کالم بعنوان 'نظام محصولات، سماجی انصاف اور معاشی ترقی' میں اس بات کا وعدہ کیا گیا تھا کہ آنے والے 'چند ہفتوں کی تحریروں میں ایک فلاحی ریاست کے لئے منصفانہ نظامِ محصولات کی مبادیات اور جزویات پر تفصیلاً روشنی ڈالیں گے'۔ یہ اس کی دوسری قسط ہے۔ پہلی قسط بعنوان 'سماجی انصاف کے بغیر فلاحی ریاست کا قیام دیوانے کا خواب ہے' کو بھرپور پذیری ملی۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973 کے آئین کے آرٹیکل 3 کے مطابق؛ 'ریاست ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ یقینی بنائے گی اور ہر شخص کی صلاحیت اور کام کی نوعیت کے مطابق بنیادی اصولوں کی تکمیل کو مرحلہ وار مکمل کرے گی'۔
1973 سے لے کر آج تک پاکستانی ریاست اس وعدے کی تکمیل میں ناکام رہی ہے۔ فوجی اور سول حکمرانوں کی طرف سے جو معاشی پالیسیاں بنائی گئیں، ان سے عوام کے بجائے بیوروکریسی، جاگیرداروں، صنعت کاروں اور سیاست دانوں کے محدود گروہ کو فائدہ ہوا۔ اس پاک سرزمین نے 1947 سے ہی انتہائی استحصالی طبقات کی پرورش کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکس دہندگان کی رقوم پر پلنے والا طبقہ سیاسی اورمعاشی طور پر مضبوط ہوتا گیا۔ ستم ظریفی یہ ہوئی کہ 1990 میں عدالت کی جانب سے زرعی اصلاحات کو 'غیر اسلامی' قرار دے دیا گیا۔ آج تک پاکستان کے اشرافیہ طبقے کی طرف سے عوام کا معاشی استحصال، جبر اور حق تلفی کا سلسلہ جاری ہے اور صبح سے شام تک محنت کرنے والے شہری باعزت زندگی کے حق سے محروم ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں کے معیارِ زندگی میں فرق کی لکیر گہری ہوتی جا رہی ہے۔
کارل مارکس کے اس نظریہ کہ 'ہر کسی سے اس کی صلاحیت کے مطابق کام لو اور ہر کسی کو اس کی ضرورت کے مطابق دو' کا ایک حوالہ اول اول ہمیں 'عہد نامہ جدید' میں ملتا ہے کہ 'اہل ایمان اپنے مال کو بانٹ لیتے ہیں' :4:32-35۔ اس طرح کے احکامات قرآن حکیم میں جا بجا موجود ہیں۔ یہ جملہ علی الاعلان کہتا ہے کہ ایک مثالی صورتِ حال یہ ہے کہ ہر کوئی اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے اور معاشرہ اس کی ضروریات کے مطابق اُسے وسائل فراہم کرے۔ اس مارکسی تصور کو اسلامی سوشلزم کے نظریے میں ڈھالتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے ابتدائی سیاسی دور میں وعدہ کیا تھا کہ عوام کی بنیادی ضروریات پوری کی جائیں گی (افسوس بعد میں وہ خود جاگیردار طبقے کے مفاد کے امین بن گئے)۔ درحقیقت بھٹو صاحب کے پیش نظر سابقہ سوویت یونین کا معاشی تجربہ تھا جہاں حکمران جماعت، کمیونسٹ پارٹی نے مارکس کے نظریے پر عمل کرتے ہوئے عوام کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کو ریاست کی ذمہ داری قرار دیا تھا اور اُس نظام میں ہر کوئی معاشرے کے لیے خدمات سرانجام دیتا تھا۔ روس میں تو اس کو کچھ کامیابی ہوئی لیکن ہمارے ہاں اسلامی سوشلزم کا انجام سب کے سامنے ہے۔
