اب ٹیم نہیں، پوری سلیکشن کمیٹی کی سرجری کرنا ہوگی

عماد وسیم جن کے لئے قانون بدلے گئے ان سے ریٹائرمنٹ واپس لینے کی درخواست کی گئی اور بڑے ناز و نعم کے ساتھ ان کو ٹیم میں واپس بلایا گیا ان کی کارکردگی ملاحظہ ہو۔ پچھلی 7 اننگز میں صرف 64 رنز بنائے ہیں اور باؤلنگ کے میدان میں 8 میچوں میں 53.5 کی اوسط سے صرف 4 وکٹیں لے کر، قوم اور ملک کے ساتھ ساتھ اپنی سلیکشن کمیٹی اور سلیکٹرز کی بھرپور شرمندگی کا باعث بنے ہیں۔

Pakistan cricket team out of world cup

حالیہ ٹی 20 ورلڈ کپ میں امریکہ اور بھارت کے خلاف مسلسل شکستوں نے پاکستان کرکٹ ٹیم کے اندر بے پناہ گہرے مسائل کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ سلیکشن کمیٹی اور غیر اعلانیہ چیف سلیکٹر جناب وہاب ریاض کی کارکردگی کو بھی بری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔

کپتان بابر اعظم قیادت اور کارکردگی دونوں میدانوں میں بری طرح سے ناکام رہے ہیں، وہ اپنی ٹیم کو متاثر کرنے یا ناقدین کو اپنے بلے سے جواب دینے میں بھی بری طرح ناکام رہے ہیں۔

اس کے سا تھ ساتھ افتخار احمد، عماد وسیم، اعظم خان، محمد عامر، محمد رضوان، فخر زمان، حارث رؤف اور شاہین شاہ آفریدی جیسے کھلاڑی بھی کارکردگی دکھانے میں بری طرح ناکام رہے اور 25 کروڑ کرکٹ شائقین کی دل شکستگی اور مایوسی کی وجہ بنے ہیں۔

ذیل میں دیے گئے اعداد و شمار اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ پڑھتا جا، شرماتا جا۔

20 اوورز کی کرکٹ میں افتخار احمد کی بیٹنگ اوسط 12.20، 15 اننگز میں صرف ایک نصف سنچری کے ساتھ، وہ ٹیم کے اوپر ایک ناقابلِ برداشت بوجھ اور ذمہ داری بن چکے ہیں۔

عماد وسیم جن کے لئے قانون بدلے گئے ان سے ریٹائرمنٹ واپس لینے کی درخواست کی گئی اور بڑے ناز و نعم کے ساتھ ان کو ٹیم میں واپس بلایا گیا ان کی کارکردگی ملاحظہ ہو۔ پچھلی 7 اننگز میں صرف 64 رنز بنائے ہیں اور باؤلنگ کے میدان میں 8 میچوں میں 53.5 کی اوسط سے صرف 4 وکٹیں لے کر، قوم اور ملک کے ساتھ ساتھ اپنی سلیکشن کمیٹی اور سلیکٹرز کی بھرپور شرمندگی کا باعث بنے ہیں۔

20 اوورز کی کرکٹ میں اعظم خان کی پچھلی 14 اننگز کی بیٹنگ اوسط 8 ہے، پچھلی 10 اننگز میں ایک بھی نصف سنچری نہیں بنا سکے۔ ان کا فٹنس لیول بھی ایک مذاق بن چکا ہے اور اپنے ساتھ ساتھ ملک اور قوم کے لئے بھی جگ ہنسائی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔

ایک اور شاہکار جن سے ورلڈ کپ سے پہلے ریٹائرمنٹ واپس لینے کی باقاعدہ درخواست کی گئی اور ان کے ناز نخرے اٹھاتے ہوئے ان کو واپس ٹیم میں لایا گیا، وہ جناب محمد عامر ہیں۔ امریکہ کے خلاف سپر اوور کے لئے تمام باؤلرز کے اوپر محمد عامر کو ترجیح دیتے ہوئے ان کا انتخاب کیا گیا اور محترم جناب نے سپر اوور میں امریکہ کے خلاف 19 رنز دیے جس میں سے سات رنز وائیڈ بالزاور ایکسٹرا کے تھے۔

ایک اور اہم رکن جنہوں نے ہر اہم موقع پر انتہائی بری کارکردگی دکھائی، وہ ہیں حارث رؤف۔ ہر بڑے میچ میں مسلسل غیر ذمہ دارانہ باؤلنگ کرتے ہوئے پاکستان کی ناکامیوں میں مخالف ٹیم سے بھی زیادہ حصہ ملا رہے ہیں۔ ان کی موجودہ فارم اور کارکردگی دونوں قابل رحم ہیں۔ ٹی 20 میں 8 میچوں میں صرف 7 وکٹیں لے کر، ایک معمولی کارکردگی کے ساتھ بہت سارے سوالات کو جنم دے رہے ہیں۔

