بدقسمتی سے پاکستان میں کبھی بھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی کہ محصولات (ٹیکس اور غیر ٹیکس) کے حصول کی کوئی درست، معقول اور قابل عمل قومی پالیسی وضع کی جائے، تاکہ کاروبار کی کارپوریٹائزیشن (corportazation) ہو، صنعت کاری کی حوصلہ افزائی کی جا سکے، جس سے پائیدار اقتصادی ترقی کی راہ ہموار ہو اور اس سے ہی معیشت کی دستاویزی شکل بھی ممکن ہے۔
کسی بھی سائنسی طریقہ کار کے بغیر اور غیر معقول طور پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو طے شدہ اہداف دینے سے پوری معیشت دباؤ کا شکار رہتی ہے۔ اس کے حصول کے لئے نا صرف پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والوں کو تنگ کیا جاتا ہے، بلکہ ظالمانہ ٹیکسز کا اصل بوجھ بنیادی طور پر معاشرے کے کمزور طبقوں پر منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اس نظام محصولات نے معاشی اور معاشرتی نا انصافی کی بد ترین صورت حال کو جنم دیا ہے۔
ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے میں یکے بعد دیگرے حکومتوں کی مسلسل ناکامی، غیر ٹیکس اثاثوں کے خلاف کریک ڈاؤن نہ کرنے اور عوام کے ٹیکس کے پیسے سے فضول خرچی کے ساتھ ناجائز کمائی گئی دولت سے سیاسی طاقت کے حصول نے پاکستان کو 'قرضوں کی دلدل' میں دھکیل دیا ہے۔ ہم اس سے باہر نکل سکتے ہیں، بشرطیکہ ایسی قیادت میسر ہو جو پاکستان کو ایک مساوی ریاست میں بدلنے کے لیے عملی اصلاحاتی ایجنڈے پر عمل پیرا ہونے کے لیے غیر متزلزل عزم رکھتی ہو، یعنی سب کے لیے انصاف کے ساتھ حقیقی سماجی جمہوریت کا قیام جس کا ایجنڈا ہو۔
پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز متعدد اور سنگین ہیں۔ ہم قرضوں کے مہلک جال میں پھنسے ہوئے ہیں، لیکن ٹیکس کی حقیقی صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے اس دلدل سے باہر نکلنے اور فضول اور غیر پیداواری اخراجات کو روکنے کی کوئی خواہش نہیں ہے۔ ہمارا کل قرضہ جی ڈی پی کا تقریباً 77 فیصد ہے اور یہ حکمرانوں کی بے حسی کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔
پچھلی حکومت اور نگران سیٹ اپ نے قرضوں میں کھربوں روپے کا اضافہ کیا۔ قرضوں کے بوجھ میں موجودہ حکومت کچھ ماہ میں ہی 5 ٹریلین کا خوفناک اضافہ کر چکی ہے۔ موجودہ حکومت پہلے کے قرضوں کی ادائیگی اور مالیاتی فرق کو پر کرنے کے لیے بہت زیادہ قرض لے رہی ہے۔ اس نے صرف قرض کی خدمت کو 8.5 ٹریلین روپے تک پہنچا دیا۔ مالی سال 2015-16 میں یہ صرف 1.5 ٹریلین تھا۔ اس سال مالیاتی خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح اختیار کرے گا۔ مزید مہنگا قرضہ تو لیا ہی جائے گا، مگر عام عوام پر ٹیکسز کا لامتناہی بوجھ بھی ہو گا اور افراط زر کی شرح 25 فیصد بھی۔ ان حالات میں کیا کاروبار ہو گا؟ حکومت سب سے زیادہ قرضہ لینے والی پارٹی ہو گی اور وہ بھی 25 سے 30 فیصد کے درمیان، تو ٹیکسز کا زیادہ حصول بھی تباہ کن ہوگا۔ سب سود کی ادائیگی میں جائے گا۔