یقیناً کارل مارکس کے ذہن میں کچھ مخصوص حالات تھے کہ ایک ایسا معاشرہ ہو جہاں سماجی تنظیم اور ٹیکنالوجی، خاص طور پر آرٹیفیشل انٹیلی جنس، جسمانی محنت کی ضرورت کا خاتمہ کر دے اور جہاں محنت جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے نہیں بلکہ اہم ترین سماجی خدمات کا درجہ اختیار کر جائے۔ اس نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے مارکس نے کہا تھا کہ ایسے سماج میں ہر شخص کے دل میں جذبہ ہو گا کہ وہ معاشرے کی بہتری کے لئے کام کرے۔ چاہے کوئی سماجی ڈھانچہ اُسے مجبور نہ بھی کرے، اُسے دوسروں کے لیے کام کرنے میں خوشی ہو گی۔ مارکس چاہتا تھا کہ اس نعرے کا ابتدائی حصہ؛ 'ہر کسی سے اُس کی صلاحیت کے مطابق کام لو' اس طرح سمجھا جائے کہ کسی شخص سے نا صرف اُس کی بہترین صلاحیت کے مطابق کام لیا جائے بلکہ یہ بھی کہ ایک شخص اپنی صلاحیتوں کو معاشرے کی بہتری کے لیے بہترین حد تک ترقی دے۔ اسی سے انفرادی اور اجتماعی ترقی کی راہ نکل سکتی تھی۔
میرے بہت سے طلبہ پوچھتے ہیں کہ کیا آئین کی بالادستی کے ذریعے بتدریج ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ ہو سکتا ہے؟ بہت سوں کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی جائے کہ وہ سماجی اور معاشی استحصال کے خاتمے کو یقینی بنائے، تاہم بہت سے حقیقت پسند سوچتے ہیں کہ عدلیہ کی آزادی ایک دل خوش کن التباس ہے اور یہ کہ عدالت تو الیکشن کروانے اور قیمتوں میں اضافے کے خلاف اپنے فیصلے کو نافذ کرانے میں بھی ناکام رہی ہے۔ یہ حقیقت تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہئیے کہ پاکستان کے اصل حکمران تو اعلیٰ فوجی اور سول افسران، سرمایہ دار اور جاگیر دار ہیں۔ یہ لوگ سیاست کی آڑ میں عوام کا خون نچوڑتے ہیں، اس لیے ان سے کسی بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
مراعات یافتہ طبقات موجودہ استحصالی نظام کا تحفظ کرتے ہیں اور کچھ ادارے بھی اسی طاقت ور طبقے کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں۔ قزلباش وقف کیس، جس میں چیف لینڈ کمشنر پنجاب اور دیگر کو فریق بنایا گیا تھا، میں جنرل ضیاء کی بنائی گئی شریعت کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا تھا کہ زرعی اصلاحات کا قانون قرآن و سنت کے منافی ہے۔ مزدور پارٹی، قومی پارٹی، کسان کمیٹی اور دیگر تنظیموں کی طرف سے سپریم کورٹ میں دائر شدہ نظر ثانی کی اپیل کی سماعت 9 ارکان پر مشتمل بنچ نے کی لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اُس وقت پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے نظرِ ثانی کی اپیل کی مخالفت کی تھی۔ زمینداروں کی تنظیم کے اس وقت کے سربراہ شاہ محمود قریشی اور سابقہ وزیر خارجہ نے ایک مہنگے وکیل، جو 1973 کے آئین کے خالق ہونے کے دعویدار رہے ہیں، کی خدمات حاصل کیں تا کہ زرعی اصلاحات کے قانون کو ہر صورت میں روکا جا سکے۔ اس ملک میں غریب عوام کے ساتھ مذہب اور سیاست کے نام پر جو کچھ ہوتا رہا، وہی ایک حقیقت ہے، باقی سب افسانے ہیں۔
