کچھ روز قبل مختلف وٹس ایپ گروپس میں ایک نیوز گردش کر رہی تھی کہ ڈی پی او قصور جناب طارق عزیز نے پتوکی سے تعلق رکھنے والے ایک 'صحافی' شیخ قاسم کو پابند سلاسل کر دیا ہے۔ موصوف ڈی پی او صاحب کی کھلی کچہری میں گئے تھے اور وہاں سے انہیں حوالات کی ہوا کھانی پڑی۔ خیر میں عام طور پر ایسے معاملات میں دخل نہیں دیتا کیونکہ کچھ نامکمل علاقائی صحافیوں کو اعتراض ہوتا ہے کہ میرے دخل دینے سے ان کی چودھراہٹ قائم نہیں رہتی۔ سونے لگا تو جناب ندیم مصطفائی اور جناب تنویر چودھری کی کال آئی کہ ہمارے پریس کلب کا صحافی پچھلے 8 گھنٹے سے حوالات میں ہے، کچھ کریں۔
میں نے ڈی پی او صاحب کے پی آر او ذوالفقار علی صاحب سے رابطہ کیا جو پیارے بھائی اور بذات خود ایک علم دوست، پڑھے لکھے اور متین انسان ہیں۔ ان سے عرض کیا کہ رات کے اس پہر ڈی پی او صاحب تک میری یہ گذارش پہنچائیں کہ مذکورہ صحافی کو رہا کرنے کا حکم دیں کیونکہ نام نہاد صحافت کی اتنی سزا کافی ہے۔ ہوا یہ تھا کہ موصوف نے 20 ہزار روپے کا تازہ تازہ کارڈ لیا تھا اور ایک ناکے پر پولیس کی جانب سے روکے جانے پر پولیس اہلکاروں سے اس بات پر جھگڑ پڑے تھے کہ ایک 'صحافی' کو روکنے کی جرات کیوں کی؟
ڈی پی او صاحب نے مہربانی فرما کر اسے رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ میں نے رات کے پچھلے پہر چونیاں پہنچ کر مذکورہ 'صحافی صاحب' کو حوالات سے نکلوایا۔ ان سے تحریر لکھوانی تھی تو انہیں کہا کہ لکھو۔ کہنے لگے کہ لکھنا تو مجھے آتا ہی نہیں۔ میں نے کہا کس اخبار یا چینل کے نمائندے ہو تو کہنے لگے ' روزنامہ طاقت' کا۔ میں نے کہا بھائی صرف پریس کارڈ میں طاقت نہیں ہوتی، یہ کسی نے آپ کو غلط بتایا ہے۔ آپ نے اپنے 20 ہزار روپے اور صحافی کمیونٹی کی عزت پامال کر ڈالی ہے۔ براہ مہربانی صحافت کا شوق ہے تو پہلے لکھنا پڑھنا سیکھیں۔ ایسے کارڈز چلا چلا کر کیوں اپنی اور اس کمیونٹی کی ذلت کا سامان کرتے ہو؟ جاؤ میرا بھائی انگوٹھا لگاؤ اور گھر جاؤ۔
صحافی وبا کی مانند پھیل رہے ہیں۔ صرف صحافت ہے جو سکڑتی جا رہی ہے۔ ایس ایچ او سٹی پتوکی اسلم بھٹی بھائی بھی بہت شکریہ جنہوں نے اس سلسلے میں رہنمائی کی۔