ہمارے سماج میں کرپٹ حکمرانوں نے جو سات دہائيوں سے غريب عوام کا بدترين استحصال کيا، بے رحمی سے لوٹ مار جاری رکھی اور عوام کو بنيادی سہولتيں، بنيادی انسانی حقوق اور جائز سہولتوں سے محروم رکھ کر جہالت کو جان بوجھ کر فروغ ديا اس کے نتيجے ميں سماج کا ہر حصہ بری طرح متاثر ہو چکا ہے. کرپٹ حکمران اپنے جوہر ميں خود کسی مہلک وبا سے کم نہیں ہیں. اس سنگين صورتحال ميں يہ نااہل اور کرپٹ حکمران اس وبا کا کيا مقابلہ کريں گے اور عوام کو کيسے بچا سکتے ہیں؟
ملک ميں ديگر اداروں کی طرح صحت کا شعبہ بھی تباہ حال ہے حتیٰ کہ يہاں کے ميڈيکل اسٹاف کے پاس کووڈ 19 وبائی صورتحال کا سامنا کرنے کی نہ کوئی خاص تربيت ہے اور نہ ہی ايسی صورتحال سے نمٹنے کے ليے مناسب تعداد میں حفاظتی لباس و آلات وغيرہ دستياب ہیں. کورونا وائرس کتنا خطرناک ہے اس سے بھی اہم سوال يہ ہے کہ صحت کے نظام کی کيا حالت ہے؟
گذشتہ کئی دہائيوں سے بیروزگاری اور غربت ميں بيحد اضافہ ہوا ہے۔ گدلا پانی پينا، بھوک کی وجہ سے مرنا، 82 فيصد عوام کا غير سائنسی علاج پر اکتفا کرنا، خودکشياں، بچوں کے غذائی کمی کی وجہ سے اموات واقع ہونا ملک ميں معمول بن چکے ہیں۔ يہاں کورونا سے بھی مہلک عذابوں کا عوام کو سامنا ہے۔ استحصالی طبقات کی کرپشن، بليک مارکيٹنگ بامِ عروج پہ پہنچ چکی ہے. بيروزگاری اور بوکھ ميں کئی گنا اضافہ ہوتا جا رہا ہے.
ايسی حالت اور سماجی تباہ حالی کا اندازہ ہم سے زيادہ حکمرانوں کو ہی تھا مگر حيران کن بات يہ ہے کہ يہ حقيقت جانتے ہوئے بھی کہ وہ کسی بھی وبا يا ڈزاسٹر کا مقابلہ کرنے صلاحيت بالکل نہیں رکھتے ہیں تو اس کورونا وبا کی پاکستان ميں پہنچنے سے کچھ وقت پہلے ہی ممکنہ احتياطی تدابير اختيار کيوں نہیں کی گئيں؟ ان حکمرانوں کو پتا تھا کہ ايران ميں ہمارے ہزاروں شہری موجود ہیں تو اس وقت ايران و افغانستان سميت سب بارڈرس سيل کر کے سرحدوں پر ہنگامی بنيادوں پر قرنطينہ سينٹرس بنانے چاہیے تھے۔ اور ساتھ ميں ہوائی اڈوں پر بھی باہر سے آنے والے مسافروں کو قرنطينہ بھيجنا چاہیے تھا اور ٹيسٹ کے بعد ہی ان کو اجازت دينی تھی. ايسے اقدام اس وقت بھی ہر ملک ميں معمول بن چکے تھے اگر ايسا کرتے تو شايد اس وبا پر حالات کنٹرول ميں رہتے اور زندگی کا پہیہ بھی آج کی طرح رک نہیں جاتا۔.
