محصولات کی وصولی کا بھیانک خلا کیسے پُر ہو گا؟

یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں، سول اور ملٹری یکساں، نے غیر مؤثر، فرسودہ، نوآبادیاتی دور کے اداروں کی تنظیم نو میں بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے، جس میں کارکردگی، مساوات اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے ملک کا ٹیکس نظام بھی شامل ہے۔

محصولات کی وصولی کا بھیانک خلا کیسے پُر ہو گا؟

نئی وفاقی حکومت جلد ہی اقتدار میں ہو گی، اس حقیقت کے باوجود کہ 8 فروری 2024 کے متنازعہ انتخابات کے بعد مبینہ طور پر پسندیدہ کے حق میں ووٹنگ کے بعد کی ہیرا پھیری سے نتائج متاثر ہوئے، جس سے جمہوریت اور نظام سلطنت کی ساکھ کو نقصان ہوا۔ یہ ملکی تاریخ کے پہلے غیر شمولیتی انتخابات تھے جن میں پاکستان تحریک انصاف کو اس کے انتخابی نشان (کرکٹ بیٹ) سے محروم کر دیا گیا۔

حلف اٹھانے کے فوراً بعد نئے وفاقی وزیر خزانہ کے سامنے سب سے بڑا چیلنج مالی سال 2024-25 کے بجٹ کی تیاری ہو گا جو تاریخی طور پر ہر سال جون کے دوسرے ہفتے میں پیش کیا جاتا ہے۔ مارچ 2024 انتہائی اہم ہونے جا رہا ہے کیونکہ 3 ارب امریکی ڈالر کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ (SBA) کی آخری قسط بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کی ٹیم کے کامیاب جائزے سے مشروط ہو گی۔

ہمیں سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کی 705.6 ملین امریکی ڈالر کی دوسری قسط 18 جنوری 2024 کو موصول ہوئی۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ کی طرف سے ہمارے لئے انتہائی ضروری سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کی منظوری کے بعد 13 جولائی 2023 کو 1.2 بلین امریکی ڈالر کی پہلی قسط پاکستان کو حاصل ہوئی تھی۔

چونکہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے ساتھ ایک اور طویل مدتی توسیعی سہولت پروگرام پر گفت و شنید کے لیے جاری سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کو کامیابی کے ساتھ مکمل کرنا ہے، اس لیے ہمیں ایک قابل، محنتی اور تجربہ کار وفاقی وزیر خزانہ کی ضرورت ہے جو ملک کو اس کے 76 سال کے بدترین معاشی بحران سے نکالنے کے علاوہ ان معاملات کو ہنگامی بنیادوں پر سنبھال سکے۔

جاری مالیاتی سال میں پاکستان 8.5 ٹریلین روپے کے تاریخی بلند ترین مالیاتی خسارے کی توقع کر رہا ہے۔ موجودہ مالی سال میں صرف قرض کی خدمات (debt servicing( کا خرچہ 8 ٹریلین روپے سے زائد ہو گا۔ یہ ہے وطن عزیز کا اصل المیہ جس کا تفصیلی تذکرہ اور تجزیہ 12 فروری 2024 کے  نیچے دیے گئے کالم میں کیا گیا تھا۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو حقائق کی پردہ پوشی کیوں کر رہا ہے؟

نئی وفاقی حکومت کے وزیر خزانہ کو بلند ترین مالیاتی خسارے کو ختم کرنے کے لئے قرضوں کے شیطانی جال سے نکلنے کے علاوہ غیر ضروری اخرجات میں نمایاں کمی اور قومی سطح پر محصولات، ٹیکس اور غیر ٹیکس، کی حقیقی استعداد کو حاصل کرنا ہو گا جو کہ صرف فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر) کی سطح پر 20 ٹریلین روپے سے کم نہیں ہے اور اگر متوازی معیشت کو بھی دستاویزی کر لیا جائے تو اگلے پانچ برس میں 35 ٹریلین تک ہو سکتی ہے۔ اس کی تصدیق، 'کم شرح، وسیع اور قابل پیشن گوئی ٹیکسز' (PRIME انسٹی ٹیوٹ، اسلام آباد، دسمبر 2020) کے مطالعہ سے ہوتی ہے۔

2023 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 241.83 ملین تھی۔ ورلڈ میٹر کے 28 فروری 2024 تک آن لائن ڈیٹا کے مطابق ہماری آبادی 243,587,554 تھی۔

2023 کی مردم شماری کی بنیاد پر 15 سے 64 سال کے درمیان افراد کی تعداد 69 فیصد ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق روزگار کی شرح 59 فیصد ہے۔ اس طرح تقریباً 70 ملین افراد صاحب روزگار ہیں (ایک بہت ہی قدامت پسند تخمینے کے مطابق)۔

