کالم بعنوان ' نظام محصولات، سماجی انصاف اور معاشی ترقی' میں اس بات کا وعدہ کیا گیا تھا کہ آنے والے چند ہفتوں کی تحریروں میں ایک فلاحی ریاست کے لئے منصفانہ نظامِ محصولات کی مبادیات اور جزویات پر تفصیلاً روشنی ڈالی جائے گی۔ اس سلسلے کی پہلی قسط 'سماجی انصاف کے بغیر فلاحی ریاست کا قیام دیوانے کا خواب ہے' اور دوسری 'محنت کش طبقے کا استحصال روکنے کے لئے آرٹیکل 3 کا نفاذ ضروری ہے' کو بھرپور پذیرائی ملی۔ یہ اس سلسلے کی تیسری اور آخری قسط ہے۔
اب جبکہ ہم عام انتخابات کی جانب رواں دواں ہیں تو اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس بات کا وعدہ کریں کہ وہ منتحب ہونے کے بعد پاکستان کے پیچیدہ نظام محصولات اور ٹیکس اکٹھا کرنے والے غیر مؤثر اداروں اور ان کی انتظامیہ کو تبدیل کرتے ہوئے سادہ نظام محصولات اور ایک نئے قومی ادارے کی تشکیل کریں گی، جس میں وفاق اور تمام صوبے باہم شرکت کر سکیں۔ مل کر کام کرنے کے نا صرف بہت سے فوائد ہیں بلکہ یہ آئین پاکستان کے تحت لازم بھی ہے کیونکہ آرٹیکل 160 کے تحت جاری کردہ 7 ویں نیشنل کمیشن ایوارڈ کے مطابق صوبوں کا محصولات میں حصہ 57.05 فیصد ہے۔
اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لیے ترجیحی بنیادوں پر زیادہ وسائل مہیا کرنے کی صلاحیت کی حامل نیشنل ٹیکس اتھارٹی (این ٹی اے) کا قیام عمل میں لایا جائے۔ انتخابات کے بعد جمہوری عمل اور اتفاقِ رائے سے قومی اور صوبائی پارلیمان کے ارکان کو ایک آزاد اور خود مختار نیشنل ٹیکس اتھارٹی کے قیام کے لیے قانون سازی کی کوشش کرنا ہو گی۔ ماہرین پر مشتمل یہ اتھارٹی ٹیکس دہندگان کو قومی، صوبائی اور مقامی سطحوں پر سہولت فراہم کر سکتی ہے اور تمام مختلف محصولات کو مربوط نظام میں لا سکتی ہے۔ جمع شدہ رقوم کی تقسیم آئین پاکستان کے تحت ہی ہو گی اور اخراجات میں بہت کمی واقع ہو گی۔ اس سے عوام کو بھی سہولت ہو گی اور خود کار نظام کے تحت لوٹ مار کا سلسلہ بھی بند ہو جائے گا۔
نیشنل ٹیکس اتھارٹی کے مندرجات کو مشترکہ مفادات کونسل (آرٹیکل 153) کے تحت زیرِ بحث لایا اور اس کو قومی اقتصادی کونسل (آرٹیکل 156) کے کنٹرول میں دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان پولیس سروس اور پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کی طرز پر پاکستان ٹیکس سروس کے ملازمین ہر جگہ فرائض انجام دیں گے۔
محصولات کا نظام کسی بھی ملک کی سماجی اور معاشی پالیسیوں پر بہت گہرے اثرات مرتب کرتا ہے لیکن اس پر پاکستان میں واجب اور مناسب توجہ نہیں دی گئی۔ قومی ٹیکس پالیسی اُن افراد کی حوصلہ شکنی کرتی ہے بلکہ اُنہیں سزا دیتی ہے جو ایسے اثاثے رکھتے ہیں جو معاشی طور پر غیر پیداواری ہوتے ہیں۔ ایسے اثاثوں پر بھاری ٹیکس عائد کر کے ان کو جمع نہ کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے لیکن ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے۔
