مولانا عبدالعزیز کا ایک بار پھر ’لال مسجد‘ پر قبضہ؛ حالات کشیدگی کی طرف جا سکتے ہیں

مولانا عبدالعزیز کا ایک بار پھر ’لال مسجد‘ پر قبضہ؛ حالات کشیدگی کی طرف جا سکتے ہیں

اسلام آباد کی لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز 13 برس بعد حکومت کی مرضی کے خلاف مسجد میں دوبارہ داخل ہوگئے جس کے باعث قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مسجد کا محاصرہ کرلیا۔




یاد رہے کہ 4 جولائی 2007 کو اسلام آباد کے سیکٹر 6 میں واقع لال مسجد کے خلاف ریاستی کارروائی کے دوران مولانا عبدالعزیز برقع پہن کر مسجد سے فرار ہونے کی ایک ناکام کوشش کے بعد پکڑ لئے گئے تھے۔

کارروائی حکومت کے مطابق مسجد کے منتظمین کی شدت پسندانہ سوچ اور اقدامات کے نتیجے میں کی گئی تھی جس کے دوران متعدد طلبہ و طالبات سمیت دیگر جاں بحق اور زخمی ہوگئے تھے جن میں مولانا کے چھوٹے بھائی مولانا عبدالرشید بھی شامل تھے۔ مولانا عبدالعزیز کو سپریم کورٹ کے حکم پر اپریل 2009 میں رہا کر دیا گیا تھا تاہم ان پر لال مسجد میں داخلے پر پابندی تھی۔

https://twitter.com/nayadaurpk_urdu/status/1226119076784803856?s=20

لال مسجد کے ترجمان حافظ احتشام احمد جو ماضی میں مولانا کے ایک قریبی ساتھی تھے نے ہفتے کے روز بتایا کہ پابندی کے باوجود مولانا عبدالعزیز گزشتہ 2 ہفتے قبل مسجد میں داخل ہوگئے تھے تاہم انہیں خبردار کر دیا گیا تھا کہ ان کی یہاں موجودگی صورتحال کو کشیدہ کرسکتی ہے۔

ترجمان نے مزید بتایا کہ پولیس نے مسجد کا محاصرہ کیا ہوا ہے اور غیر متعلقہ افراد کو اندر داخل نہیں ہونے دیا جارہا۔ انھوں نے مزید بتایا کہ مولانا عبدالعزیز کے بھتیجے اور مولانا عبدالرشید کے بیٹے ہارون رشید صورتحال مزید خراب کرنا چاہتے ہیں۔

اسلام آباد کے ایک پولیس افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسلام آباد انتظامیہ نے مولاناعبدالعزیز اور ان کی اہلیہ سے مذاکرات شروع کئے لیکن جمعہ کو اُمِ حسان کی جانب سے مبینہ شر انگیز خطاب کے بعد یہ مذاکرات روک دئیے گئے۔

27382/

مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ اُمِ حسان نے میڈیا سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ مسجد کے اندر تقریباً تین سو طالبات موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کھانے پینے کا سامان اور دوائیاں بھی مسجد میں لے جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔


مولانا کے قریبی ذرائع کے مطابق مولانا جامعہ حفصہ کی تعمیر کے لیے پلاٹ چاہتے ہیں۔ اسلام آباد انتظامیہ نے 2012 میں انھیں اور ان کی اہلیہ اُمِ حسان کو سیکٹر ایچ 11 میں 20 کنال کا ایک پلاٹ دیا تھا تاہم سپریم کورٹ نے اس پلاٹ کی الاٹمنٹ پچھلے برس منسوخ کردی تھی۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق مولانا عبدالعزیز چاہتے ہیں کہ ان کو دوبارہ نماز پڑھانے کیے اجازت دی جائی اور 25 کروڑ روپے بھی دئیے جائیں۔ انھوں نے  بتایا کہ انتظامیہ نے ایچ 11 میں جامعہ حفصہ خالی کرنے کی ڈیڈ لائن دی ہے، بصورت دیگر دوبارہ آپریشن کیا جائے گا۔ انھوں نے مزید بتایا کہ خوراک کی فراہمی روک دی گئی ہے تاہم انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ اور ان کے ساتھی مذہب کی خاطر ثابت قدم رہیں گے۔



لال مسجد کے علاقے میں رہنے والے لوگوں کا خیال ہے کہ مولانا عبدالعزیز ضد کے پکے ہیں اور یہاں آ کر بیٹھنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ آسانی سے واپس نہیں جائیں گے، جس کی وجہ سے یہ امکان پیدا ہو رہا ہے کہ شاید انہیں نکالنے کے لیے پولیس طاقت کا استعمال کرے۔



لال مسجد آپریشن: 

لال مسجد سن دو ہزار سات میں اس وقت ملکی اور بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنی، جب اس کے شعلہ بیاں پیش امام مولانا عبدالعزیز اور ان کے بھائی غازی عبدالرشید نے نفاذ شریعت کا مطالبہ کیا۔ مسجد سے متصل مدرسے جامعہ حفصہ کی طالبات نے کئی مساج سینٹرز پر بھی مبینہ طور پر حملے کیے۔ حکومت کا الزام تھا کہ مسجد اور مدرسہ انتہاپسندوں کا گڑھ ہے، جہاں تحریک طالبان پاکستان کی کھل کر حمایت کی جاتی ہے۔

حکومت نے الزام لگایا کہ مسجد سے اشتعال انگیز تقریریں ہو رہی ہیں اور ریاست کی رٹ کو کھلم کھلا چیلنج کیا جا رہا ہے۔ ان تمام عوامل کے پیش نظر دو ہزار سات میں پرویز مشرف کی حکومت نے ایک ملٹری آپریشن شروع کیا، جس میں مبینہ طور پر سینکڑوں افراد بشمول غازی عبدالرشید ہلاک ہوئے۔ اس واقعے کے بعد مولانا عبدالعزیز کو حراست میں لیا گیا اور بعد میں انہیں رہا کر دیا گیا لیکن ان کے لال مسجد آنے پر پابندی لگا دی گئی۔