یونینز تقسیم، پریس کلبز فلاحی ادارہ، کارکن صحافی کہاں جائیں؟

یونینز تقسیم، پریس کلبز فلاحی ادارہ، کارکن صحافی کہاں جائیں؟
عمران خان حکومت میں اخباری صنعت دباو میں ہے اور حکومت صحافت کا گلا دبانے کے درپے ہے۔ جس کا سارا ملبہ کارکن صحافیوں پر گر رہا ہے۔ میڈیا ہاوسز حکومتی ہتھکنڈوں سے نمٹنے کے بجائے اداروں کی ڈاون سائزنگ کے نام پر کارکنوں کو ملازمتوں سے فارغ کر رہے ہیں۔ عمران خان کے برسراقتدار آنے سے اب تک ہزاروں کارکن بے روزگار کر دیئے گئے ہیں اور جو کارکن کام کر رہے ہیں وہ تنخواہوں سے محروم ہیں۔ کئی اداروں میں آٹھ سے چھ ماہ تک تنخواہیں لیٹ ہیں۔ میڈیا مالکان یہ جواز بناتے ہیں کہ اداروں پر حکومت کا شدید دباو ہے۔ اشتہارات کی ادائیگیاں نہیں کی جارہی ہیں۔ دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ میڈیا ہاوسز کو ادائیگیاں کی جارہی ہیں اور حکومت میڈیا کی آزادی پر یقین رکھتی ہے۔ ویج بورڈ ایوارڈ کے نفاذ میں حکومتی سنجیدگی دیکھ کر بھی میڈیا ہاوسز نے ڈاون سائزنگ شروع کر دی ہے۔ زیادہ تر ریگولر ملازمین سے چھٹکارا حاصل کیا جا رہا ہے اور ان کی جگہ ڈیلی ویجز ملازمین رکھے جا رہے ہیں، تنخواہیں نہیں دی جا رہی ہیں۔

اس ساری صورتحال سے کارکن صحافی اور میڈیا ورکرز شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ روزمرہ کے اخراجات سمیت بچوں کی فیسیں اور دیگر ضروریات زندگی سے محروم ہو گئے ہیں۔ ان مشکل حالات میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، آل پاکستان نیوز پیپرز ایمپلائز کی تنظیم سمیت بے شمار میڈیا کی تنظیمیں اور پریس کلبز خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یونین لیڈر پرویز شوکت، رانا عظیم، افضل بٹ (قائد صحافت) سمیت منظر سے غائب ہیں۔ پی ایف یو جے پانچ حصوں میں تقسیم ہے، ہر گروپ کے لیڈر ذاتی مفادات کے لئے یونین کا استعمال کرتے ہیں، کارکنوں کی لڑائی پر خاموش رہتے ہیں۔ حالانکہ پی ایف یو جے کی شاندار روایات ہے۔ ماضی میں پی ایف یو جے کے لیڈروں نے کارکنوں کے مسائل، حقوق، جمہوریت کی بحالی کے  لئے بے مثال جدوجہد کی ہے، پابند سلاسل بھی رہے مگر جدوجہد جاری رکھی۔

آج کچھ نمائشی اور مصنوعی خود ساختہ یونین لیڈروں نے پی ایف یو جے کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ پی ایف یو جے کی تقسیم در تقسیم سے کارکن صحافی بے یارومدگار ہو گئے ہیں، پریس کلبوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ کارکنوں کے حقوق پر بات کرنا ان کا کام نہیں ہے۔ بات درست ہے۔ اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے صدر شکیل قرار اس کے باوجود کارکنوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ دوسری طرف شکیل قرار بے روزگار کارکنوں کے لئے متبادل روزگار کے لئے ڈیجٹیل میڈیا کی تربیت کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں جو قابل تحسین عمل ہے۔ اس میں مجرمانہ کردار یونین کے لیڈروں کا ہے۔ جنہوں نے پراپرٹی ڈیلری کا کام تو بڑے زور و شور سے کیا ہے۔ افضل بٹ اور پرویز شوکت نے اپنی ہاوسنگ سوسائٹیز تک لانچ کر کے پلاٹ بیچے ہیں اور کروڑوں کے اثاثے بنائے ہیں۔ افضل بٹ کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے برطانیہ میں جائیدادیں خرید رکھی ہیں۔ سیاستدانوں کا احتساب کیا جا رہا ہے تو صحافتی کرپٹ سیاستدانوں کا بھی احتساب ضروری ہے۔

اسلام آباد میں کئی میڈیا مالکان ہیں جنہوں نے یونین لیڈروں سے ملی بھگت کر کے سرکاری زمینوں پر قبضہ کیا ہوا ہے اور اربوں کے مالک ہیں۔ مگر کارکنوں کو تنخواہیں نہیں دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ کرپٹ، ان پڑھ اور جعلی صحافی قیادت کی بدولت ہو رہا ہے۔ سنیئر صحافی بھی چپ سادھے ہوئے ہیں۔ انہیں چپ کا روزہ توڑنے کی ضرورت ہے۔ کارکنوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوئے ہیں تو یہ آفت ان پر بھی آسکتی ہے۔ کارکنوں کے مسائل پر متفکر صحافی دوستوں اسلام آباد سے طاہر جعفری، لاہور سے اقبال جھکڑ، رانا تحمل علی، طاہر گوندل، سندھ اور کراچی سے ارشاد خان اور سندھ یونین آف جرنلسٹس کے صحافیوں سمیت ملک کے دیگر شہروں کے ان صحافیوں کو خراج تحسین ہے جنہوں نے نیشنل یونین آف جرنلسٹس پاکستان کی بنیاد رکھتے ہوئے پی ایف یو جے کی ماضی کی روایات کے احیا کے لئے قدم اٹھایا ہے۔

نیشنل یونین آف جرنلسٹس وقت کی ضرورت ہے۔ میڈیا کارکنان کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے اور اتحاد کے لئے ایک غیرجانبدار حقیقی پلیٹ فارم کی ضرورت تھی جو نیشنل یونین آف جرنلسٹس پاکستان کی شکل میں کارکنان کو فراہم کر دیا گیا ہے۔ کارکن صحافی اب جعلی، مفادات پرست اور کرپٹ یونین لیڈر کو مسترد کرچکے ہیں۔ اب نئی اور پرعزم قیادت سامنے آنے سے مسائل کا حل نکلے گا۔ کارکن صحافی آگے آئیں اور اپنی یونین کو تعمیر کریں۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