سوشل جمہوریت میں محصولات کا سب سے اہم مقصد معاشی انصاف کی فراہمی ہوتا ہے۔ اس کی بنیاد محصولات کے بوجھ کو تقسیم کرنے اور عوامی سطح پر خرچ کی جانے والی رقم کے فوائد سب شہریوں تک پہنچانے پر استوار ہوتی ہے۔ اس کی ترتیب اس طرح ہوتی ہے کہ امیر طبقوں سے زیادہ ٹیکس وصول کر کے کم آمدنی والوں اور غریب افراد پر زیادہ رقم خرچ کی جائے۔ یہی ترتیب جمہوریت کی روح رواں ہے۔ اس معاشی انصاف میں دولت کی مساوی تقسیم کے علاوہ معاشرے کے نسبتاً کمزور طبقوں، جیسا کہ عورتوں، بچوں، اقلیتوں، معذوروں اور بے روزگاروں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ تاہم، ہماری ٹیکس کی پالیسی میں یہ تمام عوامل دکھائی نہیں دیتے، اس کے باوجود ہم حقیقی جمہوریت اور معاشی انصاف کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں مختلف حکومتیں، چاہے وہ سیاسی ہوں یا فوجی، عوام سے حاصل کیے گئے محصولات کو اپنے آرام و آسائش پر خرچ کرتی ہیں۔ محصولات کے جابرانہ نظام کے ذریعے امیر افراد کو امیر تر اور غریب افراد کو غریب تر بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس بڑھتی معاشی ناہمواری سے سماجی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ماہرین معیشت ایک عجیب تضاد کا شکار ہیں۔ ایک طرف محصولات کے نظام کو بہتر بناتے ہوئے مالی خسارہ کم کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف وہ مراعات یافتہ طبقات کو دی گئی چھوٹ اور سہولیات ختم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ چھوٹ عام آدمی کو نہیں بلکہ دولت مند اور طاقت ور افراد کو حاصل ہے۔ وہ ٹیکس کے نظام میں موجود خامیاں دور کرنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتے۔
محصولات کے موجودہ نظام کے ہوتے ہوئے پاکستان معاشی ترقی اور خوشحالی کی منزل حاصل نہیں کر سکتا۔ یہ بات عجیب دکھائی دیتی ہے کہ حکمرانوں کو جب اس یک نکاتی حل کا علم ہے تو وہ اس طرف قدم کیوں نہیں بڑھاتے؟ اس کی تفہیم کوئی بہت دقیق راکٹ سائنس نہیں۔ ایک مؤثر این ٹی اے کے قیام سے نظام میں بہتری آ سکتی ہے، جس کے لئے ایک جدید ٹیکس انٹیلی جنس سافٹ ویئر ٹیکس چوری کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ تاہم اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان انکم، سرمائے اور خرچ پر محصولات کے توازن کی تفہیم نہیں رکھتے اور بلاواسطہ محصولات پر انحصار کیے ہوئے ہیں۔ ان کا بوجھ عام عوام پر بہت زیادہ ہے۔ وہ سرکاری افسران کی رائے پر انحصار کرتے ہیں جو انہیں ناقص قسم کے سماجی بہبود کے پروگرامز، جن کا مقصد ووٹروں کی حمایت حاصل کرنا ہوتا ہے، بنا دیتے اور اُن کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں۔
ملک کو ان وقتی اقدامات جن کا محرک صرف اور صرف انتخابی کامیابی ہوتی ہے، کی بجائے انسانی وسائل بڑھانے میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت کو تعلیم، تربیت اور صحت کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔ تاہم ان معاملات میں راتوں رات نتائج برآمد نہیں ہوتے، اس لیے ووٹر ہنگامی بنیادوں پر متاثر نہیں ہوتا۔ جب تک ہماری معاشی پالیسیاں انتخابات جیتنے کی علت سے جان نہیں چھڑاتیں، ہم بہتری کا خواب نہیں دیکھ سکتے۔