تاہم، ایف بی آر کی ایکٹو ٹیکس دہندگان کی فہرست (ATL) کے مطابق 26 فروری 2024 تک موجودہ انفرادی انکم ٹیکس ریٹرن فائلرز کی تعداد 4,003,543 تھی۔ ان 'فائلرز' میں 60 فیصد سے زائد نے قابل ٹیکس آمدنی سے کم یا نقصان ظاہر کیا۔ یہ فہرست ہر سوموار کو اپ ڈیٹ کی جاتی ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

آئیے سرکاری اعداد و شمار کی بنیاد پر کل ملازمت پیشہ، پروفیشنلز اور کاروباری آبادی میں سے انکم ٹیکس (افراد) کی ممکنہ ٹیکس بنیاد (base) کا اندازہ کریں۔ فرض کرتے ہوئے کہ 10 فیصد (7 ملین) کی ماہانہ آمدنی 800,000 روپے سے زیادہ ہے اور 20 فیصد (14 ملین) کی 600,000 اور 700,000 روپے کے درمیان اور باقی ٹیکس کی قابل حد (600,000 روپے) سے نیچے، 21 ملین ممکنہ ٹیکس دہندگان کی آمدن پر موجودہ ٹیکس شرحیں لاگو کریں تو یہ رقم 7 ٹریلین روپے بنتی ہے۔ اس وقت کل رجسٹرڈ کمپنیوں میں سے 60 فیصد انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرا رہی ہیں۔ 5 ملین روپے کا اوسط فی کمپنی ٹیکس فرض کرتے ہوئے، ٹیکس کی وصولی 3000 ارب روپے بنتی ہے۔

مالی سال 2022-23 میں ایف بی آر کی جانب سے انکم ٹیکس کی وصولی صرف 3086 بلین (کمپنیاں، افراد، فرم اور افراد کی انجمن سے) تھی، جبکہ کل صلاحیت 11 ٹریلین روپے سے کم نہیں۔ مالی سال 2022-23 میں ایف بی آر کی جانب سے سیلز ٹیکس کی وصولی 2591 بلین روپے تھی جبکہ اصل صلاحیت 7 ٹریلین روپے سے کم نہیں ہے۔

اسی طرح کسٹمز ڈیوٹی کی اصل صلاحیت (امریکی ڈالر 100 بلین کی درآمدات کی بنیاد پر 5 فیصد شرح استعمال کرنے سے) 1300 ارب روپے بنتی ہے۔ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اگر موجودہ پوزیشن پر بھی رکھی جائے تو 700 روپے سے کم نہیں ہے۔

مالی سال 2022-23 میں، ایف بی آر نے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے تحت 370 ارب روپے اور کسٹم ڈیوٹی کے تحت 932 ارب روپے حاصل کیے، جبکہ اصل اہداف بالترتیب 402 ارب روپے اور 953 بلین روپے تھے۔

مذکورہ بالا اعداد و شمار کے پیش نظر، ایف بی آر کی سطح پر ٹیکس کی کل صلاحیت سرکاری جی ڈی پی کے مطابق 20 ٹریلین روپے (انکم ٹیکس: 11 ٹریلین روپے؛ سیلز ٹیکس: 7 ٹریلین؛ کسٹم ڈیوٹی: 1300 ارب اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 700 بلین روپے) بنتی ہے اور اگر متوازی معیشت کو بھی شامل کر لیں تو 30 ٹریلین روپے سے کم نہیں بنتی۔

جیسا کہ 'کم شرح، وسیع اور قابل پیشن گوئی ٹیکسز' (PRIME انسٹی ٹیوٹ، اسلام آباد، دسمبر 2020) میں تفصیلاً درج ہے کہ پاکستان میں ٹیکس کا ایک بہت بڑا خلا (gap) ہے جو غلط ٹیکس پالیسی اور غیر مؤثر ایڈمنسٹریشن کی وجہ سے ہے۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) کی ویب سائٹ پر دستیاب تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 31 جنوری 2024 تک جاری کردہ سمز کی کل تعداد 190 ملین (79.11 فیصد موبائل ٹیلی ڈینسٹی) تھی۔ 129 ملین براڈ بینڈ موبائل صارفین تھے (53.20 فیصد موبائل براڈ بینڈ رسائی)، 3 ملین بنیادی ٹیلی فونی صارفین (1.07 فکسڈ ٹیلی ڈینسٹی) اور 132 ملین براڈ بینڈ صارفین (54.58 فیصد براڈ بینڈ رسائی)۔

