Immanuel Wallerstein اس وقت دنیا کے سب سے بڑے Sociologist ہیں۔آجکل وہ ییل یونیورسٹی امریکہ میں سینیر ریسرچ سکالر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔انہوں نے تیس سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں جن کا ترجمہ مختلف زبانوں میں ہو چکا ہے جن میں چار جلدوں پر مشتمل The Modern World Systemبھی شامل ہے جو 1974-2011کے درمیان شائع ہوئی۔
Marcello Musto کینیڈا کی York University Torontoمیں Associate Professor of Sociological Theoryکے طور کام کر رہے ہیں۔انہوں نے مارکس پر بہت ساری کتابیں لکھی اور ایڈٹ کی ہیں۔ ان دونوں نے آج کے دور میں کارل مارکس کے نظریئے کو پڑھنے اور سمجھنے کے حوالے سے گفتگو کی ہے۔ موستو نے امانویل ولرسٹین سے سوالات کئے ہیں، جن کی تفصیلات ذیل میں موجود ہیں۔
سوال: تیس سال پہلے نام نہاد ’actually existing socialism’ کے خاتمہ کے بعد بھی دنیا بھر میں کارل مارکس کے حوالے سے کتابیں لکھی جا رہی ہیں،بحث مباحثہ ہو رہا ہے۔کیا یہ حیران کن نہیں ہے؟یا آپ کا خیال ہے کہ جو لوگ سرمایہ داری کا متبادل ڈھونڈ رہے ہیں ان کے لئے انہیں مارکس کی فکر آج بھی درکار ہو گی؟
جواب: مارکس کے بارے میں ایک پرانی کہاوت ہے ۔آپ اسے اگلے دروازے سے باہر پھینکیں تو وہ عقبی کھڑکی سے اندر داخل ہو جائے گا۔یہی اب ہو رہا ہے۔مارکس اس لئے بھی relevent ہے کیونکہ آج ہم ان مسائل کا سامنا کر رہے ہیں جن کے بارے میں مارکس نے بہت کچھ کہا ہے اور جو اس نے کہا وہ سرمایہ داری کے بارے میں دلیل دینے والے دوسرے لکھاریوں سے مختلف ہے۔میں ہی نہیں بہت سارے کالمسٹ اور لکھاری مارکس کو آج بہت ہی مفید سمجھتے ہیں اور 1989کی پیش گوئی کے برعکس آج وہ نئے، بہت ہی مقبولیت کے دور میں ہے۔
سوال: دیوار برلن کے انہدام نے مارکس کو ان زنجیروں سے آزاد کروا دیا جس کا اس کے تصور سماج کے ساتھ بہت کم رشتہ تھا؟سوویت یونین کے تحلیل ہونے کے بعد سیاسی منظر نے مارکس کے ایک ریاستی ڈھانچہ کے سربراہ ہونے کے کردار سے آزادی دلوانے میں مدد کی۔مارکس کی دنیا کی کیا تشریح ہے جو آج بھی دنیا کی توجہ کا مرکز ہے؟
جواب: میرے خیال میں جو لوگ مارکس کی دنیا کی تشریح کے بارے میں سوچتے ہیں تو وہ مارکس کی طبقاتی جدوجہد کو اولیت دیتے ہیں۔جب میں نے موجودہ مسائل کی روشنی میں مارکس کا مطالعہ کیا تو میں طبقاتی جدوجہد سے مراد عالمی لیفٹ کہتا ہوں۔ ۔جو کہ میری نظر میں رائٹ کے مقابلہ میں، جو کہ ایک فیصد کی غالباً نمانئدگی کرتا ہے، اس کے مقابلہ میں آمدنی کے حساب سے دنیا کی آبادی کے نچلے %80 کی نمائندگی کی کوشش کر رہے ہیں۔ اصل جدوجہد %19 کے لئے ہے جن کو آپ اپنے ساتھ شامل کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ دوسری، مخالف سمت میں نہ جائیں۔