غیر جانبدار ماہرین کی طرف سے مہیا کردہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ کس طرح عام آدمی سے وصول کردہ ٹیکس پر دولت مند اور طاقت ور افراد پلتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق 2022-23 میں ایف بی آر کے 70 فیصد محصولات بالواسطہ تھے جن کا بوجھ امیر پر کم اور غریب پر زیادہ ہوتا ہے۔ اس طرح کے محصولات افراد اور کاروباری اداروں کو معاشی مواقع سے بھرپور استفادہ کرنے کے قابل نہیں بناتے۔ دولت مند لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان افراد کا بھی بوجھ اٹھائیں جن کے وسائل کی سکت کم ہے، نا کہ وہ ان کی رگوں سے نچوڑی گئی رقم پر عیاشی کریں۔ ایف بی آر ان معاملات سے نہیں نمٹ سکتا، اس لیے ایک آزاد اور فعال این ٹی اے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں غریب افراد بھاری محصولات کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں جبکہ سول، ملٹری، عدلیہ اور سیاسی خاندانوں پر مشتمل طبقہ اشرافیہ ان سے حاصل کردہ دولت کو اپنا مال سمجھ کر خرچ کرتا ہے۔ یہ افراد درست آمدن پر محصولات ادا نہیں کرتے یا بہت کم ادا کرتے ہیں۔ اس طرح یہ قومی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے، مگر ان کو غیر ٹیکس شدہ اثاثوں پر ایمنسٹی یعنی چھوٹ بھی دی جاتی ہے۔ مہذب ممالک میں اگر آپ واجب الادا محصولات ادا نہ کریں تو یہ سنگین جرم ہے جس کی سزا قید، جرمانہ اور جائیداد کی قرقی ہے۔ اس وقت ملک کا معاشی بچاؤ صرف آئی ایم ایف سے حاصل کردہ مالی امداد اور قرضہ جات کا مرہونِ منت ہے۔ ہمارے معاشی ماہرین دولت کی پیداوار یا محصولات کی وصولی نہیں بلکہ قرضے حاصل کرنے کو اپنی واحد کامیابی گردانتے ہیں۔ حکومتیں بھی ان کی کارکردگی سے خوش رہتی ہیں۔ ٹیکس کی چھوٹ ملنے سے دولت مند افراد بھی حکومت کی حمایت سے دست کش نہیں ہوتے۔ مل کر سب کا کام چلتا ہے، سوائے ملک اور اس کے غریب عوام کا۔
ناقص نظام کی وجہ سے 1977 سے لے کر اب تک کئی ٹریلین روپے کے محصولات کا نقصان کیا جا چکا ہے۔ اس دوران ملک کو بھاری قرضوں کے بوجھ تلے اور معاشی طور پر دیوالیہ پن کی طرف دھکیلا گیا ہے۔ ہمارے ملک میں نہ امیر جاگیرداروں سے زرعی ٹیکس وصول ہو سکتا ہے، نہ مہنگے تحائف پر ٹیکس وصو ل کیے جاتے ہیں اور نہ بھاری اثاثے رکھنے والے ریاست کے سامنے جواب دہ ہیں۔ یہ ملک کس طرح چلے گا؟ کون سی جمہوریت اس کی مدد کو آئے گی؟ کون سا نظام اس کے دکھوں کا مداوا کرے گا؟ یا پھر کسی ایسے مسیحا کا انتظار ہے جو دوا دینے کے بجائے جراحت کرے؟
اللہ کرے عام انتخابات کے بعد 2024 میں ہم انصاف پر مبنی خوشحال پاکستان کا دیرینہ نامکمل خواب پورا کر سکیں جس کے لئے منصفانہ نظام محصولات اور عوام سے لئے گئے فنڈز کو ان کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنا ہو گا- اس کا مکمل خاکہ اور اس پر عمل درآمد کا طریقہ کار [Towards Flat, Low-rate, Broad and Predictable Taxes] میں درج ہے جس پر عام بحث اور ماہرین کی رائے کے بعد مزید بہتری لائی جا سکتی ہے۔