'درختی گھر' جہاں سرمایہ دارانہ نظام اورجمہوریت ہو، وہاں اس طرح کی کہانیاں جنم لیتی ہیں

'درختی گھر' جہاں سرمایہ دارانہ نظام اورجمہوریت ہو، وہاں اس طرح کی کہانیاں جنم لیتی ہیں
عبدالوحید اس عہد کے کے نمائندہ افسانہ نگار ہیں۔ درختی گھر ان کی دوسری افسانوں کی کتاب ہے۔ اس سے پہلے انکی افسانوں کی کتاب 'قبل از مسیح' شائع ہو چکی ہے۔

وحید انجمن ترقی پسند مصنفین لاہور کے جنرل سیکریٹری بھی رہ چکے ہیں اور شہر لاہور کے ادبی حلقوں کا ایک جانا پہچانا چہرہ ہیں۔ حلقہ اربابِ ذوق جو لاھور کی سب سے بڑی ادبی تنظیم ہے، وہاں انکے افسانوں پر بے شمار دفعہ بحث کی جا چکی ہے۔

افسانوں کے مجموعے پر بات کرنے سے پہلے انکی شخصیت پر بات کر لوں، وحید ایک انسان دوست بندہ ہے دوستوں کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ اپنا موقف کھل کر بیان کرتا ہے مگر کسی پر اپنی رائے دفعہ 144 کی طرح نافذ نہیں کرنا چاہتا۔  اس کی حالیہ مثال بطور سیکرٹری جنرل انجمن ترقی پسند مصنفین لاہور سے ان کا مستعفی ہونا ہے۔

اب بات ان کی کتاب کی کرتے ہیں ' درختی گھر' کے افسانے عصر حاضر کے موضوعات کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ اس عہد کا بڑا سچ وحید کے افسانوں میں موجود ہے۔ اردو ادب کے عظیم ترین افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے کہا تھا کہ

'اگر آپ کو میرے افسانے ناقابل برداشت لگتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہ سماج ناقابل برداشت ہے '

یہی بات میں وحید کے افسانوں کے بارے میں کہوں گا کہ وحید کے افسانوں کو وہی برداشت کر سکتا ہے جو سماج کو برداشت کر نے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ اگر وحید کی تحریر کی کڑواہٹ آپ سے برداشت نہیں ہو رہی تو درحقیقت وہ اس سماج کی کڑواہٹ ہے۔ ان کا افسانہ درختی گھر جس کے نام پر افسانوی مجموعے کا نام بھی ہے وہ سرمایہ دارانہ نظام کی منہ بولتی تصویر ہے۔ جس معاشرے میں سرمایہ دارانہ نظام اورجمہوریت ہوتی ہے وہاں اس طرح کی کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ کیونکہ اس خون آشام نظام کی حفاظت خود حکمران طبقے ہی کرتے ہیں اور اسی میں انکی بقا ہے۔

ہاؤسنگ سوسائٹی بنانا ایک منافع بخش کاروبار ہے یہ لوگ خواب فروش ہوتے ہیں۔ روٹی کپڑا اور مکان ریاست کی زمہ داری ہوتی ہے مگر ہماری ریاست کی نہیں ہے کیونکہ ہم فلاحی ریاست نہیں بنا سکے۔ اور ایک سرکش ریاست بنا بیٹھے ایک متوسط گھرانے کے لوگ ساری زندگی اپنے گھر کا خواب دیکھنے اور اس خواب کی تعبیر میں گزار دیتے ہیں مگر انکے خواب پورے نہیں ہوتے۔ ' درختی گھر' ان کی کہانی ہے۔

افسانہ 'تہوار مرتے نہیں' میرے لاھور شہر کا نوحہ ہے۔ ہمارے دوست نامور ناول نگار عاصم بٹ اندرون شہر لاہور کے قصہ گو ہیں تو عبدالوحید بیرون شہر لاہور کا داستان گو ہے جو بارہ دروازے کے باہر آباد ہے۔ بسنت میرے شہر لاہور کا قدیم اور گمشدہ تہور ہے۔ یہ وہ تہوار تھا جو اس شہر کی جیتی جاگتی ثقافتی کہانی تھا ،واحد تہوار تھا جو اس شہر میں بسنے والے ہندو مسلم سکھ اور مسیحی سب مناتے تھے۔ پہلے اس عوامی تہوار کو ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ہائی جیک کیا پھر بنام مذہب اور دھاتی دوڑ کے بہانے بند کر دیا گیا۔ چونکہ ہم لوگ خوشی منانے کے خلاف ہیں، سماجی جڑت کو پسند نہیں کرتے اس لیے ہر اس تہوار کے مخالف ہیں جو بلا امتیاز رنگ و نسل اور مذہب کے انسانوں کی جڑت کا باعث بنے۔ یہ ریاست چاہے تو پہاڑ کی کھوہ میں چھپے اکبر بگٹی کو پکڑ سکتی ہے مگر دھاتی دوڑ بنانے والوں کو نہیں پکڑتے۔

افسانہ  'ییری اور تبوک' ایک اور سماجی تلخی ہے۔ کیسے بنام مذہب اس معاشرے کو خون آلودہ کیا اور نفرتوں کو پروان چڑھایا گیا، کیسے فرقہ بندی کو عروج حاصل ہوا ۔ ایک دہائی پہلے کہا جاتا تھا کہ جو فرقہ مزارات کو ماننے والا ہے وہ تو کبھی مسلح ہو ہی نہیں سکتا مگر آج وہ ہوگیا۔ اس فرقے کے اندر کی نفرت اور بغض کو وحید نے کمال مہارت سے اس افسانے میں بیان کیا ہے۔  ہم کیسے اپنے اندر نفرتیں پال رہے ہیں؟ مسجد پر قبضے کے لیے مذہب کا چورن کیسے فروخت کیا جاتا ہے؟ اور انسانوں کو انسانوں کے خلاف قتل عام پر اکسایا جاتا ہے۔

یہ کہانی ہر مسجد اور مدرسے کی ہے جو انسانوں میں نفرت کو پروان چڑھانے میں کسے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔  'جیکب کے بچے' ایک اور بامعنی افسانہ ہے جو اس سماج کی عریانی کو نمایاں کرتا ہے۔  ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہمارے ساتھ وہی رہ سکتا ہے جو ہمارے مذہب کا مانتے والا ہےجبکہ دوسرے مذاہب کے لوگ اس قابل نہیں کہ ہمارے ساتھ رہیں، اے کوڑا کرکٹ اٹھانے والو تمہاری اوقات ہی کیا ہے کہ ہماری اترن پہنو اور جھوٹا کھاؤ، جو ہمارے مذہب کا نہیں ہے ہم نے اسکو اس کے نام سے نہیں پکارنا بلکہ چوڑا اور مصلی کہ کر بلانا ہے اور وہ کبھی ہمارے برتنوں میں کھانا نہ کھانے کی کوشش نہ کرے۔

حرف آخر عبدالوحید نے ایمانداری سے سماجی سچ کو اپنے افسانوں کی کتاب میں بیان کیا ہے۔  مجھے کبھی نقاد ہونے کا دعویٰ نہیں رہا کہ میں ایک فکشن لکھنے والا ہوں اور فکشن کی ہر کتاب کو اسی نظر سے پڑھتا ہوں، وحید ایک سکویر روایات کے امین شہر کا نوحہ لکھنے میں کامیاب ہوا ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