Get Alerts

لال لال کیا لہرایا، یہاں تو لوگوں کے ہوش ہی اڑ گئے

لال لال کیا لہرایا، یہاں تو لوگوں کے ہوش ہی اڑ گئے
لال لال کیا لہرایا کہ سماج کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں مدہوش طبقے کے ہوش ہی اُڑ گئے ہیں۔ اس نے لال کے نظریۂ مساوات کو سوچے، سمجھے اور پڑھے بغیر ہی رد کرنا شروع کر دیا۔ یہ اس 100 سالہ پراپیگنڈا کے اثرات ہیں جنہیں تادیم کرنا بحثیت سماج وادی ہمارا فرض ہے۔ یقیناً معاشرے کے اندر پائی جانے والی عدم مساوات اس نظام کو ہی متبادل بنا کر ختم کی جا سکتی ہے کیونکہ ایسا مفصل اور جامع معاشی برابری کا نظریہ کسی اور نظام میں موجود نہیں۔ لہٰذا اس تھیسز سٹیٹمنٹ کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب تک معاشرے میں عدم مساوات اور معاشی ناہمواریاں وجود رکھتی ہیں یہ نظریہ بدرجہ اتم اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ امرتھا، ہے اور رہے گا۔



اس نظریہ کو بہتر جاننے کے لئے ہر انسان کو اسے پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ شرط یہ ہے کہ اسے پڑھنےوالا جذبۂ انسانیت سے مستفید ہو اور سماج میں پائے جانے والی معاشی و معاشرتی ناانصافیوں کا حل چاہتا ہو۔ خود غرض، مفاد پرست، مظلوم کی بجائے ظالم کا ساتھ دینے والے، اپنی ذاتی عیش و عشرت پر یقین رکھنے والے، دوسروں کا استحصال کر کے مال و دولت کمانے والوں کی اس نظریہ پر تنقید کوئی معنی نہیں رکھتی کیونکہ وہ اپنی ذات کی تسکین میں ایسے مگن ہیں کہ انہیں کسی کی پرواہ نہیں رہتی۔ انفرادیت کے نظریے کا حامی، مفاد پرستی، حرص، جھوٹ، نفرت اور استحصال کرنے والا طبقہ اس نظریے کو سمجھنے سے قاصر ہے کیونکہ انفرادی ترقی کی آگ نے ان کے جذبۂ انسانیت کو ہی معدوم کر کے رکھ دیا ہے۔

وہ نظریہ جو دنیا کے 90 فیصد کا ہو کیسے رد کیا جاسکتا ہے؟ اس نظریے کو جاننے کے لئے آپ کو کہیں دُور جانے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ ہر اس گلی اور محلے میں پایا جاتا ہے جہاں غربت اور افلاس کا چرچا ہے۔ اس نظریے کی ترجمانی کرنے والہ طبقہ پوری دنیا میں موجود ہے۔ جہاں دنیا کے امیر ترین 10 فیصد افراد 85 فیصد دولت کے مالک ہیں جبکہ باقی ماندہ 90 فیصد لوگوں کے پاس صرف 15 فی صد دولت ہے۔ جہاں دنیا کے 10 فیصد کے پاس تقریبا 68 فی صد زمین جبکہ سب سے غریب 10 فیصد صرف 1 فیصد زمین پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جہاں دنیا کے 2043 امیر ترین لوگوں کے پاس اتنا پیسہ ہے کی وہ 7 دفعہ تمام دنیا کی غربت ختم کر سکتے ہیں۔ جہاں دنیا کے 26 امیر ترین لوگوں کے پاس دنیا کے 3 ارب 80 کروڑ لوگوں کے مساوی دولت ہے۔ جہاں ان تمام امیروں کا منافع اور سرمایہ بڑھتا جا رہا ہے اور غربت کی شرح میں ہوشربا اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جہاں معیشت ہر طرف ارتکاز دولت کا شکار ہے مگر انسانوں کا ایک بہت بڑا ہجوم غربت کے باعث خود کشیاں کرنے پر مجبور ہے۔

ایسے بے شمار اعدادوشمار ہم روزانہ کی بنیاد پر اخبارات اور رپورٹس میں پڑھتے ہیں۔ ان اعدادو شمار کو تسلیم کرتے ہوئے دنیا میں تیزی سے پھیلتی اس معاشی ناانصافی کے خلاف آواز بھی اٹھاتے ہیں اور انفرادی سطح پر ان کے حل کی کوشش بھی کرتے ہیں مگر اس اجتماعی مسئلے کا حقیقی حل، سوشلزم، بطور متبادل تسلیم کرنے سے انکار بھی کرتے ہیں۔