ملک ميں جہاں 54 فيصد لوگ خانہ بدوش يا نيم خانہ بدوش ہیں جن کی اکثريت سڑکوں کے کنارے کھلے آسمان پر سوتی ہے وہاں کيسا لاک ڈاؤن ہو سکتا ہے؟ ملک میں چھ کروڑ سے زیادہ لوگ دہاڑی مزدور ہیں يعنی روز مزدوری کر کے کھاتے ہیں. ايسی حالت ميں لاک ڈاؤن کيسے ممکن ہو سکتا ہے؟ اور ہوا بھی يہی ہے کہ حقيقت ميں ديکھا جائے تو ہمارے یہاں ديہات اور کچی آبادیوں میں محنت کش طبقات ميں ايک دن بھی لاک ڈاؤن نہیں رہا ہے. آخر يہ غريب لوگ جو تعداد ميں اکثريتی طبقہ ہیں وہ کہاں جائيں؟ اگر حکومت صرف لاک ڈائون کا حکم صادر کرتی ہے اور عوام کو خوراک، پانی اور صحت کی سہوليات ميسر نہیں کر سکتی تو پھر لاک ڈائون سے کیا نتائج نکلیں گے؟ الڻا يہ لاک ڈائون مصيب زدہ طبقے پر مزيد تکاليف کا سبب بنے گا. بھوکے کو روٹی چاہیے اور کووڈ 19 میں مبتلا مريض کو وینٹیلیٹر چاہیے. بم سے کوئی پیٹ نہیں بھر سکتا، اور بارود سے بیماری کا علاج نہیں ہوتا.
لوگون کے پاس معاشی قوت نہیں ہے، یہ سوشل ڈسٹینسنگ نہیں کر سکتے، کیوں کہ انہیں کو باہر نکل کر روزگار کرنا ہوتا ہے. خدشہ ہے کہ یہ مظلوم طبقہ زیادہ متاثر ہوگا۔.
سوپ، ھینڈ واش، ماسک، ڈیٹول، سينيٹائيزر اور سوشل ڈسيننگ صرف الیٹ کلاس ہی رکھ سکتا ہے۔ جو بنگلہ اور فلیٹس میں رہتے ہیں. لاک ڈاؤن میں بھی اس کلاس کی زندگی رنگین بنی ہوئی ہے۔ رومانس، موویز، آن لائن ایجوکیشن، اور اسٹاک میں بہت کھانا پڑا ہے.
معاشی طور پر غريب طبقہ کے ليے بھوک ہی سب سے بڑی وبا ہے اور ان کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ بھی. حقيقت ميں ملک کے محنت کش لوگ حکمرانوں کی ترجيحات ميں ہی شامل نہیں ہیں. حکمران طبقات کو صرف اپنے طبقے کی زندگی کا فکر ہے. غريب عوام کے سامنے جوابدہی کا کوئی عملی مظاہرہ نہیں کيا جا رہا ہے۔.
وبا کے دنوں میں کورنٹائین بنی ہوئی زندگی میں سرمایہ داروں نے بہت کچھ اکڻھا کر لیا ہے، لیکن دیہاڑی دار مزدور کی زندگی کٹھن بن گئے ہے. جس کے لیے سرکار کی طرف سے کوئی مزدور دوست پالیسی نہیں ہے. سرمایہ دار طبقہ نے مزدوروں کا استحصال کرتے ہوئے بہت کچھ اکٹھا کر دیا ہے. مزدور اپنے گھر کا پہیہ کیسے چلائیں، اس کا جواب حکمران کلاس کے پاس نہیں ہے. احساس کفالت پروگرام سے ملنے والی بارہ ھزار سے گھر کا چولہا کیسے، اور کتنی دن جل سکتا ہے؟ اور جہاں یہ رقم دی جا رہی ہے وہاں نہ پینے کے پانی کا بندوبست ہے۔ اور نا ہی دھوپ سے بچنے کے لیے شامیانے لگاے گئے ہیں. فزیکل ڈسٹینسنگ بھی نہیں ہے کہ معاشی غریب لوگ کورونا وبا سے بچ سکیں۔.
اس وبا کے ساتھ يہاں کئی ايک وبائيں بھی ہیں جو مل کر مسائل کو اوز تيزی سے بڑھانے کا سبب بن چکی ہیں.
يہاں کئی دہائيوں سے جو بيج بويا گيا اس کا نتيجہ يہ ہے کہ حکومت کی رٹ کے بجائے کسی بھی رجعت پسند کا فرمان زيادہ اثر انداز ہوتا ہے.