جاری کردہ کل سمز 190 ملین میں سے 120 ملین منفرد موبائل صارفین (کچھ کے پاس ایک سے زیادہ سمز ہیں)، 15 فیصد ایڈوانس/ایڈجسٹ ایبل انکم ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ یہ فنانس (ضمنی) ایکٹ، 2022 کے ذریعے، 15 جنوری 2022 سے نافذ کیا گیا تھا۔ تقریباً 120 ملین منفرد موبائل صارفین میں سے 21 ملین، اوپر کے تجزیے کے مطابق، قابل ٹیکس آمدنی رکھنے والے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کے ذمہ دار ہیں۔ تاہم، موجودہ انفرادی انکم ٹیکس ریٹرن فائلرز کی تعداد 4,003,543 ہے۔ فرق (gap) 17 ملین افراد سے کم نہیں ہے۔

اگرچہ انفرادی انکم ٹیکس فائلرز کی تعداد قابل رحم طور پر کم ہے، پوری قابل ٹیکس آبادی اور یہاں تک کہ وہ لوگ جن کی کوئی آمدنی نہیں یا قابل ٹیکس حد سے کم ہے، وہ موبائل صارفین کے طور پر ایڈوانس اور ایڈجسٹ انکم ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ اگر وہ سبھی انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں، تو کم از کم 79 ملین کو ریفنڈ دینا ہو گا۔

ایف بی آر کو ٹیکس وصول کرنا چاہیے، جہاں واجب الادا ہے، اور پیشگی نہیں ہے، یا ان لوگوں سے نہیں جو ٹیکس ادا کرنے کے اہل ہی نہیں ہیں۔

افسوس کی بات ہے کہ 75 پیسے (ایک پاکستانی روپیہ 100 پیسے پر مشتمل ہے) 5 منٹ سے زیادہ کی موبائل کال پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو فنانس ایکٹ 2021 میں غریبوں کے تئیں سراسر بے حسی میں لگایا گیا تھا۔ یہ پاکستان کے آئین کی بھی خلاف ورزی تھی، جیسا کہ سندھ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے [ (2023) 125 ٹیکس 401 (H.C. Kar)] میں سنایا، جس نے پاکستان انٹرنیشنل فریٹ فارورڈنگ ایسوسی ایشن بمقابلہ صوبہ سندھ [(2016) 114(H.C. Kar.) 413TAX  کی توثیق کی۔ تاہم، ایف بی آر نے اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور فیصلہ تا حال نہیں ہوا۔

آئینی مسئلہ کے علاوہ، یہ ٹیکس پالیسی کا ایک بہت ہی برا قدم ہے، جو آپریٹرز کے لیے لاگو کرنا ناقابل عمل، غریب مخالف اور ایف بی آر کی پہلے سے جابرانہ بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے مطلوبہ ریونیو بڑھانے کی کوششوں کے لیے غیر مؤثر ہے۔

ایف بی آر نے تقریباً 120 ملین منفرد موبائل صارفین کے ڈیٹا سے ان کے کالنگ پیٹرن، بلز، ہینڈ سیٹ کی ملکیت کی حیثیت، اثاثوں، بیرون ملک سفر، یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی، بچوں کی فیس وغیرہ کی تفصیلات کا استعمال کرتے ہوئے منصفانہ اور مساوی انکم ٹیکس کی بنیاد کا تعین کرنے کی کبھی زحمت نہیں کی۔ یہ سب ایڈوانس ایڈجسٹ ایبل انکم ٹیکس ادا کرتے رہے ہیں، وہ بھی جو قانون کے تحت انکم ٹیکس کے قابل نہیں ہیں۔ ان پر ایڈوانس ٹیکس نہیں لگایا جا سکتا، جیسا کہ لاہور ہائی کورٹ نے یونین بینک لمیٹڈ بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان (1998) 77 TAX 125 (HC Lah.) اور لون کولڈ سٹوریج، لاہور بمقابلہ ریونیو افسران، لاہور الیکٹرک پاور کمپنی اور دیگر (2011) 103 5TAX (H.C. Lah.) میں طے کیا ہے۔

یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں کم مراعات یافتہ اور پسماندہ لوگوں پر ٹیکس لگاتی رہی ہیں۔ غریبوں پر جابرانہ ٹیکس کیوں لگایا جاتا ہے جیسے 5 منٹ سے زیادہ موبائل کال کے لیے 75 پیسے اور 15 جولائی 2022 سے موبائل اور/یا انٹرنیٹ کے استعمال پر 15 فیصد ایڈوانس انکم ٹیکس (پہلے یہ شرح 10 فیصد تھی اور اسے کم کر کے 8 فیصد کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا) مالیاتی ایکٹ، 2022 کے ذریعے یکم جولائی 2022 سے نافذ العمل ہے۔

