حکمران طبقہ قومی سطح پر محصولات کے نظام کی تشکیل نو نہیں چاہتا

ملک کو ان وقتی اقدامات، جن کا محرک صرف اور صرف انتخابی کامیابی ہوتی ہے، کے بجائے انسانی وسائل بڑھانے میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک ہماری معاشی پالیسیاں انتخابات جیتنے کی علت سے جان نہیں چھڑاتیں، ہم بہتری کا خواب نہیں دیکھ سکتے۔

حکمران طبقہ قومی سطح پر محصولات کے نظام کی تشکیل نو نہیں چاہتا

شہباز شریف نے دوسری مرتبہ وزیر اعظم پاکستان کا حلف لینے کے بعد کابینہ کے اعلان سے قبل پہلی ہی میٹنگ میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو فعال بنانے کے لیے غیر ملکی ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کا حکم دے ڈالا۔ پھر اگلے ہی دن 6 مارچ کو ایف بی آر کی تشکیل نو کے بارے میں نگران حکومت کے پاس کردہ منصوبے کی منظوری دی اور اس منصوبے پر فوری عمل درآمد کی تاکید کی۔ یہ منصوبہ دراصل سپیشل انویسٹمنٹ اینڈ فسیلیٹیشن کونسل (SIFC) کا تیار کردہ ہے۔

شہباز شریف نے کسی بھی غلط فہمی کے بغیر ثابت کیا کہ وہ کس طرح اور کن کے لیے آئے ہیں، اور ان کو قانون کی کوئی بھی پروا نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ کم از کم کابینہ کے بننے کا انتظار کرتے۔ وہ اور SIFC کے مہربان یہ بھی بھول گئے کہ اس کے بارے میں عدالت عظمیٰ کا فیصلہ موجود ہے۔ ان کو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ نگران حکومت کی جانب سے پاس کردہ منصوبے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم امتناعی بھی مؤثر باعمل ہے۔ اس منصوبہ کی خرابیوں کے بارے میں ہمارے ایک سے زائد مضامین بھی چھپ چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں؛ Debate Over FBR Restructuring

پاکستان کو دراصل قومی سطح پر موجود تمام تر ٹیکس انتظامیہ کو تبدیل کرتے ہوئے محصولات کے نئے نظام کی ضرورت ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لیے ترجیحی بنیادوں پر زیادہ وسائل مہیا کرنے کی صلاحیت کی حامل نیشنل ٹیکس ایجنسی (این ٹی اے) کا قیام عمل میں لایا جائے۔

یہ بھی پڑھیں؛ لوٹ مار کو روکنے کے لئے مؤثر نیشنل ٹیکس اتھارٹی کا قیام ناگزیر ہے

جمہوری عمل اور اتفاقِ رائے سے پارلیمنٹ کے تمام ارکان کو ایک آزاد اور خود مختار نیشنل ٹیکس ایجنسی قائم کرنے کے لیے قانون سازی کرنی ہو گی۔ یہ کام انتظامیہ کو ہرگز نہیں دیا جا سکتا۔ ٹیکس ماہرین پر مشتمل یہ ایجنسی ٹیکس دہندگان کو قومی، صوبائی اور مقامی سطحوں پر مختلف ٹیکسز سے بچاتے ہوئے ٹیکس کے مربوط نظام میں لا سکتی ہے۔ اس سے عوام کو بھی سہولت ہو گی اور ٹیکس افسران کی لوٹ مار کا سلسلہ بھی بند ہو جائے گا۔ این ٹی اے کے مندرجات کو 'کونسل آف کامن انٹرسٹ' (آرٹیکل 153) کے تحت زیرِ بحث لایا اور اس کو 'نیشنل اکنامک کونسل' (آرٹیکل 156) کے کنٹرول میں دیا جا سکتا ہے۔

