر سکے جس پر عدالت نے ان کو تمام الزامات سے بری کردیا۔
حفیظ بلوچ کو اس وقت حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کیا جب وہ ایک نجی اکیڈمی میں بچوں کو پڑھا رہے تھے۔ حفیظ بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف بلوچستان سمیت دیگر علاقوں میں احتجاج ریکارڈ کیا گیا۔
بی بی سی میں شائع خبر کے مطابق سی ٹی ڈی بلوچستان نے 15 مارچ کو حفیظ بلوچ کی بلوچستان کے علاقے جھل مگسی سے گرفتاری ظاہر کرتے ہوئے ان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔
سی ٹی ڈی بلوچستان نے دعویٰ کیا تھا کہ عبدالحفیظ بلوچ سے 15 مارچ کو دھماکہ خیز مواد برآمد کیا گیا، جس کی بنیاد پر ان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ان کے خلاف سی ٹی ڈی کی ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ ’مخبر خاص نے اطلاع دی کی ایک نوجوان جو کالعدم تنظیم بی ایل اے اسلم گروپ کا کارکن ہے ایک سیاہ بیگ اٹھائے مشکوک حالت میں جھل مگسی کے راستے سے جعفر آباد کی جانب پیدل آ رہا ہے۔‘
ایف آئی آر کے مطابق اس اطلاع پر سیف آباد شاخ کے علاقے جعفرآباد گوٹھ محمد مٹھل مگسی میں ناکہ بندی کی گئی۔ اس دوران دن دو بجکر 30 منٹ پر ایک نوجوان بیگ اٹھائے پیدل آیا جسے گرفتار کر لیا گیا۔
ایف آئی آر کے مطابق ’بیگ کی تلاشی لینے پر اندر دھماکہ خیز مواد اور نٹ بولٹ پائے گئے۔ ڈیجیٹل ترازو میں وزن کرنے پر دھماکہ خیز مواد کا وزن 200 گرام جبکہ لوہے کے نٹ بلٹ کا وزن 400 گرام تھا۔ اس کے علاوہ ان سے تار وغیرہ بھی برآمد ہوئی۔‘
دھماکہ خیز مواد کی برآمدگی کے الزام میں ان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا اور مقدمے کا چالان انسداد دہشت گردی کی عدالت اوستہ محمد میں جمع کرایا گیا۔