اللّٰہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے؛ 'جس نے کسی ایک انسان کو (ناحق) قتل کیا، تو اُس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی ایک انسان کو زندگی بخشی، اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی'۔ (القرآن 5:32)
سوات میں پیش آنے والا دلسوز واقعہ، جہاں ایک ہجوم نے ایک شخص کو بے دردی سے مار مار کر اس کی لاش کو آگ لگا کر جلا ڈالا، آگ کے اس دریا کی طغیانی کی چشم کشا دلیل ہے جو ہمارے معاشرے میں جاری ہے۔ آگ کے اس دریا میں یہ طغیانی ہجوم کے تشدد، نظریاتی انتہا پسندی اور اس طرح کے مظالم کے خلاف کھڑے ہونے میں ہماری اجتماعی ناکامی کی وجہ سے ہے۔
یہ ایک بار بار آنے والا ڈراؤنا خواب ہے جو ہمیں پریشان کرتا چلا آ رہا ہے، ایک یاد دہانی کہ تاریخ اپنے آپ کو انتہائی ہولناک طریقوں سے دہرا سکتی ہے۔ تفصیلات مختلف ہو سکتی ہیں، لیکن نتیجہ ہمیشہ ایک جیسا ہوتا ہے، تباہی، افراتفری اور موت۔
سوات میں جمع ہونے والا ہجوم غلط معلومات، تعصب اور انتہا پسند نظریاتی جوش کے زہریلے آمیزے سے چلایا گیا۔ توہین مذہب کے لیے پاکستان میں قوانین موجود ہیں لیکن ہجوم نے خود ہی آن کی آن میں عدالت لگائی، فیصلہ دیا اور خود ہی اس پر عمل کر دیا۔ ناصرف یہ بلکہ پولیس والوں پر گولی چلائی اور تھانے کو بھی آگ لگا دی گئی۔ یہ نظریہ سوات کے لیے منفرد نہیں ہے۔ یہ ایک کینسر ہے جو ہمارے ملک اور معاشرے میں پھیل چکا ہے۔ یہ بحیثیت مجموعی ہمارے دماغوں اور دلوں کو بری طرح متاثر کر چکا ہے۔
توہین مذہب کی آڑ میں یہ درندگی شرف انسانیت سے بہت نیچے ہے۔ یہ بربریت درندگی اور دیوانہ پن ہے۔ یہ کسی بھی دین کو رسوا کرنے کے مترادف ہے بلکہ یہ انسانیت کو رسوا کرنے کے مترادف ہے۔ ہمارے ملک میں جب لوگ ایک ہجوم کا حصہ بن جاتے ہیں تو وہ اپنے نفس، عقل کی صلاحیت اور اپنی انسانیت کھو دیتے ہیں۔ وہ تباہی کی ایک طاقت بن جاتے ہیں، جو ان کے راستے میں کھڑی کسی بھی چیز کو تباہ کرنے کی ابتدائی خواہش کے تابع فرمان ہوتے ہیں۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
سوات کا واقعہ ہماری اجتماعی ناکامی کی واضح اور تازہ ترین مثال ہے۔ ہم ایک ایسا معاشرہ بنانے میں ناکام رہے ہیں جو عقل، دلیل، احترام باہمی، انفرادیت اور انسانی زندگی کی قدر کرے۔ ہم نظریاتی انتہا پسندی اور ہجومی تشدد کے خلاف کھڑے ہونے میں ناکام رہے ہیں۔ ہم ایک ایسی دنیا بنانے میں ناکام رہے ہیں جہاں لوگ ناحق مارے جانے، جلائے جانے یا ناحق تشدد کیے جانے کے خوف کے بغیر رہ سکیں۔ ہماری موجودہ صورت حال کسی لاوارث اور لاقانونیت کا شکار ہجوم سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ شعیب کیانی نے بجا کہا;
کہیں یہ وہ بھیڑ تو نہیں ہے
کہ جو درختوں میں، زندہ نبیوں کو کاٹتی تھی
جو وقتِ تصلیبِ ابن مریمؑ، تماش بیں تھی
جو آگ میں پھینکے جانے والے
خلیلِ یزداں پہ ہنس رہی تھی
جو ثور کی غار تک نبیؑ کو
شہید کرنے چلی گئی تھی
جو شہرِ طائف میں سنگ اٹھائے
نبیﷺ کو زخموں سے بھر رہی تھی
جو کربلا میں حسینؑ کے سر کو نیزے پر رکھ کے گھومتی تھی
یہ بھیڑ ویسی ہی لگ رہی ہے
یہ بھیڑ دعوے تو کر رہی ہے
اک ایسے انساں کی پیروی کے
جو اپنے دشمن پہ مہرباں تھا
آگ کا دریا جو ہمارے معاشرے میں بہ رہا ہے تب تک جلتا رہے گا جب تک ہم اپنے اعمال کی اجتماعی ذمہ داری نہیں لیتے۔ جب تک ہم ہجومی تشدد، نظریاتی انتہا پسندی اور انسانی زندگی کی تباہی کے خلاف نہیں اٹھتے۔ جب تک کہ ہم ایک ایسی دنیا نہ بنائیں، ایک ایسا جہان آباد نہ کریں جہاں عقل، دلیل، احترام باہمی، انفرادیت اور انسانی وقار کی قدر اور حفاظت کی جائے۔
پاکستان اس سوچ سے کیسے باہر آ سکتا ہے؟ طالب علم کی رائے میں پاکستان کے لیے ایک قابل عمل حل یہ ہو سکتا ہے؛
*مجرموں کے لیے سخت سے سخت سزاؤں کے ساتھ اینٹی لنچنگ قانون سازی کی جائے۔
*بین المذاہب ہم آہنگی اور تنازعات کے حل کے لیے قومی کمیشن کا قیام کیا جائے۔
*رواداری اور بقائے باہمی کو فروغ دینے کے لیے کمیونٹی تک رسائی اور آگاہی کے پروگرام شروع کیے جائیں۔
* ہجومی تشدد کے حالات سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تربیت دی جانی چاہیے۔
*تنازعات کے پرامن حل کو فروغ دینے کے لیے مذہبی رہنماؤں اور کمیونٹی عمائدین کا تعاون حاصل کیا جائے۔
* ہجومی تشدد کے واقعات کی رپورٹنگ کے لیے قومی ہیلپ لائن کا قیام عمل میں لایا جائے۔
*سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے اور سماجی اقتصادی مسائل سے نمٹنے کے لیے کمیونٹی پر مبنی اقدامات کا نفاذ کیا جانا چاہیے۔
*میڈیا کی ذمہ داری کو سنسنی خیزی سے بچنے اور حقائق پر مبنی رپورٹنگ کو فروغ دینے کی ترغیب دینا
کثیر جہتی نقطہ نظر اپنا کر پاکستان Mob Lynching سے مؤثر طریقے سے نمٹ سکتا ہے اور امن، رواداری اور انصاف کے کلچر کو فروغ دے سکتا ہے۔