پاکستاں ميڈيکل ايسوسيئيشن نے بھی خبردار کيا ہے کہ "ملک ميں صحت کا تباہ حال انفراسٹرکچر زيادہ بوجھ اٹھانے کے قابل ہی نہیں ہے۔ اگر کيسز اس تيزی سے بڑھتے گئے تو عوام اور ميڈيکل اسٹاف کی زندگياں بھی داؤ پر لگ جائيں گی اس ليے سرکار اپنے فيصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے اور مارکيٹس اور کام کی جگہوں کے ساتھ مراکز پر فاصلے رکھنے کے لیے اقدامات اٹھائے. ايک حد سے معاملات آگے بڑھ گئے تو ہمارے پاس نمٹنے کی صلاحيت و قوت نہیں ہے
."
انکے مطالبات بالکل ٹھیک ہیں. اس بات کے پس منظر میں دیکھا جائے تو وفاقی حکومت کا رويہ غيرذمہ دارانہ اور ناقابلِ فہم ہے. ايک طرف وہ کورونا کی وجہ سے خطرناک صورتحال پيدا ہونے کا انتباہ بھی کر رہی ہے اور لاک ڈاؤن اور سماجی فاصلے کی افاديت پر زور دے رہی ہے اور ساتھ ہی لاک ڈاون کو ختم کرنے يا جزوی لاک ڈاؤن پر مسلسل زور ديا جا رہا ہے. وزيراعظم عمران خان نے کئی بار لاک ڈاؤن پر برہمی کا بھی اظہار کيا ہے جبکہ کورونا کيسز ميں اضافہ بھی ہو رہا ہے. آخر وفاقی حکومت اپنے موقف ميں واضع کيوں نہیں ہے؟ کيا وہ حالات کے زيادہ خراب ہونے کا انتظار کر رہی ہے؟ اگر ايسا ہوا تو کيا حالات کو کنٹرول کرنے کی حکومت کے پاس صلاحيت ہے؟ وفاقی حکومت نے جس طرح پہلے غيرذمہ داری کا ثبوت ديا بالکل اسی طرح آج بھی ذمہ داری سے دور صرف اور صرف سرمايہ دار طبقے کے بحران پر فکرمند ہے. بائيس کروڑ لوگ حکمرانوں کی ترجيحات ميں شامل ہیں؟
سندھ میں شروع ميں انيل کپور کی طرح ايکشن بازی سے کام ليا گيا مگر عملی ميدان ميں کارکردگی زبردست نہیں رہی. اس وبا سے نمٹنے کے ليے لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل اور اس کو کامياب بنانے کے ليے محنت کش طبقے کو راشن اور ديگر بنيادی ضرورتيں پانی و علاج کی فراہمی کے ليے عملی اقدام کی ضرورت تھی اور ساتھ ہی بڑی تعداد ميں ٹيسٹنگ کرنا اور علاج کا معيار بہتر بنانا بہت ضروری تھا مگر سندہ حکومت نے اپنی نااہلی کا ذمہ وفاقی حکومت پر اچھالنے اور روزانہ لائيو آنے کا ہی شغل کرنے ميں مصروف نظر آتی ہے. وفاقی حکومت کی نااہلی اپنی جگہ مگر سندہ حکومت خود بھی نااہل اور کرپشن ميں اس موقعہ پر بھی کسی سے پيچھے نہیں رہی. سرکاری ملازموں کی تنخواہیں تو کاٹ لی گئيں مگر وڈيروں اور سرمايداروں کے کارخانوں ميں گندم، چاول، چينی کو خريد کرنا يا تحويل ميں لے کر سندھ کی عوام ميں تقسيم کرنا ضروری نہیں سمجھا گيا. صابن بانٹنے کے نام خطير رقم کو غائب کيا گيا. يونين کائونسل کے چئرمينوں نے صابن پر سيلفياں تو بنائی ہیں مگر عوام تلک صابن نہیں پہنچ سکا اور اس ناکام ٹرائيل سے بھی سبق نہیں سيکھا اور پھر راشن بيگس کی بھی شرمناک بندر بانٹ ہوئی ہر جگہ سوشل ميڈيا پر چيخيں سنائی دے رہی ہیں کہ عوام کی بڑی اکثريت کو راشن نہیں ملا. يہ راشن صرف اور صرف منظور نظر لوگوں کو پہنچايا گيا اور جہاں برائے نام راشن ديا گيا وہاں بھی غير معياری اور نامکمل خوراک کی شکايتيں عام ہیں. سندہ حکومت نے منصفانہ طريقہ کار اپنانے کے بجائے اپنے لوگوں کے ہاتھ ميں رليف پئکيج ديا جو کرپشن کے نذر ہو گيا. تھرپارکر اور امرکوٹ اضلاع کے لاکھوں خاندان جو بئراج کی جانب ہجرت کرتے ہیں انہیں بھی خوراک سے محروم کیا گیا.