سوشلزم کا لفظی معنی اجتماعیت ہے یعنی سماج میں بسنے والے تمام لوگ باہم مل کر ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کریں جو بغیر کسی امتیاز کے سب کو مساوی حقوق دے۔ جہاں تمام بسنے والوں کو اپنی زندگی بہتر بنانے کے لئے مساوی مواقع فراہم کیے جائیں، جہاں ذہنی اور جسمانی صلاحیت کو برابر تسلیم کیا جائے۔ جہاں کسی بھی مذہب و رنگ و نسل کے لوگ امتیازی سلوک کے بغیر آزاد زندگی گزار سکیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ دنیا میں رہنے والے چند امیر دنیا کے سب سے زیادہ محنت کرنے والے لوگ ہیں؟ یقیناً نہیں! کیونکہ ان کا سارا سرمایہ، لاتعداد غریب مزدوروں، کسانوں اور محنت کشوں کا استحصال کر کے یا کرپشن کے ذریعے کمایا جاتا ہے۔ اسی لئے کہا بھی جاتا ہے کہ بڑے بڑے برینڈذ میں کام کرنے والے مزدور اپنے ہاتھوں سے بنائی گئی چیزیں اپنے بچوں کے لئے نہیں خرید سکتے۔

میری اس نظریے کی تشریحات بہت سادہ اور آسان فہم ہیں۔ اس نظریے کو جدلیات اور مادہ کی بحث میں پڑے بغیر آسانی سے سمجھا اور سمجھایا جا سکتا ہے مگر صد افسوس کہ اس کا پرچار کرنے والوں نے اسے بے حد مبہم اور پیچیدہ نظریہ بنا کر پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے خلاف ہونے والے پراپیگنڈا کو سادہ زبان ملی جو براہِ راست عوام النّاس کے دل پر اثر رکھتی ہے۔ اگر اس نظریے کی ترویج و تشریح لوکائی کی زبان میں کی جائے تو یہ انتہائی عام فہم طریقہ سے پھیلایا جا سکتا ہے۔ اس کے خلاف ہونے والے پراپیگنڈا کی کامیابی کی اصل وجہ اس کا اُس 90 فیصد عوام سے کٹ جانا ہے جو اس نظریے کے حقیقی وارث ہیں۔

پاکستان میں ایک ایسا طبقہ ہے جو اس نظام کو خود بخود اپنا دشمن تصور کرتا ہے۔ اس نے ماضی میں امریکی ڈالروں کے عوض اس عوام دوست نظریے کو مذہب سے متصادم قرار دے کر فروخت کر ڈالا۔ جبکہ حقیقت اس سے کہیں مختلف ہے۔ یہ نظریہ تمام انسانوں کو بغیر کسی مذہبی و نسلی تفریق کے مساوی معاشی حقوق فراہم کرتا ہے مگر اشرافیہ اور سرمایہ دار طبقہ کو جب اس نظریے پر کوئی تنقید نظر نہ آئی تو اس نے اپنی اجارہ داری برقرار رکھنے کے لئے مذہب کا استعمال کیا اور زبردستی اس کی وہ تشریحات پیش کی گئیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر مذہب یا سیکولرازم کے ساتھ سرمایہ دارانہ نظام جیسی استحصالی معشیت کو جگہ دی جا سکتی ہے تو غربا کی داد رسی کرنے والے اس نظریہ سے کیا مسئلہ ہے؟



بہت سے افراد اسے ایک ناکام نظریہ قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ نظریہ صرف روس تک محدود تھا اور روس میں اس کے خاتمے کے بعد اخذ کر لیا گیا کہ یہ دوبارہ کبھی ابھر نہیں سکے گا۔ لوگوں کو روزانہ گر کر اٹھنے کی نصیحتیں کرنے والے اس سوچ کا اطلاق اس نظریے پر نہیں کرتے۔ یقیناً اگر کوئی نظریہ گرتا ہے تو دوبارہ زیادہ قوت اور مذاحمت کے ساتھ ابھر بھی سکتا ہے۔ بڑھتے ہوئے بین الاقوامی انتہا پسند دائیں بازو کے نظریات کے خلاف یہ نظریہ مختلف شکلوں میں ایک بہترین متبادل کے طور پر دوبارہ ابھرا ہے۔ بھارت، پاکستان، چلی، مصر، فرانس، امریکہ اور برطانیہ میں حالیہ مظاہروں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظریہ نوجوان نسل میں بے حد پذیرائی حاصل کر رہا ہے جو اس بات کی غمازی ہے کہ یہ نظریہ بہت تیزی سے مستقبل کی نسل کی آواز بن چکا ہے اور یہ نوجوان نسل ایک نئے عالمگیر عمرانی معاہدے کا مطالبہ کر رہی ہے۔

