ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ کا باقاعدہ آغاز کل سے ہونے جا رہا ہے۔ پاکستان کی ٹیم دو دن قبل ویسٹ انڈیز پہنچ چکی ہے۔ یہ سال اب تک پاکستان کیلئے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے لیے اچھا نہیں رہا۔ سال کے آغاز میں شاہین شاہ آفریدی کی قیادت میں نیوزی لینڈ میں ٹی ٹوئنٹی سیریز 1-4 سے ہار گئے۔ پھر نیوزی لینڈ کی سی ٹیم پاکستان ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لئے آئی۔ ان کے 9 اہم ترین کھلاڑی بھارت میں آئی پی ایل کھیل رہے تھے۔ اس کے باوجود پاکستان سے سیریز 2-2 سے برابر رہی۔
اس دوران پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی تبدیلی ہو چکی تھی۔ ذکا اشرف کی جگہ محسن نقوی طاقت کے اصل مراکز کو خوش کر کے چیئرمین بن چکے تھے۔ انہوں نے آتے ہی شاہین شاہ آفریدی کی جگہ بابر اعظم کو پھر وائٹ بال کرکٹ ٹیم کا کپتان مقرر کر دیا۔ ریڈ بال کرکٹ کے کپتان ابھی بھی شان مسعود ہیں۔
پاکستان ٹیم یورپ میں آئرلینڈ اور برطانیہ کے خلاف 7 ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلنے آئی۔ آئرلینڈ کے خلاف 1-2 سے کامیابی ملی مگر برطانیہ کے خلاف سیریز 0-2 سے ہار گئے۔ اگر دو میچ بارش کی نذر نہ ہوتے تو 0-4 سے ہار جاتے۔ اب ویسٹ انڈیز اور امریکہ میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے لیے ٹیم ویسٹ انڈیز پہنچ چکی ہے۔ پاکستان کے یہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتنے کے امکانات 50 فیصد ہیں۔ ہماری ٹیم ڈارک ہارس ثابت ہو سکتی ہے۔ بات اگر ون ڈے اور ٹیسٹ کی ہو تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ قومی ٹیم ابھی میچ ونر نہیں مگر ٹی ٹوئنٹی جیسے موج میلہ والے فارمیٹ میں ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
اس وقت سب سے زیادہ تنقید سلیکشن کمیٹی پر ہو رہی ہے جس میں محمد یوسف، اسد شفیق، عبدالرزاق اور وہاب ریاض شامل تھے۔ وہاب ریاض غیر اعلانیہ چیف سلیکٹر ہیں اور اس وقت قومی ٹیم کے ساتھ سینئر مینجر کے طور پر بھی موجود ہیں۔ محمد یوسف بھی بیٹنگ کوچ کے طور پر موجود ہیں۔
صائم ایوب، اعظم خان اور شاداب خان کی کارکردگی بری جا رہی ہے۔ ہیڈ کوچ گیری کرسٹن اور اسسٹنٹ کوچ اظہر محمود نے ابھی تک مسٹری سپنر ابرار احمد کو ایک بھی میچ میں چانس نہیں دیا جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ شاداب خان مسلسل آؤٹ آف فارم ہے۔ اس کی کارکردگی بہت خراب ہے جبکہ اعظم خان نے آئرلینڈ کے خلاف کسی حد تک بہتر اور برطانیہ کے خلاف بری کارکردگی دکھائی ہے۔ یہی حال صائم ایوب کا بھی ہے۔ محمد رضوان اور کپتان بابر اعظم بھی بڑی اننگز نہیں کھیل سکے۔ افتخار احمد کو بہت نیچے صرف دو یا تین اوورز تک محدود کر دیا گیا ہے۔ شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف، نسیم شاہ اور محمد عامر بھی ردھم میں نہیں لگ رہے۔ اگر کوئی کھلاڑی ان فارم ہے تو وہ عماد وسیم ہے۔
ہیڈ کوچ گیری کرسٹن پر بہت زیادہ دباؤ ہے۔ وہ اپنے وقت کے بہترین بیٹر تھے اور اس وقت بہت اچھے کوچ ہیں۔ ان کی کوچنگ میں بھارتی کرکٹ ٹیم 2011 کا ون ڈے ورلڈکپ جیت چکی ہے۔ گیری کرسٹن کو پاکستان کی وائٹ اور ریڈ بال دونوں ٹیموں کا کوچ ہونا چاہیے تھا۔ اس وقت ضرورت ہے صائم ایوب، اعظم خان اور ابرار احمد کی خوداعتمادی بحال کرنے کی۔ اعظم خان اور صائم ایوب بہت باصلاحیت کھلاڑی ہیں۔ چھوٹی ٹیموں کے خلاف کھیل کر وہ فارم میں واپس آ سکتے ہیں۔ آئرلینڈ، کینیڈا اور امریکہ کی ٹیموں کے خلاف ان دونوں کو موقع ملنا چاہیے۔ ابرار احمد کو موقع ہر صورت ملنا چاہیے۔ ویسٹ انڈیز کی سپن وکٹیں ابرار احمد کے مطابق ہیں۔ وہ عماد وسیم کے ساتھ بہت مددگار ثابت ہوں گے۔
کپتان بابر اعظم کو ان نوجوان باصلاحیت کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اب تک وہ صائم ایوب اور اعظم خان کی خوب حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ ان کو ابرار احمد کے ساتھ بھی ایسا ہی رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
حرف آخر ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں پاکستان ڈارک ہارس ثابت ہو سکتا ہے۔ ابھی تک کی بری کارکردگی کے باوجود پاکستان کی ٹیم حیران کن کم بیک کر سکتی ہے۔ باؤلنگ اور بلے بازوں کے ردھم میں واپسی کے لئے ایک یا دو میچ ہی کافی ہوتے ہیں۔ اس لیے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