شاہین شاہ آفریدی کی حالیہ ٹی ٹوئنٹی میں باؤلنگ اوسط اور کارکردگی بھی کوئی بہت عمدہ نہیں رہی ہے۔ اور 6 میچوں میں صرف 5 وکٹیں لے کر، ان کے معیار اور سابقہ کارکردگی سے بہت دور ہے۔

شاداب خان جن میں ایک بہترین آل راؤنڈر بننے کا پوٹینشل موجود تھا اپنے غیر ذمہ دارانہ اور غیر پیشہ ورانہ رویے کی وجہ سے وہ بھی ٹیم پر مسلسل ایک بوجھ بنتے جا رہے ہیں۔

محمد رضوان کی حالیہ بیٹنگ اوسط بھی مایوس کن ہے اور پچھلی 5 اننگز میں صرف 1 نصف سنچری کے ساتھ 114 رنز بنائے ہیں۔ یہ ایک سینیئر بلے باز کی حیثیت سے مسلسل ناکامی اور مایوسی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔

فخر زمان کی حالیہ کارکردگی خاص کر ٹی ٹوئنٹی میں بیٹنگ اوسط صرف 17 رن ہے، 10 اننگز میں صرف 1 نصف سنچری کے ساتھ ساتھ احساس ذمہ داری اور ایک سینیئر بلے باز کی حیثیت سے انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ بھی اس میں شامل ہے۔

صائم ایوب اور عثمان خان صلاحیتوں کے مالک ضرور ہیں لیکن جس اعتماد کی کمی کا مظاہرہ اور جس خوف کا مظاہرہ انہوں نے ورلڈ کپ کے اپنے ابتدائی میچوں میں کیا ہے اگر خوف اور اعتماد کی یہی کمی رہی تو بہت جلد ان کے لئے انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے بھی بند ہو سکتے ہیں۔

ان کھلاڑیوں نے ناصرف ٹیم کو ناکام کیا ہے بلکہ قوم کے اعتماد کو بھی دھوکہ دیا ہے۔ انہوں نے کھیل کا مذاق اڑایا ہے، اور ان کی بدترین کارکردگی نے ٹیم کو زوال کی آخری سطح تک لا پھینکا ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کی ذمہ داری لیں اور پی سی بی ٹیم کے فخر اور مسابقت کو بحال کرنے کے لئے سخت ترین اقدامات کرے۔ سلیکشن کمیٹی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ بے رحمی کے ساتھ احتساب اب پی سی بی کی ذمہ داری اور قوم کا مطالبہ ہے۔ کھیل قوم کی تعمیر، اتحاد، نظم و ضبط، وقار اور عمدگی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کھیلوں کو تعصب، اقربا پروری اور سیاست سے پاک رکھنا، سب کے لئے برابری کے میدان کو یقینی بنانا ارباب اختیار پر واجب اور نہایت ضروری ہے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کا زوال بدترین کارکردگی، سیاست، اقربا پروری اور بدانتظامی کے نتائج کی واضح مثال ہے۔ یہ تبدیلی کا وقت ہے، قیادت کے ایک نئے دور کا، اور ایک ٹیم جو اپنی عمدہ کارکردگی کے ساتھ پاکستانی قوم کا اعتماد بحال کرے اور دوبارہ سے کھیل کے میدانوں پر راج کرے صرف وہی قوم کا کھویا ہوا وقار بحال کر سکتی ہے۔

پی سی بی کو اب عمل کرنا ہوگا۔ یہ عمل کا وقت ہے۔ اس ٹیم نے قوم کو صرف اور صرف مایوسی کے اندھیروں میں دھکیلا ہے اور پہلے سے گوناگوں مسائل میں گھری ہوئی قوم کو شکست خوردگی، مایوسی ناکامی اور شرمندگی دی ہے۔

یہ وقت ہے کہ ٹیم کے ساتھ ساتھ سلیکشن کمیٹی کی بھی ایک بڑے اور وسیع پیمانے پر مکمل سرجری کی جائے۔ اس وقت قوم کو نئے، تازہ، قابل اعتماد، جانباز اور صلاحیتوں سے بھرپور نئے ٹیلنٹ کو آگے لانے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔

محمد سجاد آہیر پیشے کے لحاظ سے یونیورسٹی پروفیسر ہیں۔ وہ جمہوریت کی بحالی، کمزور اور محکوم طبقات کے حقوق اور انسانی ترقی کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