احساس کفالت مراکز میں انتظام نہیں کئی گئے. سوشل ميڈيا پر ايسی وڈيوز و تصاوير گردش ميں ہیں جہاں 42 ڈگری کی گرمی ميں خواتين کو کھلے آسمان ميں کئی گھنٹے بٹھايا گيا، شاميانے يا متبادل جگہ اور پانی تلک کا انتظام نہیں کيا گيا. غريب خواتين دھوپ ميں اپنے معصوم بچے گود ميں لے کر کھڑی رہیں.
اس پیش منظر میں افسوسناک رويہ سندہ کے کچھ نام نہاد دانشوروں اور لکھاريوں کا ہے جو سندھ کے محنت کش طبقے کی نمائندگی کرنے کے بجائے سرکار کے ترجمان بنے ہوئے ہیں. ایسا لگ رہا ہے کہ وبا نے سول سوسائٹی کو موقعہ پرستی کا نادر موقع فراہم کیا ہے. اس موقع پرست اور مفاد پرست حلقے کو سندہ حکومت کی حمايت کا موقعہ غنيمت ہے اور اس حمايت کے بدلے وہ آگے جا کر مراعاتيں لينے کی دوڑ ميں ايک دوسرے سے سبقت لينے کی کوشش ميں مصروف ہیں. سندھ حکومت کے ساتھ سول سوسائٹی کی ترجيحات ميں عوام شامل نہیں ہے اور دانشور طبقہ حکمرانوں کی ثنا خوانی ميں مصروف ہے، دہاڑی مزدور کس حالت ميں زندہ ہیں یہ احساس انہیں نہیں ہے.
حيرت کی بات تو يہ ہے کہ حکمران اور سول سوسائٹی کے مفادپرست و موقع پرست دانشور 'مخير حضرات' کو اپيل کر رہے ہیں. يہ نام نہاد مخير حضرات وہی ہیں جن کا سسٹم ميں طبقاتی کردار عوام کا استحصال کرنا اور منافع خوری کرنا ہی ہے.
کووڈ 19 وبا کے دنوں ميں کیا ہونا چاہیے؟
اس وبا کے دوران حکومتوں کو انقلابی اقدام اٹھانے ہونگے مختلف اداروں کے غيرضروری فنڈ ختم کر کے رليف فنڈ قائم کيا جائے.
اين جی اوز اور بئنکوں نے جو غريب لوگوں اور چھوڻے سرکاری ملازموں کو قرضے ديے ہیں وہ معاف کيے جائيں. اگر حکومتيں ارب پتی سرمايہ داروں کو اربوں روپيوں کی سبسڈی ديتی ہیں اور ان کے اربوں کھربوں کے قرضے معاف کيے جاتے ہیں تو غريب محنت کشوں کے چھوٹے قرضے کيوں نہیں؟
صحت کے شعبے کو بہتر کيا جائے اور نجی شعبے ميں جو ہسپتاليں وغيرہ ہیں ان کو سرکاری تحويل ميں ليا جائے.
پورے ملک ميں سرمايہ داروں کے فليٹس کمپليکس اور ہاؤسنگ سوسائيٹيز اور اسکيموں کو سرکاری تحويل ميں ليا جائے. جہاں قرنطينہ مراکز بنائے جائيں اور بے گهر لوگوں کو آباد کيا جائے۔.
پاکستان ميں 55 فيصد لوگوں کے پاس اپنے گهر نہیں ہیں ان کے ليے شہروں سے متصل زمينوں کو سرکاری تحويل ميں لے کر خيمہ بستياں آباد کی جائيں اور لوگوں کو پلاٹس کے مالکانہ حقوق ديے جائيں اور ساتھ ہی صاف پانی کی فراہمی، نکاسی، بجلی، تعليم اور صحت کے بنيادی مراکز بھی ہنگامی بنيادوں پر بنائے جائيں.