سرجریاں اور معطلیاں جھیل کر 1973 کا آئین 50 سال کا ہو گیا

مختلف اوقات میں ترامیم کے نام پر اس فرزند ریاست کے کئی آپریشن بھی ہو چکے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جس طرح ڈاکٹر ایک مریض سے یہ کہتے ہوئے اسے آپریشن کی اذیت سے دوچار کرتا ہے کہ اگر مریض کی زندگی بچانی ہے تو آپریشن تو کرنا ہی پڑے گا بعینہ آئین دراز کی بھی ترامیم کے نام پر کئی سرجریاں ہو چکی ہیں۔

سرجریاں اور معطلیاں جھیل کر 1973 کا آئین 50 سال کا ہو گیا

ریاست پاکستان کا آئین نامی بچہ زندگی کی 50 بہاریں دیکھ چکا ہے۔ یہ عمر رسیدہ آئین بہت سے سرد گرم دیکھتا ہوا آج جس حال میں ہمارے پاس ہے وہ بھی غنیمت ہے۔ اس سے قبل آئین کے دو بھائی کم سنی میں ہی رخصت ہو گئے تھے۔ ایک کی پیدائش 1956 کے تیسرے مہینے میں ہوئی اور وہ صرف ڈھائی سال کی مختصر عمر میں ہی چل بسا۔ اس پر مارشل لاء کا حملہ ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ جانبر نہ ہو سکا۔ اس کی رخصت کے تقریباً 4 سال بعد 1962 میں دوسرے دستور کی پیدائش ہوئی۔ مشیت ایزدی کہ وہ بھی صرف 7 سال کی عمر میں 1969 میں زندگی کی بازی ہار گیا اور صحن گلشن ایک بار پھر نونہال دستور سے خالی ہو چکا تھا۔

اس کے بعد ریاست کے تیسرے نور نظر آئین کی پیدائش 1973 میں ہوئی۔ اس کا پورا نام آئین دراز ہونا چاہیے تھا کیونکہ جس طرح عمر دراز کا مطلب لمبی عمر والا شخص ہوتا ہے اسی طرح اپنے دیگر دو بھائیوں کی نسبت اتنی لمبی عمر پانے والے دستور کا نام آئین دراز ہی ہونا چاہیے۔ خیر یہ ذوالفقار علی بھٹو کا زمانہ تھا جنہوں نے تمام مکاتب فکر کی مضبوط آرا، مشاورت اور کہنہ مشقی سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے اس آئین کو تخیلق کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی اس وقت بائیں بازو کی مضبوط جماعت بن کر ابھر چکی تھی جبکہ ریاست پاکستان سیاسی کمزوری اور دستوری نقاہت کی وجہ سے اپنا ایک حصہ کھو چکی تھی۔ مشرقی پاکستان اب بنگلہ دیش بن چکا تھا اور اب اسی نام سے سنا اور پکارا جانے لگا تھا لیکن یاران سیاست کسی خفت، پشیمانی یا افسردگی کے بغیر معاملات زندگی اور امور بندگی چلا رہے تھے۔ کاروبار سیاست جوں کا توں رواں تھا، فرق تھا تو محض اتنا کہ آئین 1973 کی پیدائش ہو چکی تھی۔

ویسے تو آئین کسی بھی آزاد ریاست کا وہ شہ زور ہوتا ہے جس کی موجودگی اور طاقتوری کی وجہ سے تمام ریاستی اداروں اور سرکاری دفاتر میں امور مملکت اور معاملات ریاست خوش اسلوبی سے بخوبی انجام پا رہے ہوتے ہیں، اس کی جتنی اچھی پرورش ہو گی اتنی ہی اچھی صحت ہو گی اور جتنی اچھی صحت ہو گی ریاست کے معاملات اتنے ہی اچھے انداز میں چلیں گے لیکن پنجاب، سندھ، بلوچستان اور پختونخوا سمیت ملک بھر کے میدانی و پہاڑی علاقوں، صحراؤں، جنگلوں اور دریاؤں کی فراوانی کے باعث صحت افزا آب و ہوا، زرخیز زمین، معدنیات سے بھر پور پہاڑی سلسلوں، وسائل و ذخائر اور چاروں موسموں کی نعمت کے باوجود اس آئین پہ وہ عہد شباب نہ آ سکا، اس طرح ٹوٹ کر جوانی نہ آ سکی اور اس کو وہ تندرستی نصیب نہ ہو سکی جس کے بارے غالب نے کہا تھا؛