موجودہ حالات میں ہر سال لاکھوں افراد کو ملازمتیں فراہم کرنے کا کام مشکل ترین ہو گا۔ ہمیں اوسطاً صرف نوجوانوں کے لیے سالانہ 2 سے 3 ملین ملازمتیں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کام کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ ایک طویل عرصے تک معیشت 8 فیصد سے 10 فیصد سالانہ کی شرح سے ترقی کرے۔ اس کے لیے ہمیں جی ڈی پی کے 20 فیصد کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ یہ چیلنج ہمارے لیے معاشی ترقی کا بہترین موقع بھی ہے۔ ملازمت کے متلاشیوں کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہیں۔ انہیں تعلیم اور ہنر فراہم کرنا اور مماثل ملازمتیں پیدا کرنا ہی اصل چیلنج ہے۔ پیداواری سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے 'ٹیکس کی تفویض' سے کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے، جو کہ ہماری معاشی ترقی کا حقیقی انجن ثابت ہو گا۔ مروجہ مایوسی حکمرانوں اور مالیاتی منتظمین کے رویے کی وجہ سے ہے، جو سوچنے کے لیے 'حکم' یا 'تربیت یافتہ' سے آگے نہیں سوچ سکتے۔ وہ ہمیں بیمار معیشت کی علامات کے بارے میں بتاتے رہتے ہیں، لیکن بیماری کی اصل وجوہات کو دور کرنے کی کوشش تو دور کی بات، اس کے لیے حل بھی پیش نہیں کرتے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
پاکستان میں تیز رفتار معاشی نمو کے لیے ایک مؤثر اور سادہ ٹیکس ماڈل وضع کرنے کی اشد ضروت ہے۔ اس کے لیے ٹیکس قوانین، طریقہ کار اور نفاذ کے عمل میں موجود تمام رکاوٹوں کے تجزیاتی مطالعہ کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑی پریشانی وفاقی اور صوبائی دونوں سطحوں پر ٹیکس کے نظام میں بدعنوانی، اور بے مثال اعلیٰ سطح کی بدانتظامی ہے۔ ہمیں صورت حال کے تدارک کے لیے حل تجویز کرنے اور ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور انتہائی ضروری ملازمتوں کو یقینی بنانے کے لیے ٹیکس لگانے اور کاروباری ترقی کو فروغ دینے کے لیے عوامی بحث کی ضرورت ہے۔
موجودہ ٹیکس نظام ہی متوازی معیشت کی حوصلہ افزائی کی بنیادی وجہ ہے۔ اس کی اصلاح ایک غلط فہمی ہے۔ اس ضمن میں لفظ 'اصلاحات' صرف ایک بے کار مشق ہے جو محض فضول خرچی ہے۔ چاہے جتنے بھی ٹیکس ریفارم کمیشنز یا کمیٹیاں تشکیل دی جائیں، اس کا نتیجہ صفر ہی نکلے گا۔ اس کا علاج موجودہ جابرانہ ٹیکس نظام کو ختم کرنے اور ایک سادہ کم شرح کے نظام پر منتقل کرنے میں ہے، جو عملی، ترقی پر مبنی، قابل عمل اور تمام سٹیک ہولڈرز کے لیے قابل قبول ہو۔ اس کم شرح ٹیکسیشن کے تحت، وہ لوگ جو ٹیکس نیٹ میں نہیں آتے یا درست انکشافات سے گریز کرتے ہیں، وہ رضاکارانہ طور پر ادائیگی کرنے کا انتخاب کریں گے، کیونکہ شرح کم سے کم ہے اور تعمیل کی لاگت تقریباً صفر ہو گی۔ ٹیکس کے نظام کا مقصد معاشی ترقی کی ترغیب دینا ہے، نا کہ اس کو روکنا، جیسا کہ موجودہ نظام کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں؛ ایف بی آر کی تنظیم نو کے بجائے ہمیں نیشنل ٹیکس ایجنسی کی ضرورت ہے
