لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز کی بڑی بیٹی طیبہ دعا گرفتاری کے بعد رہا

لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز کی بڑی بیٹی طیبہ دعا گرفتاری کے بعد رہا


لال مسجد ترجمان اور غازی عبدالرشید کے بیٹے ہارون غازی نے میڈیا کو جاری کیے گئے ایک اعلامیے میں دعویٰ کیا ہے کہ اسلام آباد پولیس اور سادہ کپڑوں میں ملبوس کچھ لوگوں نے 3 گھنٹے مولانا عبدالعزیز کی بڑی بیٹی طیبہ دعا کے گھر کا محاصرہ کیے رکھا۔ ان کو مسلسل حبس بے جا میں رکھنے کے بعد پولیس نے ان کو 72 گھنٹے کے لئے گرفتار رکھنے کے بعد رہا کیا۔

ہارون غازی سے جب اس حوالے سے نیا دور میڈیا نے رابطہ کیا تو انھوں نے گرفتاری کی تصدیق کی اور کہا کہ گذشتہ کئی گھنٹے سے حکومت مولانا عبدالعزیز کی بڑی بیٹی طیبہ دعا کو ہراساں کر رہی ہے اور ان کے گھر کا محاصرہ کیے رکھا اور پھر ان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ تاہم انہیں اب رہا کر دیا گیا ہے۔

ایک سوال پر کہ طیبہ دعا پر ایسے کون سے مقدمات ہیں جن کے تحت ان کو گرفتار کیا گیا کے جواب میں ہارون غازی نے کہا کہ ان پر کوئی مقدمات نہیں بلکہ حکومت ان تمام لوگوں کو دباؤ میں لا رہی ہے جو مولانا عبدالعزیر کے قریب ہیں اور طیبہ کو حبس بے جا میں رکھنا بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ تاکہ مولانا عبدالعزیز پر دباؤ بڑھایا جائے۔

نیا دور مسلسل اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ رابطے میں ہے مگر تاحال وہ کسی بھی قسم کا کوئی موقف دینے سے گریزاں ہیں۔

یاد رہے کہ لال مسجد انتظامیہ 13 سال سے ریاست مخالف اور امن عامہ کے لئے نقصان دہ سرگرمیوں میں کھلے عام ملوث رہی ہے۔ جب بھی ملک کو اتحاد و یگانگت کی ضرورت پڑی لال مسجد کی انتظامیہ نے تقسیم، خوف اور دہشت کا بازار گرم کیا۔

حال ہی میں 8 مارچ 2020 کو عورت آزادی مارچ پر لال مسجد کے غنڈوں کی جانب سے اینٹوں اور پتھروں سے حملہ کیا گیا تھا۔ عورت آزادی مارچ ڈی چوک کی طرف رواں دواں تھا۔ لال مسجد کے غنڈوں کی جانب سے مارچ کے شرکا پر اینٹیں اور پتھر پھینکے گئے۔ واضح رہے کہ لال مسجد کی جانب سے پہلے بھی عورت مارچ کے خلاف دھمکیاں دی گئی تھیں، اور ایک موقع پر عورت آزادی مارچ کے پوسٹر بھی پھاڑ دیے گئے تھے۔

دوسری جانب جب سے کرونا وائرس کی وبا نے ملک میں زور پکڑنا شروع کیا ہے لال مسجد انتظامیہ کی ہٹ دھرمی وفاقی دارالحکومت میں کرونا وائرس کے خلاف ہونے والےاقدامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا باعث بنتی رہی۔ کئی ہفتے تک ایف آئی آر کے باوجور کوئی ایکشن نہ لینے کے بعد حکومت نے لال مسجد کو بند کروانے کی بجائے حکومت نے اپنا لاک ڈاؤن ہی کھول دیا تھا۔



نیا دور کی خبروں کے مطابق لال مسجد میں حکومت کے احکامات اور ایس او پیز کے نفاذ کی اپیل کے باوجود فاصلہ رکھے بغیر نماز جمعہ کے اجتماعات کرائے گئے اور نماز کے دوران فاصلہ رکھنے کی حوصلہ شکنی کی گئی۔

10 اپریل کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود لوگوں نے درجنوں کی تعداد میں نماز جمعہ ادا کی اور اسلام آباد انتظامیہ کے لگائے گئے لاک ڈاون کی دھجیاں اڑا دیں۔

مساجد میں سوشل ڈسٹنسنگ کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔ لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کی سربراہی میں بھی جمعہ کی نماز ادا کی گئی۔ عینی شاہدین کے مطابق مسجد میں نماز جمعہ کے لئے 500 سے زیادہ لوگ جمع ہوئے۔

تاہم، 24 اپریل کو انتظامیہ کی طرف سے بزور بازو جمعہ کا خلاف قانون اجتماع منسوخ کرایا گیا تو مولانا عبدالعزیز نے ملک بھر سے طلبہ کو اکھٹے ہونے کا حکم دیا تھا۔ اس دوران ان کی جانب سے ریاست مخالف تقاریر بھی جاری رہیں اور حکومت کے خلاف اشتعال انگیزی بھی، لیکن انتظامیہ کے ہاتھ بندھے رہے۔ اتوار کی دوپہر بھی طیبہ دعا کی گرفتاری کے کچھ ہی دیر بعد انتظامیہ نے انہیں بھی رہا کر دیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا لال مسجد پوری حکومتی اور ریاستی مشینری سے زیادہ طاقتور ہے جو اس پر ہاتھ ڈالنے کی کوئی جرأت نہیں کی جاتی؟

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