ہم دنیا کے نظام میں سڑکچل کرائسس کے دور میں رہ رہے ہیں۔موجودہ سرمایہ داری نظام زندہ نہیں رہ سکتا لیکن کسی کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ اس کا متبادل کیسا اور کیا ہوگا۔اس کے دو امکانات ہیں ایک ہے ’Spirit of Davos‘۔ The World Economic Forum of Davosکا ہدف ایک ایسا نظام قائم کرنا ہے جس میں سرمایہ داری کی بدترین خصوصیات ہوں۔ سماجی ڈھانچہ ،اوپر سے استحصال اور دولت کا ارتکاز، اس کے متبادل ڈھانچہ، نظام جو کہ بنیادی طور پر زیادہ جمہوری اور مفاد عامہ کے لئے ہو۔طبقاتی جدوجہد بنیادی طور پر سرمایہ داری کے متبادل .نظام پر اثر انداز ہونے کوشش ہے۔
سوال :آپ کی درمیانہ طبقہ پر نظر مجھے Antonnio Gramsci کے نظریہ hegemony کی یاد دلاتا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ نکتہ یہ بھی ہے کہ سارے عوام کو سیاست میں حصہ لینے کے لئے کیسے متحرک کیا جائے؟
یہ خاص طور پر نام نہاد عالمی جنوب(گلوبل ساؤتھ) میں بہت ضروری ہے جہا ں کہ آبادی کی اکثریت رہتی ہے اور جہاں پچھلی دہائیوں میں سرمایہ داری کی پیدا کردہ نابرابری میں اضافہ ہے۔ ماضی کے مقابلہ میں ،ترقی پسند تحریکیں بہت کمزور ہو گئی ہیں ۔ان ریجنز میں Neoliberal Globalisation مخالف قوتیں مذہبی بنیادپرستی اور قوم پرست اور غیر گریز پارٹیز کی حمائیت میں چلی گئی ہیں۔ہم اس رجحان کو مغرب میں بھی ابھرتا ہوا دیکھتے ہیںسوال یہ ہے کہ کیا مارکس اس نئے منظرنامہ کو سمجھنے میں مددگار ہے؟حال ہی میں شائع ہونے والی مطبوعات میں مارکس کی نئی شرحوں کے نتیجے میں شائد مستقبل میں عقبی کھڑکی سے اپنے بیانیہ میں مدد گار ثابت ہوں۔وہ اس لکھاری کا پتہ دیتی ہیں جو سرمایہ داری معاشرے میں سرمایہ اور محنت کے تضاد اور جدوجہد کے علاوہ دوسری جہتوں کا بھی جائزہ لے۔
درحقیقت مارکس نے اپنا بہت سارا وقت غیر مغربی معاشروں اور سرمایہ داری کے محیط دائرہ کی کالونیزم میں تباہ کاریوں کے مطالعہ میں صرف کیا۔
مستقل طور پر مارکس کی شرح کے برعکس مارکس کے نظریہ سوشلزم اور پیداواری قوتیں عناصر ecological concerns ان کی تحریروں میں نمایاں طور پر ابھرتے ہیں۔آخری بات یہ ہے کہ وہ بہت سارے ایسے موضوعات میں دلچسپی رکھتا تھا جن کو سکالرز مطالعہ مارکس میں نظر انداز کرتے ہیں۔جس میں potential of technology قوم پرستی، نیشنلزم پر تنقید،ریاست سے آزاد اجتماعی ملکیت اور آج کے معاشرہ میں انفرادی آزادی
،ہمارے دور کے سارے بنیادی مسائل شامل ہیں۔مگر مارکس کے ان نئے چہروں کے علاوہ بھی اس بات کے مکانات روشن ہیں کہ اس کی فکر کے مطالعہ میں مستقبل قریب میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔
کیا آپ مارکس کے تین بہت بنیادی نظریات بتا سکتے ہیں جو آپ سمجھتے ہیں کہ دوبارہ توجہ کے لائق ہیں؟
جواب :سب سے پہلے مارکس ہمیں بتاتا ہے کہ سرمایہ داری معاشرہ کو منظم کرنے کا قدرتی طریقہ نہیں ہے۔The Poverty of Philosophyمیں جب کہ مارکس کی عمر صرف 29سال تھی اس نے بورژوا معیشت دانوں کا مذاق اڑایا تھا جو سمجھتے تھے کہ سرمایہ داری رشتہ قدرتی قوانین ہیں اور جو وقت کے اثرات سے مبرا ہیں۔ مارکس نے لکھا کہ یہ تاریخ ہے کیونکہ ’جاگیرداری نظام میں پیداواری رشتے بورژوا معاشرہ سے مختلف تھے۔ ‘