ٹیکس کا نظام کسی بھی ملک کی سماجی اور معاشی پالیسیوں پر بہت گہرے اثرات مرتب کرتا ہے لیکن اس پر پاکستان میں واجب توجہ نہیں دی گئی۔ نیشنل ٹیکس پالیسی ان افراد کی حوصلہ شکنی کرتی ہے بلکہ انہیں سزا دیتی ہے جو ایسے اثاثے رکھتے ہیں جو معاشی طور پر غیر پیداواری ہوتے ہیں۔ ایسے اثاثوں پر بھاری ٹیکس عائد کر کے ان کو جمع نہ کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے، لیکن ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے۔ سوشل جمہوریت میں ٹیکسز کا سب سے اہم مقصد معاشی انصاف کی فراہمی ہوتی ہے۔ اس کی بنیاد ٹیکس کے بوجھ کو تقسیم کرنے اور عوامی سطح پر خرچ کی جانے والی رقم کے فوائد سب شہریوں تک پہنچانے پر استوار ہوتی ہے۔ اس کی ترتیب اس طرح ہوتی ہے کہ اشرافیہ طبقوں سے زیادہ ٹیکس وصول کر کے کم آمدنی والے اور غریب افراد پر زیادہ رقم خرچ کی جائے۔ یہی ترتیب جمہوریت کی روح رواں ہے۔ اس معاشی انصاف میں دولت کی مساوی تقسیم کے علاوہ معاشرے کے نسبتاً کمزور طبقوں، جیسا کہ عورتوں، بچوں، اقلیتوں، معذوروں اور بے روزگاروں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ تاہم، ہماری ٹیکس پالیسی میں یہ عوامل دکھائی نہیں دیتے اور اس کے باوجود ہم جمہوریت کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

بدقسمتی سے پاکستان میں مختلف حکومتیں، چاہے وہ سیاسی ہوں یا فوجی، عوام سے حاصل کیے گئے ٹیکسز کو اپنے آرام و آسائش پر خرچ کرتی رہی ہیں۔ ٹیکس کے جابرانہ نظام کے ذریعے امیر افراد کو امیر تر اور غریب افراد کو غریب تر بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس بڑھتی ہوئی معاشی ناہمواری سے سماجی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ہمارے ہاں معاشیات کے ماہرین ایک عجیب تضاد کا شکار ہیں۔ ایک طرف ٹیکسز کے نظام کو بہتر بناتے ہوئے مالی خسارہ کم کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف وہ ٹیکسز کی چھوٹ ختم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ چھوٹ عام آدمی کو نہیں بلکہ دولت مند اور طاقت ور افراد کو حاصل ہے۔ وہ ٹیکس کے نظام میں موجود خامیاں دور کرنے کی کوئی پالیسی یا خواہش نہیں رکھتے۔

ٹیکس کے موجودہ ظالمانہ اور بوسیدہ نظام کے ہوتے ہوئے پاکستان معاشی ترقی اور خوشحالی کی منزل ہرگز حاصل نہیں کر سکتا۔ یہ بات عجیب دکھائی دیتی ہے کہ حکمرانوں کو جب اس یک نکاتی حل کا علم ہے تو وہ اس طرف قدم کیوں نہیں بڑھاتے؟ اس کی تفہیم کوئی بہت دقیق راکٹ سائنس نہیں۔ ایک مؤثر این ٹی اے اس نظام میں بہتری لا کر ٹیکس انٹیلی جنس سسٹم کے ذریعے ٹیکس چوری کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ تاہم اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان آمدن، سرمائے اور خرچ کے توازن کی تفہیم نہیں رکھتے۔ وہ سرکاری افسران کی رائے پر انحصار کرتے ہیں جو انہیں ناقص قسم کے سماجی بہبود کے پروگرامز، جن کا مقصد ووٹرز کی حمایت حاصل کرنا ہوتا ہے، بنا کر دیتے ہیں اور ان کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں۔

