جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی

جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی
جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سابق اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی سمیت متعدد سیاسی رہنماؤں نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔

یہ اعلان بلاول ہاؤس میں سابق اراکین اسمبلی اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے درمیان ہونے والی ملاقات میں کیا گیا۔

ملاقات میں سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود، سابق چیئرمین سینیٹ نیئر حسین بخاری، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور حسن مرتضیٰ بھی موجود تھے۔

پی پی پی کے نئے ارکان میں سابق ایم این اے قطب فرید کوریجہ، پی پی 265سے رئیس اکمل وارن، سردار شمشیر مزاری، پی پی 279 سے سید قاسم علی شمسی، فریحہ بتول، پی پی 278سے عبد العزیز کلانک، سابق ایم پی اے رسول بخش جتوئی، پی پی 269 سے پیر جعفر مزمل شاہ ،پی پی 277 سے سردار اللہ وسایا چنو لغاری، پی پی 273 سے محمد علمدار عباس قریشی اور این اے179 سے ملک عبد الغفار آرائیں شامل ہیں۔

علاوہ ازیں، مسز عطا قریشی، یاسر عطا قریشی، پی پی 209 سے سید جمیل شاہ، سید رشید شاہ، شیخ دلشاد احمد ، سید بلال مصطفی، سید تحسین نواز گردیزی، میاں علی حیدر وٹو، میاں سلمان اور ایوب موھل، میاں امیر حیدر وٹو، ایاز خان، امجد خان نیازی، مزمل خان نیازی اور عمر مسعود فاروقی نے بھی پاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔

رحیم یار خان، بہاولپور، مظفر گڑھ، راجن پور، میانوالی، خانیوال اور اوکاڑہ ان سیاستدانوں کی اکثریت کے آبائی صوبے ہیں۔

https://twitter.com/MediaCellPPP/status/1663971282268897300?s=20

پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے نے نئے آنے والوں کو بطور ساتھی پارٹی مبارکباد دی۔

سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی  نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے زور دیا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے اسمبلیاں تحلیل کرکے غلطی کی۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اراکین سمیت ملک میں ہر کسی نے 9 مئی کے فسادات کی مذمت کی۔

قانونی نظام اپنے قوانین کے مطابق کام کرے گا، اور "ہمیں یہ فیصلہ نہیں کرنا ہے کہ مستقبل میں کون مائنس ہوگا۔" انہوں نے مزید کہا کہ کسی بھی پارٹی کا پرتشدد ونگ نہیں ہونا چاہیے۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق رہنما جہانگیر خان ترین ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کے لیے تیار ہیں، جس کا نام مبینہ طور پر پاکستان مسلم لیگ-جناح (پی ایم ایل-جے) ہے۔ جس میں زیادہ تر اختلافی ارکان شامل ہوں گے جن میں سے کثیر تعدادکا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے۔

اپنے حالیہ بلاگ میں صحافی اور اینکر پرسن اجمل جامی نے کہا کہ جہانگیر ترین پی ٹی آئی کے ان سابق رہنماؤں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں جنہوں نے 9 مئی کے فسادات کے بعد عمران خان کی قیادت والی پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا جس میں پارٹی کارکنوں نے فوجی تنصیبات اور ریاستی املاک کو توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا اور نذر آتش کیا تھا ۔

جہانگیر ترین پی ٹی آئی کے 120 سے زائد ناراض اراکین سے رابطے میں ہیں جن میں ملک امین اسلم اور فواد چوہدری بھی شامل ہیں۔ پی ٹی آئی کے سابق رہنما اور عمران خان کے سابق قریبی ساتھی عون چوہدری نے تصدیق کی ہے کہ فواد چوہدری طویل عرصے سے جہانگیر ترین سے رابطے میں ہیں۔

جہانگیر ترین نے اپنے گروپ کے ساتھ لاہور میں پی ٹی آئی کے سابق رہنما علیم خان سے بھی ملاقات کی۔

ماضی میں قوم نے دیکھا کہ جب متحدہ قومی موومنٹ تحلیل ہوئی تو مصطفیٰ کمال کی قیادت میں پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) ابھری لیکن پارٹی انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی۔

جہانگیر ترین اور مصطفیٰ کمال کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے جامی نے کہا کہ کمال کے پاس کوئی طیارہ، اے ٹی ایم (کیش مشین) یا کافی قابل انتخاب امیدوار نہیں ہیں۔ جبکہ جہانگیر ترین کے پاس یہ سب کچھ ہے۔

اجمل جامی نے یہ بھی کہا کہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ صدر عارف علوی بھی پی ٹی آئی سے علیحدگی کا اعلان کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ افواہ بھی تھی کہ صدر علوی پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار نہیں کریں گے، لیکن وہ کابینہ کی طرف سے انہیں بھیجی گئی دستاویزات پر دستخط کرنے سے انکار نہیں گے۔ صدر علوی نے دوسرے آپشن کا انتخاب کیا اور  صدر کی جانب سے دستخط کے بعد سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈر ایکٹ نافذ ہو گیا۔

اینکر پرسن نے بتایا کہ سینئر وکیل عرفان قادر اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ اس قانون کےمطابق پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد  اور سابق وزیراعظم نواز شریف کو اپنی نااہلی کو چیلنج کرنے کے اہل نہیں ہوں گے، کیونکہ وہ ماضی میں اپیل کا آپشن استعمال کر چکے ہیں۔ تاہم، سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ پریکٹس بل، جو ابھی منظور ہونا باقی ہے، نواز شریف کے لیے اپنی نااہلی کو چیلنج کرنے کی راہ ہموار کرے گا۔

انہوں نے اپنے بلاگ کا اختتام ایک بیان کے ساتھ کیا کہ عمران خان کے لیے جون کے پہلے ہفتے میں مشکل وقت شروع ہو جائے گا۔