کچھ ناقدین کے مطابق ترقی پسند قوتوں کا خیال تھا کہ قزلباش کیس کی نظر ثانی کی اپیل پر شریعت کورٹ کے فیصلے کو تبدیل کر دیا جائے گا۔ 23 نومبر 2013 کو وہ کیس سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چودھری کے سامنے پیش کیا گیا۔ بہت سے سادہ لوح کسی انقلابی فیصلے کی توقع کر رہے تھے کہ بے زمین ہاریوں کی سنی جائے گی، لیکن پاکستان کے ترقی پسند مارکس کا یہ مقولہ بھول گئے تھے؛ 'عدلیہ سمیت تمام ریاستی ڈھانچہ صرف حکمران طبقے کے مفاد کا تحفظ کرتا ہے'۔ درحقیقت عدلیہ نجی ملکیت کا ہی تو تحفظ کرتی ہے۔ یہ بہرحال کوئی انقلابی ادارہ نہیں۔ تمام ادارے موجودہ سماجی اور معاشی نظام کی پیداوار ہیں۔ بہرحال قزلباش کیس کا فیصلہ مناسب نہ تھا کیونکہ اس نے زرعی اصلاحات کے نظام کو ہی ختم کر دیا جس کا حوالہ آئین میں دیا گیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی انقلابی سیاسی جماعت ہی آئین کے آرٹیکل 3 کے نفاذ کی طرف جا سکتی ہے، موجودہ ادارے اور سیاسی جماعتیں ایسا کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہیں۔
جمود کو ختم کرنے کے لئے ترقی پسند جماعتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور عوام دوست دانشوروں کو اکٹھا ہونا پڑے گا تا کہ وہ بے بنیاد سیاسی نعروں اور انواع و اقسام کے 'انقلابوں' کے بجائے معاشی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلی لانے کی کوشش کریں۔ اس کام کے لیے عوام کے مینڈیٹ کی ضرورت ہے اور عوام کا مینڈیٹ اس جمہوری نظام میں صرف روایتی جماعتوں کو ہی ملتا ہے۔ موجودہ سیاسی جماعتیں آئین کی بالادستی اور جمہوریت کے نعرے لگانے کے باوجود جمہوری نظام اور عوام کی فلاح کے ساتھ مخلص نہیں۔ یہ صرف استحصالی نظام کے محافظ ہیں۔ اس دوران یہ آپس کی کھینچا تانی میں بھی مصروف رہتے ہیں جبکہ غریب عوام بلاواسطہ اور بالواسطہ ٹیکس ادا کرتے کرتے کنگال ہو چکے ہیں۔ جاگیردار، سرمایہ دار اور دیگر طاقتور اشرفیہ کے افراد اپنی اصل آمدنی پر انکم ٹیکس اور دیگر واجبات اداکرنے کے لیے تیار نہیں۔ دوسری طرف حکمران طبقے اور افسران بالا ٹیکس دہندگان کی رقم پر پُرتعیش زندگی بسر کرتے ہیں۔
وسیع وعریض فرسودہ حکومتی نظام ملکی دولت لوٹنے یا برباد کرنے میں مصروف ہے۔ دراصل اس وقت ہمیں ایک بھرپورعملی سیاسی جدوجہد کی ضرورت ہے تا کہ برابری پارٹی پاکستان ایسی جماعت اور دیگر ہم خیال جماعتوں کا اتحاد سامنے آ سکے جو موجودہ محض کھوکھلے نعروں کی بجائے آئین کے آرٹیکل 3 کے نفاذ کا پکا وعدہ کرے اور اقتدار میں آنے کے بعد اس کا عملی نفاذ بھی کر سکے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا، تمام درد دل رکھنے والے پاکستانیوں کو آرٹیکل 3 کے نفاذ کے مطالبے سے دستبردار نہیں ہونا چاہئیے۔ قومی اور وفاقی حکومتوں کے علاوہ عدالت عظمیٰ کی توجہ اس طرف ہر وقت مبذول کرواتے رہنا چاہئیے۔