تندرستی ہزار نعمت ہے

شاید یہی وجہ رہی ہو گی کہ آئین کی کمزور صحت اور لاغر پن کی وجہ سے ریاست کے اداروں میں کام اس مستعدی، چستی اور برق رفتاری سے انجام نہ پا سکا جس کی اس ریاست کو ضرورت تھی۔ نتیجتاً ترقی کا پہیہ ناتواں ہاتھوں سے چلنے کی وجہ سے مطلوبہ رفتار نہ پکڑ سکا۔ اس آئین کو بھی اپنے جنت مکانی بھائی کی طرح کم سنی میں ہی مارشل لاء جیسا مہلک مرض لاحق ہوا جو لمبے عرصے کے علاج معالجے کے بعد بہرحال ختم ہو گیا اور آئین تقریباً 11 سال بعد قدرے رو بہ صحت ہوا لیکن اس مہلک مرض کے حملے کی وجہ سے جو عہد شباب اور ایام جوانی اس آئین پر آنے چاہیے تھے وہ نہ آ سکے۔

ایک غریب ملک کے گلی محلوں میں پلنے والا ریاست پاکستان کا آئین نامی یہ بچہ جیسے تیسے عمر کی سیڑھیاں چڑھتا گیا اور بڑا ہوتا گیا۔ گو عین شباب میں ایک بار پھر اسے معطلی جیسی نیم غنودگی میں ایک لمبا عرصہ گزارنا پڑا جس نے ایک بار پھر اس کی صحت کو بری طرح متاثر کیا مگر سخت جان آئین پھر بھی کسی نہ کسی طرح بچا رہا اور زندگی رواں دواں رہی۔ مگر بد قسمتی سے اس دوران ' نظریہ ضرورت' جیسا موذی وائرس اس پر حملہ آور ہو چکا تھا جس نے اس کی صحت کو بری طرح نقصان پہنچایا اور ہنوز یہ صحت بگڑتی سنبھلتی صورت حال سے دوچار ہے۔

مختلف اوقات میں ترامیم کے نام پر اس فرزند ریاست کے کئی آپریشن بھی ہو چکے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جس طرح ڈاکٹر ایک مریض سے یہ کہتے ہوئے اسے آپریشن کی اذیت سے دوچار کرتا ہے کہ اگر مریض کی زندگی بچانی ہے تو آپریشن تو کرنا ہی پڑے گا بعینہ آئین دراز کی بھی ترامیم کے نام پر کئی سرجریاں ہو چکی ہیں اور ہر بار یہی کہہ کر آپریشن یا ترمیم کی جاتی رہی کہ آئین کو بچانے اور ریاستی بیماریوں کو دفنانے کے لئے ریاست کے وسیع تر مفاد کے لئے یہ ترمیم، یہ سرجری بہت ضروری ہے اور اس پر بیچارا آئین دراز کچھ بولا اور نا ہی اس کی ماں یعنی ریاست بی بی نے کبھی کچھ کہا۔ نئے دور میں اس عمر رسیدہ آئین کی تشریح کے نام پر کئی بار تضیحک بھی کی جاتی رہی ہے لیکن جیسے تیسے یہ اپنی سبکی چپکے سے برداشت کرتا رہا کہ چلو سانس ابھی باقی ہے۔

اب خیر سے یہ اپنی زندگی کی 50 ویں بہار دیکھ رہا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ اس کی صحیح معنوں میں عمر دراز کرے اور اللہ اس پر رحم فرما کر اسے مزید آپریشنز یا ترامیم سے محفوظ رکھے۔ مارشل لاء، سول مارشل لاء یا نظریہ ضرورت وغیرہ جیسی تمام مہلک اور جان لیوا بیماریاں اور نیم غنودگی یا کومہ میں پہنچانے والے حادثات سے محفوظ رکھے، آمین۔ لیکن سنا ہے آج سے 13 سال پہلے اپریل 2010 میں آخری سرجری یعنی اٹھارھویں ترمیم میں ڈاکٹر آپریشن کے بعد تولیہ اندر ہی بھول گئے تھے جس کے بارے اب ڈیوٹی ڈاکٹروں کی رائے بن رہی ہے کہ دوبارہ آپریشن کر کے وہ تولیہ نکالا جائے اور دوبارہ ٹانکے لگائے جائیں۔ یہ سرجری جو ان کے نزدیک اتنے سالوں سے ابھی تک مکمل نہیں ہو سکی اسے مکمل کیا جائے۔

1973 کا آئین اس ریاست کی زندہ بچنے والی اکلوتی اولاد ہے جس کے لئے دعا گو ہیں کہ خیر و عافیت کی لمبی زندگی گزارے، جوانیاں مانے اور اپنی ماں ریاست بی بی کی آنکھوں کا تارا بنا رہے۔ آمین!

شرافت علی عامر صحافی ہیں اور لاہور پریس کلب کے ممبر ہیں۔