مشال خان موت کی سالگرہ پر ہی کیوں یاد آتے ہیں، زندگی کی سالگرہ پر کیوں نہیں۔۔۔مشال کی موت کو سالگرہ دینے والوں کو یہ غیر مذہبی، کافر، جاہل، واجب القتل مشال یاد آتا ہے؟
روس کی شاہراؤں کو مشال یاد آتا ہے،خان عبدلولی خان یونیورسٹی کی وہ شامیں کبھی مشال کو یاد کرتی ہیں جنہیں مشال بادلوں کے تہہ میں غروبِ آفتاب ڈھال کر شائع کرتا تھا یا پھر فیسبک کو مشال یاد آتا ہے؟
کارل مارکس محنتِ انقلاب کے لیے جرمنی کو روس اور برطانیہ کے کسی انجانے میں ایک انقلابی کو کسی منشور پیش کرنے کیلئے جلاوطن کیے گئے،دربدر کیے گئے، بین کیے گئے۔۔۔سرمایہ داروں نے مزدوروں کی سوچ کو پنپنے نہ دینے کے لیے کیا نہیں کیا،جو بھی کیا کارل مارکس کو پختونخواہ کے کسی انجان ہاسٹل کے گرد بیٹھی شام کو اپنے اندر محسوس کرنے والے،فیض کی شاعری کلام سے محبوس ہونے والے مشال تک ضرور پہنچایا۔
فیدرل کاسترو نے پشاور کی سیر کی۔۔اپنے سفر میں کسی مشال یوسفزئی کو اپنے ساتھ قبر تک لے گئے۔ وفاداری نہیں چھوڑی،چاہے وہ کیوبا کے ساتھ ہو یا مشال کے۔۔بے وفائی کے داغ کہیں نہ لگے۔۔۔
ہاسٹل کے مرکزی گیٹ کو تھوڑنا،کاسترو اور مارکس کے گمراہ کن خیالات، نا انصافی، عدم تشدد، سماجی تفریقی اور علمی خیال کو کس سے پکڑ کر مارنا،ہاسٹل کے نیچلی سطح سے گرانا، نعرہِ تکبیر کے ساتھ روح کو قبض کرنے والے جانثار بے شمار، بے بنیاد اور جہالت کو فروغ دے رہے تھے اور علم و روشنی کو تا ابد کر رہے تھے۔
جو کرنا ہے بلا ججھک و خوف، بلا خیال و احساس سر انجام دیا جائے بس سوال کو میدان میں خاموشی سے دکھیل دیا جائے۔ یہ جو ہاسٹل کے پڑھے لکھے طبقے جسے علم، پیار، محبت اور مذہبی ہم آہنگی پھیلانا ہے بے وقوف بنا دیا جائے اور انہیں بے وقوف بنا دیا گیا۔
ایک عزتِ مآب کھڑے ہو کر شعوری انداز سے تہمت لگاتا ہے کہ سی ایس ایس آفیسر جس کے فرائض ایک علاقے میں انتظامی دیکھ بھال کرنا وہ خود ایک بوڑھی بزرگ کی ریڑھی کو اُلٹ کر دبدبہ بنا کر کہتا ہے اسے چالان کریں۔۔
جواباً کوئی یہ بھی سوچے کہ مشال کو مارنے والے نفرت کی بادل میں لاٹھیاں برسانے والے ایک درجن کی خواہش سی ایس ایس کی ہے اور ان میں سے چھ عملاً اسی شعبے میں مستقبل کے زینت بھی ہونگے۔
جنوری 2022 میں عانیہ عتیق کو اپنے سین سنگ ڈوز کی وٹس ایپ سے بیغمبرِ اسلام کے خلاف مواد پھیلانے کی روشنی میں سزائے موت ملی اور مشعال کے قاتلوں کو عمر قید وغیرہ وغیرہ، اب کوئی یہ بھی تو پوچھے کہ مشال کے خلاف جہاد کرنے والے خود کیوں آئین کے روح میں قاتل بنے۔
مشال کو اسلام دشمن مان کر لوگوں کو اکسانے والے قاتل اور مشال خود قانون کی نظر میں شھید اور کسی مذہبی ٹھیکدار کی نظر میں گستاخ
ظاہر ہے، مشعال کے خلاف ثبوت زیرو اور مارنے والوں کے خلاف ثبوت گیلیسی اے ون۔
سرمایہ دار انتھک کوشش اور ،طاقت اور اثر و سوخ کے باوجود کارل مارکس کی کمیونسٹ منیفسٹو کو نہ روک پائے،فیدل کاسترو کا کیوبا مزاحمت کر کے آمریت سے آزاد ہوا اور مشال خان کی سوچ نے دنیا کو امن، انصاف، بھائی چارہ، انصاف اور قانون کی گلدستے میں یکجا کیا اور یہی گلدستہ ہر سال مشال خان یوسفزئی کے قبر کے سامنے شہید کہہ کر پکارتا ہے۔
یوسف بلوچ کالم نگار ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