جدید نیو لبرل اور سرمایہ دارانہ نظام کی استحصالی پالیسیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے دعوے کرنے والے سیاستدان بھی اس نظام کی موجودگی کے باعث اس بڑھتی ہوئی معاشرتی تفریق کو ختم کرنے میں ناکام رہے۔ یہ وہ نظام ہے جس میں سرمایہ دار کا منافع نجی ملکیت تسلیم کیا جاتا ہے جبکہ اس کا ہونے والے خسارہ اجتماعی طور پر غریبوں پر ٹیکس لگا کر، ان کی تنخواہیں اور پنشنز کاٹ کر پورا کیا جاتا ہے۔ اس معیشت کو چلانے والے ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی پالیسیوں سے تمام دنیا واقف ہے جن کا مقصد صرف سرمایہ داروں کا تحفظ اور امریکہ دوست مفاد کو یقینی بنانا ہے۔ اس استحصالی معاشی نظام کے ہوتے ہوئے کسی صورت بھی اس معاشرتی تفریق کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اگر اس کا متبادل ہے تو صرف اور صرف سوشلسٹ معیشت۔

سکینڈی نیوین معاشی ماڈلز کی مثالیں دینے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ انہوں نے مفت تعلیم، صحت اور بے روزگاری الاؤنس جیسی اقدار سوشلسٹ معاشی ماڈل سے اخذ کی ہیں۔ اور ان کی بہتر کارکردگی کی وجہ ان ممالک کی آبادی نسبتاً کم ہونا ہے۔ خیر یہ ماڈل بھی تنزلی کا شکار ہوتا جا رہا ہے کیونکہ عوامی فلاح اور سرمایہ دارانہ معیشت ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ برصغیر پاک و ہند اور دیگر بڑے ممالک کی بہت بڑی آبادی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ کلی معاشی ماڈل کو تبدیل کیے بغیر معاشی صورت حال میں بہتری ممکن نہیں۔



اگر ہم واقعی اس معاشرتی تفریق کا خاتمہ چاہتے ہیں تو اس نظام کو جگہ دینی ہوگی۔ کسی بھی نظریے کی اساس سمجھے بغیر اسے رد کر دینا جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ یقیناً ہر نظریہ اٹل اور حتمی نہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سی تبدیلیاں لے کر آتا ہے۔ اس نظریے کو جدید تقاضوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ سوشلزم کی موجودہ سماج کے لئے از سر نو تشریح اورجدید بنیاروں پر تعمیر ناگزیر ہے۔

کیونہ یہی نظریہ ہے جو اُس وقت تک زندہ و جاوید رہے گا جب تک سماج میں امیر و غریب کی تقسیم رہے گی۔ جب تک اس معاشرے کی تشکیل نہ ہو جس کی پیداوارکا مقصد چند کا فائدہ نہ رہے بلکہ سب کو اجتماعی فائدہ فراہم کرے، جہاں دولت چند ہاتھوں سے نکال کر پورے معاشرے میں مساوی بنیادوں پر تقسیم کی جائے، جہاں کوئی بھوک اور افلاس کے باعث خود کشی نہ کرے، جہاں ذہنی و جسمانی محنت کا معاوضہ برابر ہو، جہاں معاشی آزادی کے ساتھ دیگر آزادیوں کی اصل شکل نمودار ہو۔ اگر اس نظریے کا اطلاق مشکل ہے تو سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہ کر ان معاشی ناانصافیوں کا خاتمہ ناممکن ہے۔

حسنین جمیل فریدی کی سیاسی وابستگی 'حقوقِ خلق پارٹی' سے ہے۔ ان سے ٹوئٹر پر @HUSNAINJAMEEL اور فیس بک پر Husnain.381 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