امیر اور طاقتور اب بھی ٹیکس فری مراعات اور فوائد سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ بجلی کے بلوں اور کھانے پینے کی متعدد اشیا اور روزمرہ استعمال کی اشیا پر بھاری سیلز ٹیکس لگانا انتہائی غیر منصفانہ ہے، جب ٹیکس اخراجات ( مراعات وغیرہ) مالی سال 2020-21 سے سالانہ 1.5 بلین روپے سے زیادہ رہے ہیں۔ بزرگ شہریوں اور خصوصی افراد کے لیے ٹیکس کریڈٹ جو فنانس ایکٹ 2019 کے ذریعے ٹیکس کی شرحوں میں اضافے سے پہلے دستیاب تھے، بحال ہونا چاہیے۔

اب یہ نئی وفاقی حکومت کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ ماضی میں کسی بھی حکومت نے ٹیکسوں کی شرح کو کم نہیں کیا اور پیداواری شعبوں میں سرمایہ کاری کر کے اعلیٰ اور پائیدار نمو کو تیز کرنے کے لیے سرمائے کی تشکیل کی اجازت نہیں دی اور نہ ہی کھلے پلاٹ وغیرہ میں غیر پیداواری سرمایہ کاری پر بھاری ٹیکس عائد کیا ہے۔

یہ صرف آسان اور سادہ ٹیکس نظام کے ذریعے ہی ممکن ہے جیسا کہ 'کم شرح، وسیع اور قابل پیشن گوئی ٹیکسوں' میں بیان کیا گیا ہے۔ فنانس ایکٹ 2021 میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (SMEs) کو بطور مینوفیکچررز 250 ملین روپے کے کاروبار تک کی ریلیف، بغیر کسی امتیاز کے خوردہ فروشوں اور دیگر ٹیکس دہندگان کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ صرف سادہ تعمیل کے طریقہ کار کے ساتھ وسیع بنیاد پر کم شرح ٹیکس ہی 20 ٹریلین روپے جمع کرنے میں مدد کر سکتا ہے، جیسا کہ اوپر زیر بحث آیا ہے۔

ٹیکس پالیسی کی اصلاحات جو آج تک کی گئی ہیں، بنیادی طور پر پیچ ورک (work patch) ہیں، اور بے کار مشقیں ثابت ہوئی ہیں۔ نظام کی اصلاح کے لیے بنائے گئے ٹیکس اصلاحاتی کمیشن اور مشاورتی کمیٹیاں ناکام رہی ہیں کیونکہ وہ اسباب کو دور کرنے کے بجائے لاعلاج یا بصورت دیگر علامات کے علاج کے لیے حل تجویز کرتی رہی ہیں۔

یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں، سول اور ملٹری یکساں، نے غیر مؤثر، فرسودہ، نوآبادیاتی دور کے اداروں کی تنظیم نو میں بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے، جس میں کارکردگی، مساوات اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے لیے ملک کا ٹیکس نظام بھی شامل ہے۔ نگران حکومت کے تحت منظور شدہ ایف بی آر کا تنظیم نو کا منصوبہ اب رکا ہوا ہے، یہ بھی سٹیک ہولڈرز اور ماہرین کے ان پٹ (input) کو نظر انداز کرتے ہوئے، محض ایک اور افسر شاہانہ (beaucratic) مشق ہے۔

غلط ٹیکس پالیسی، پیچیدہ ٹیکس قوانین، پیچیدہ طریقہ کار، آسانی سے جمع کیے جانے والے بالواسطہ ٹیکسوں پر انحصار، کمزور نفاذ، نا اہلی اور بدعنوانی ٹیکس کی کم وصولی کے اہم عوامل ہیں۔ ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے اور قوانین کو آسان بنانے کے بجائے، یکے بعد دیگرے حکومتیں معاشرے کے طاقتور طبقوں کو معافی، استثنیٰ، ٹیکس فری مراعات/ سہولتیں فراہم کرتی رہی ہیں۔ اس پالیسی مائنڈ سیٹ کے نتیجے میں عام کاروباری اور شہری مسلسل مشکلات کا شکار ہیں۔

مختلف کالموں اور کتابوں میں اس بات پر بارہا بحث اور التجا کی گئی ہے کہ ٹیکس کے پورے نظام کی اصلاح اور تنظیم نو، کم شرح، وسیع البنیاد اور پیش گوئی کے قابل ٹیکس، قومی ٹیکس ایجنسی اور نیشنل ٹیکس کورٹ ہی واحد حل ہیں۔ امید ہے نئی وفاقی حکومت ان پر سنجیدگی سے غور کرے گی۔

مضمون نگار وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ دونوں متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اور LUMS یونیورسٹی کی Visiting Faculty کا حصہ ہیں۔