پاکستان کالے دھن اور ٹیکس چوری سے نمٹنے میں ہمیشہ ناکام رہا ہے۔ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں ان مسائل سے نمٹنے کے بجائے مختلف قوانین اور ایمنسٹی سکیموں کے ذریعے ٹیکس چوروں کو معاف اور خوش کرتی رہی ہیں۔ نتیجہ واضح ہے، ایک مسلسل بڑھتی ہوئی غیر رسمی معیشت۔ زیر زمین معیشت کا موجودہ جمع شدہ حجم تقریباً دستاویزی معیشت کے حجم کے برابر ہے، اگر کچھ زیادہ نہیں۔ اگر ماضی میں ٹیکس ادا کرنے میں ناکام رہنے والے تمام افراد کو 10 فیصد کے فلیٹ ریٹ پر ٹیکس کی پیشکش کی جائے، تو صرف ایک سال میں 50 ٹریلین روپے جمع کر لیے جائیں گے اور پھر مستقبل میں یہ اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہوں گے جو کہ اس وقت جمع کیے گئے ہیں۔ مالی سال 2022-23 میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے محض 7.16 ٹریلین روپے اکٹھے کیے تھے، دستاویزی جی ڈی پی کا محض 8.5 فیصد جبکہ ہم آسانی کے ساتھ غیر دستاویزی معیشت کو شامل کر کے 34 ٹریلین روپے اکٹھے کر سکتے ہیں مگر اس کے لیے نظام محصولات کو مکمل طور پر تبدیل کرنا ہو گا۔
ہمارے مخصوص سماجی و اقتصادی حالات اور عوام کی ذہن سازی کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹیکس کا نظام جو پاکستان کے لیے ہموار طریقے سے کام کرے گا، وہ کچھ سالوں تک کم شرح کا ہونا چاہیے۔ تمام ٹیکسوں کو ایک ہی ٹیکس میں ضم کر کے عوام کو مکمل یقین دہانی کرائی جائے کہ وہ کسی بھی قسم کی اذیت سے پاک ہوں گے اور جمع ہونے والی رقم ان کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جائے گی۔ عوام کے فنڈز کا ضیاع اور حکمرانوں کی جانب سے اس کا غلط استعمال جاری رہنے سے منصفانہ ٹیکس لگانے کا ایجنڈا کامیاب نہیں ہو سکتا۔
کم شرح کے وفاقی ٹیکس ماڈل میں افراد کی تمام تر خالص آمدنی پر 10 فیصد انکم ٹیکس اور کمپنیوں پر 20 فیصد کارپوریٹ ٹیکس ہونا چاہیے۔ معاشی انصاف اور دولت کی تقسیم کے مسائل کو صوبے وہ ٹیکسز لگا کر ختم کریں، جو اٹھارویں دستوری ترمیم کے بعد ان کو منتقل ہوئے ہیں، مگر 14 برسوں میں ایک بھی ٹیکس امیر لوگوں پر نہیں لگا۔
یہ بھی پڑھیں؛ لوٹ مار کو روکنے کے لئے مؤثر نیشنل ٹیکس اتھارٹی کا قیام ناگزیر ہے
کم شرح کا وفاقی ٹیکس ماڈل یعنی سادہ ٹیکسیشن خود کاری تعمیل کو بہتر کرے گا، بشرطیکہ تمام شہری اس حقیقت سے واقف ہوں کہ ایک قابل اور مؤثر ٹیکس مشینری موجود ہے جس میں ٹیکس انٹیلی جنس سسٹم موجود ہے، جو آسانی سے ٹیکس سے بچنے کا ہر حال میں پتہ لگا سکتا ہے۔ دنیا میں کہیں بھی مضبوط نفاذ کی طاقت، خودکار نظام اور مؤثر ٹیکس مشینری کے بغیر ٹیکس وصولی ممکن نہیں ہے۔ ہمیں ایک ایسی نیشنل ٹیکس اتھارٹی کے قیام کی طرف جانا چاہیے، جو لوگوں کو ان کی ٹیکس ذمہ داریوں کی تکمیل کے لیے تعلیم دینے اور رہنمائی کرنے کی حد تک دوستانہ ہو اور جان بوجھ کر نادہندگان کو سزا دینے کی حد تک انتہائی مؤثر اور مضبوط ہو۔