پچھلے کالم بعنوان 'نظام محصولات، سماجی انصاف اور معاشی ترقی' میں اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ آنے والے چند ہفتوں کی تحریروں میں ایک فلاحی ریاست کے لئے منصفانہ نظامِ محصولات کی مبادیات اور جزوئیات پر تفصیلاً روشنی ڈالیں گے۔ یہ اسی سلسلے کی پہلی قسط ہے۔
پاکستان نے اپنے دستیاب وسائل سے بھرپور اور بامقصد فائدہ اٹھایا ہے یا نہیں، یہ ایک بنیادی سوال ہے۔ پاکستان قدرتی اور انسانی وسائل سے مالامال ہے۔ قدرتی اور انسانی وسائل کا بڑا حصہ آج بھی مکمل طور پر معاشی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کے لئے استعمال نہیں ہوا، نا ہی کسی حکومت نے قومی دولت اور ذرائع آمدنی کی منصفانہ تقسیم کی طرف مناسب توجہ دی۔ اس کی وجوہات جاننا بہت اہم ہے۔ ایک طرف تو ہم نے ایٹمی طاقت بننے کے لیے تمام ضروری ٹیکنالوجی اور وسائل کو بروئے کار لا کر دکھایا اور دوسری طرف 60 ملین کے قریب لوگوں کو ابھی تک خط غربت سے باہر نہیں لا سکے اور نا ہی ایک اقتصادی طاقت بن سکے جس کے بغیر اقوام عالم میں آپ کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔
اس کا مطلب ہے کہ مسئلہ ترجیحات اور درست سمت کا ہے، نا کہ وسائل کی کمی کا۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ اگرتمام لوگوں کو بنیادی اور مساوی سہولتیں دی جاتیں، تعلیم کا نظام درست کیا جاتا اور روزگار کا بندوبست کیا جاتا تو پاکستان ایک طاقتور اقتصادی ملک ہوتا اور اتنے لوگ سطح غربت سے نیچے نہ رہ جاتے۔
لوگوں کی معاشی حالت کو بہتر کرنا اور ان کو روزگار دینا آئین پاکستان کے آرٹیکل 3 کی روح سے ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ معاشی ترقی کا انحصار انصاف کے نظام سے الگ نہیں۔ اگر استحصال جاری رہے جیسا کہ ہماری ریاست میں ہے تو کبھی بھی معاشی ترقی کے اہداف کو پورا نہیں کیا جا سکتا۔ تعلیم سے لوگوں کو اس قابل بنایا جا سکتا ہے کہ وہ سائنس، ٹیکنالوجی اور فنی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہوں، معاشی شعور کے حامل ہوں، دوسروں کے حقوق کی پاسداری کریں اور من حیث القوم ایک مضبوط معاشرے کی بنیاد رکھ سکیں۔
استحصال کا مطلب محض رقوم کا کم مختص کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ تمام شعبہ جات میں مکمل انصاف کا نظام قائم ہو سکے۔ معاشرے میں انصاف کا فقدان ہر برائی کا باعث بنتا ہے۔ انصاف کے فقدان کے نتیجے میں طاقتور طبقے ہر ایک پر فوقیت حاصل کر لیتے ہیں۔ وسائل کا فائدہ اگر صرف چند ہاتھوں تک محدود رہ جائے تو معاشرے میں ناہمواری کے باعث غربت، معاشرتی بے اطمیںانی، بد حالی، دہشت گردی، لا قانونیت اور بد امنی ضرور پیدا ہوتی ہے۔ اس کو پاکستان سے بہتر اور کون جان سکتا ہے؟ جمہوریت کا نظام لازم ہے مگر معاشی انصاف کے بغیر نہیں۔ لوگوں کو اس بات سے آگاہی ہونی چاہئیے کہ احتساب کا تعلق انصاف کے ساتھ ضروری ہے۔ اگر منتخب لوگ احتساب کا نظام رائج نہ کریں تو پھر جمہوریت کا مقصد کیا ہے؟
لوگوں تک معاشی اور معاشرتی انصاف نہ پہنچے تو پھر ایوان اقتدار میں بیٹھ کر جمہور کی کیا خدمت کی جا سکتی ہے؟ فلاحی ریاست کا مقصد کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟
معاشی ترقی کا تمام تر انحصار اس بات پر ہے کہ ہم کیسے تمام لوگوں کو صحت، تعلیم اور دوسری بنیادی سہولتیں دے سکتے ہیں اور ذرائع پیداوار میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ دفاعی شعبے سے لے کر دیگر شعبوں تک انسان اہم ہونا چاہئیے۔ آج کل ایسی تعلیم کا بندوبست ہونا چاہئیے جو خود روزگار کا موقع دے سکے۔ گھر بیٹھ کر لوگ انٹرنیٹ پر کام کر کے اتنا کما سکتے ہیں کہ لوگوں کو بہتر روزگار اور پاکستان کو کثیر زرمبادلہ مل سکتا ہے۔ اس کے لئے ایسے تعلیمی اور فنی ادارے چاہئیں جو نوجوانوں اور جوان بے روزگاروں کو تربیت دے سکیں۔
حکومتی اور نجی اداروں میں کام کرنے والوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ حکومتی اور نجی اداروں میں کم تنخواہیں لوگوں کو بدعنوانی پر مجبور کرتی ہیں۔ نجی شعبہ میں غیر تربیت یافتہ لوگوں سے کام لیا جاتا ہے اور انتہائی کم تنخواہ دی جاتی ہے۔ ایسے نظام سے مالکان امیر ہو جاتے ہیں مگر ملازمین کبھی آگے نہیں بڑھ پاتے۔ پاکستان میں نا تو ہر ایک کے لیے درست تعلیم و تربیت کا نظام ہے اور نہ سب کے لئے پنشن اور روزگار۔ اگر حکومتیں سب کے لئے بنیادی سہولتوں کی فراہمی بھی نہیں کر سکتیں اور کسانوں کے لئے تربیت کے ادارے قائم نہیں کر سکتیں تو پھرمحصولات کا کیا جواز؟
جمہوری معاشروں میں عوام سے حاصل کردہ رقوم کو ایک ایسی ریاست بنانے کیلئے لگایا جاتا ہے جس کو فلاحی کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں فلاحی ریاست کے ساتھ اسلامی کا اضافہ بھی کر دیا جاتا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ وطن عزیز میں اسلامی اقدار کا لحاظ ہے اور نا ہی مغربی فلاحی ریاست کا خیال۔ محض لفاظی سے تو کوئی ریاست فلاحی نہیں بن جاتی۔ اس کے لئے عمل سے اس کا قیام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
معاشی ترقی اور ایک باعزت قوم بننے کے لیے فلاحی ریاست کا قیام ضروری ہے۔ پاکستان میں قدرتی و انسانی وسائل کی کوئی کمی نہیں، انصاف کی کمی ہے۔ وسائل کی جائز تقسیم کی کمی ہے۔ اچھی حکومت کی کمی ہے۔ انتظامی اور سیاسی ڈھانچے میں بنیادی اصلاحات جہاں عوام کے لئے فیصلے اور کام ہو سکیں، کی اشد ضرورت ہے۔ انصاف کے نظام کو مکمل طور پر فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو ٹیکس کے ظالمانہ نظام سے نجات دلانے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو صحت اور تعلیم کی سہولیات مفت ملنی چاہئیں۔ ہر ایک کے لئے روزگار اور کام کے مطابق معاوضے کا انتظام ہونا چاہئیے۔ ہر ایک کے لئے ایک مناسب گھر، پینے کا صاف پانی اور اچھی ٹرانسپورٹ کا بندوبست ہونا چاہئیے۔
یہ ہیں معاشی ترقی کی سب مبادیات۔ بجلی، پانی، گیس، سڑکیں تمام ضرورتیں ہیں۔ معاشی ترقی مضبوط روزگار کا انتظام کرتی ہے۔ صنعتی اور زرعی ترقی لوگوں کو روزگار میسر کرتی ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں کو ان تمام کاموں کو بیک وقت شروع کرنا چاہئیے اور اس میں نجی شعبے کو بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہئیے۔