ملک کو ان وقتی اقدامات، جن کا محرک صرف اور صرف انتخابی کامیابی ہوتی ہے، کے بجائے انسانی وسائل بڑھانے میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت کو تعلیم، تربیت اور صحت کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔ تاہم ان معاملات میں راتوں رات نتائج برآمد نہیں ہوتے، اس لیے ووٹر ہنگامی بنیادوں پر متاثر نہیں ہوتا۔ جب تک ہماری معاشی پالیسیاں انتخابات جیتنے کی علت سے جان نہیں چھڑاتیں، ہم بہتری کا خواب نہیں دیکھ سکتے۔

غیر جانبدار ماہرین کی طرف سے مہیا کردہ اعداد و شمارظاہر کرتے ہیں کہ عام آدمی سے وصول کردہ ٹیکس پر دولت مند اور طاقت ور افراد کس طرح پلتے ہیں۔ ہمارے موجودہ محصولات میں 70 فیصد جبری ٹیکسز ہیں۔ اس طرح کے ٹیکسز افراد اور کاروباری اداروں کو معاشی مواقع سے بھرپور استفادہ کرنے کے قابل نہیں بناتے۔ دولت مند ٹیکس دہندگان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان افراد کا بھی بوجھ اٹھائیں جن کی سکت کم ہے، نہ کہ وہ ان کی رگوں سے نچوڑی گئی رقم پر عیاشی کرتے رہیں۔ ایف بی آر ان معاملات سے نہیں نمٹ سکتا، اس لیے ایک آزاد اور فعال این ٹی اے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں غریب افراد بھاری ٹیکسز کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں جبکہ سول، ملٹری، عدلیہ اور سیاسی خاندانوں پر مشتمل اشرافیہ طبقہ ان سے حاصل کردہ دولت کو اپنا مال سمجھ کر خرچ کرتا ہے۔ یہ افراد ٹیکس ادا نہیں کرتے یا بہت کم ادا کرتے ہیں۔ اس طرح یہ قومی مجرم قرار دیے جا سکتے ہیں۔ مہذب ممالک میں اس سے زیادہ سنگین کوئی جرم نہیں۔ اس وقت ملک کا معاشی بچاؤ صرف آئی ایم ایف سے حاصل کردہ مالی امداد اور قرضہ جات کا مرہونِ منت ہے۔ ہمارے معاشی ماہرین دولت کی پیداوار یا ٹیکس کی وصولی نہیں بلکہ قرضے حاصل کرنے کو اپنی واحد کامیابی گردانتے ہیں۔

حکومتیں بھی ان کی کارکردگی سے خوش رہتی ہیں۔ ٹیکس کی چھوٹ ملنے سے دولت مند افراد بھی حکومت کی حمایت سے دست کش نہیں ہوتے۔ یہ سارا کام مل ملا کر چلتا ہے، ملک اور اس کے غریب عوام کا خیال کیے بغیر۔

ناقص ٹیکس نظام کی وجہ سے 1977 سے لے کر اب تک کئی ٹریلین روپے کے محصولات کا نقصان کیا جا چکا ہے۔ اس دوران ملک کو بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا گیا۔ ہمارے ملک میں امیر جاگیرداروں سے زرعی ٹیکس وصول ہوتا ہے، مہنگے تحائف پر ٹیکس وصول کیا جاتا ہے اور نا ہی بھاری اثاثے رکھنے والے ریاست کے سامنے جواب دہ ہیں۔ اس حالت میں جناب شہباز شریف صاحب ملک کس طرح چلے گا؟ SIFC کی موجودگی میں کون سی جمہوریت اس کی مدد کو آئے گی؟ کون سا نظام اس کے دکھوں کا مداوا کرے گا؟ یا پھر کسی ایسے مسیحا کا انتظار ہے جو دوا دینے کے بجائے جراحت کرے؟

مضمون نگار وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ دونوں متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اور LUMS یونیورسٹی کی Visiting Faculty کا حصہ ہیں۔