روزنامہ دی نیوز کی رپورٹ کے مطابق، سابق نگران وزیر برائے خزانہ، محصولات اور اقتصادی امور، ڈاکٹر شمشاد اختر نے 3 فروری 2024 کو ایک اعلیٰ اختیاراتی 'عمل درآمد اور اثاثوں کی تقسیم کمیٹی' ['کمیٹی'] تشکیل دی تھی، تاکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی تنظیم نو کے لیے 'تمام مطلوبہ اقدامات مکمل کیے جائیں'۔ ایک اور خبر کے مطابق 'اس قانونی پیکج کو حتمی شکل دینے کے لیے 72 گھنٹے کی سخت ڈیڈ لائن بھی مقرر کی گئی'، مگر کمیٹی کا نوٹیفکیشن اسلام آباد ہائی کورٹ نے 7 فروری 2024 کو معطل کر دیا تھا۔
پچھلے ہفتے کے کالم میں اس کے بعد کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے مندرجہ ذیل تفصیلات کے ساتھ تبصرہ کیا گیا تھا؛
'شہباز شریف نے دوسری مرتبہ وزیر اعظم پاکستان کا حلف لینے کے بعد، کابینہ کے اعلان سے قبل، پہلی ہی میٹنگ میں ایف بی آر کو فعال بنانے کے لئے غیر ملکی ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کا حکم دے ڈالا۔ پھر اگلے ہی دن 6 مارچ کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی تشکیل نو کے بارے میں نگران حکومت کے پاس کردہ منصوبہ کی منظوری دی اور اس کے بارے میں فوری عمل درآمد کی تاکید کی۔ یہ منصوبہ دراصل سپیشل انویسٹمنٹ اینڈ فیسلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کا مہیا کردہ ہے۔
'شہباز شریف نے کسی بھی غلط فہمی کے بغیر ثابت کیا کہ وہ کس طرح آئے ہیں، اور کن کے لئے آئے ہیں، اور ان کو قانون کی کوئی بھی پروا نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ کم از کم کابینہ کے بننے کا انتظار کرتے۔ وہ اور ایس آئی ایف سی کے مہربان یہ بھی بھول گئے کہ اس کے بارے میں عدالت عظمیٰ کا فیصلہ موجود ہے۔ ان کو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ نگران حکومت کے پاس کردہ منصوبہ کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم امتناعی بھی موثر با عمل ہے۔ اس منصوبہ کی خرابیوں کے بارے میں ہمارے ایک سے زائد مضامین چھپ چکے ہیں'۔
ڈاکٹر شمشاد اختر، جو پاکستان سٹاک ایکسچینج اور سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ کی چیئرپرسن بھی ہیں، روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق، 'نوٹیفکیشن کے فوراً بعد ان کی زیر صدارت کمیٹی کا پہلا اجلاس ہفتہ [3 فروری 2024] کو منعقد ہوا'، جس کے دوران 'کمیٹی کی چیئرپرسن نے ٹیکس مشینری کی اوورہالنگ کا اپنا منصوبہ پیش کیا'۔
اس سے قبل، ریونیو ڈویژن نے ایک آٹھ رکنی کمیٹی کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی تنظیم نو کے ساتھ ساتھ، دو ذیلی کمیٹیوں کو 'قوانین میں متعدد قانونی ترامیم تیار کرنے، نئے قوانین کو حتمی شکل دینے، اور اثاثوں کو دو نئی تنظیموں کے درمیان تقسیم کرنے کے لیے' نوٹیفائی کیا۔ اثاثوں کی تقسیم سے متعلق دو ذیلی کمیٹیوں کا پہلا اجلاس بھی 3 فروری 2024 کو ہوا۔
30 جنوری 2024 کو نگران وفاقی کابینہ نے ایف بی آر کی تنظیم نو کی منظوری دی۔ منظور شدہ نام نہاد اصلاحات کے تحت ریونیو ڈویژن میں 'فیڈرل ٹیکس پالیسی بورڈ' ہو گا۔ یہ بورڈ قومی ٹیکس پالیسی کی تشکیل، محصولات کے اہداف کے تعین اور سٹیک ہولڈرز کے ساتھ رابطے کو یقینی بنائے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ فیڈرل ٹیکس پالیسی بورڈ کے چیئرمین ہوں گے، جبکہ وفاقی سیکرٹری خزانہ، ریونیو اور تجارت، چیئرمین نادرا اور متعلقہ محکموں کے ماہرین بورڈ کے ممبر ہوں گے۔
کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو کے محکمے الگ کیے جائیں گے اور ان کی قیادت متعلقہ کیڈرز کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) کریں گے۔ دونوں ڈی جی اپنے اپنے محکمے کے ادارہ جاتی، اقتصادی اور آپریشنل معاملات کے لیے مکمل طور پر مجاز ہوں گے۔ وہ ڈیجیٹلائزیشن، شکایات کے حل اور شفافیت کے لیے بین الاقوامی سطح پر اختیار کیے گئے اقدامات پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں گے۔ ان لینڈ ریونیو اور کسٹمز کے لیے الگ الگ نگرانی بورڈ ہوں گے۔ کابینہ سے 'ری اسٹرکچرنگ پلان' کی منظوری کے بعد، سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے ہدایت کی تھی کہ 'ماہرین کی تقرری کرتے ہوئے مفادات کا ٹکراؤ نہیں ہونا چاہیے'۔ انہوں نے متعلقہ وزارت کو بھی ہدایت کی کہ 'اصلاحات کا مسودہ ضروری قانون سازی کے لیے آنے والی منتخب پارلیمنٹ کو پیش کرے'۔
روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق، 'تنظیم نو کے منصوبہ کی منظوری کے فوراً بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان [ای سی پی] نے اس کو آئینی اور قانونی مینڈیٹ سے ماورا قرار دیتے ہوئے نگران وزیر اعظم کو کسی بھی مزید اقدام سے روک دیا تھا'۔ ای سی پی کے مطابق، نگران وزیر اعظم اور کابینہ کو ' ایف بی آر میں بڑی اصلاحات سے گریز کرنا چاہیے، اور اسے عام انتخابات 2024 کے بعد نئی حکومت کے زیر غور آنا چاہیے'۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کمیٹی کے نوٹیفکیشن میں بتایا گیا کہ 'عبوری حکومت چار سے سات دن میں پلان تیار کر لے گی تاہم اس پلان کو وفاقی کابینہ میں پیش کرنے کا کوئی ٹائم فریم نہیں دیا گیا تھا'۔
منظور شدہ تنظیم نو منصوبہ میں ایف بی آر کا خاتمہ شامل ہے جس کے نتیجے میں دو نئی تنظیمیں اور تین نئے بورڈز وجود میں آ جائیں گے۔ تنظیم نو کے نفاذ کے لئے قانون سازی، کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو کے اداروں کے موجودہ قوانین میں تبدیلیاں، سول سرونٹس ایکٹ 1973 اور متعلقہ قواعد و ضوابط میں تبدیلیاں درکار ہوں گی۔
روزنامہ دی نیوز کی رپورٹ کے مطابق کمیٹی کے ٹرمز آف ریفرنس (TORs) یہ ہیں:
'ٹیکس انتظامیہ کی آپریشنل خودمختاری اور جوابدہی کے بنیادی اصولوں کو شامل کرنے کے لیے قانونی مسودوں کی تشکیل کے لیے تکنیکی مواد فراہم کرنا، ٹیکس کی پالیسی کو ٹیکس انتظامیہ سے الگ کرنا، نگران بورڈ کے مینڈیٹ اور فیڈرل پالیسی بورڈ کے مینڈیٹ کا تعین؛
کسی بھی تنازعات کو حل کرنے کے لیے ذیلی کمیٹیوں کے کام کی نگرانی کرنا، قانونی ترامیم کے مسودے کی تیاری، نظرثانی اور منظوری کو تیز کرنا اور انتظامی اور مالیاتی امور سے متعلق اپنے متعلقہ کاموں کی بروقت تکمیل؛
ضروری قواعد، ضوابط، نوٹیفکیشنز، اور قانونی ریگولیٹری آرڈرز (SROs) کے ساتھ ساتھ انتظامی احکامات اور ہدایات کا اجرا؛
جانشین تنظیموں اور دفاتر کے درمیان انسانی وسائل اور اثاثوں کی مناسب تقسیم؛
جانشین تنظیموں اور دفاتر کے درمیان دستیاب مالی وسائل کی مساوی تقسیم؛
تبدیلی کے منصوبے کو کامیابی کے ساتھ نافذ کرنے کے لیے حکومت سے کوئی بھی مطلوبہ منظوری حاصل کرنا؛
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی مناسب قانونی اور ریگولیٹری فریم ورک کے ساتھ اس کی جانشین تنظیموں اور دفاتر میں ہموار منتقلی کو یقینی بنانا؛
اور حکومت، ایس آئی ایف سی یا وفاقی کابینہ کے فیصلے کو نافذ کرنے کے لیے کسی دوسری مجاز اتھارٹی کی طرف سے تفویض کردہ ذیلی افعال یا اس کے علاوہ کوئی بھی کام انجام دینا'۔
سابقہ نگران حکومت کے ایف بی آر کی تنظیم نو کے منظور شدہ منصوبہ کو شروع سے ہی ان لینڈ ریونیو سروس (آئی آر ایس) کے افسران اور عملے کی جانب سے منفی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ درحقیقت کراچی میں ایک فیلڈ فارمیشن کی طرف سے ہڑتال بھی کی گئی، اور ٹیکس افسران کی جانب سے وارننگ دی گئی تھی کہ 'اگر نگران وزیر خزانہ وفاقی کابینہ کے ذریعے سمری کی منظوری میں جلدی کرتی ہیں تو وہ اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کریں گے'۔ آئی آر ایس سروس کے ایک افسر کی جانب سے ایسی کارروائی کی بھی گئی اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی رٹ پٹیشن پر عملدرآمد کرنے والی کمیٹی کے نوٹیفکیشن کے خلاف 7 فروری 2024 کو حکم امتناعی جاری کیا جو تاحال جاری ہے۔ اس سے قبل ایک ڈپٹی کمشنر (آئی آر ایس) کے ذریعے براہ راست ای سی پی سے اپیل کی گئی کہ وہ نگران حکومت کو تنظیم نو کے منصوبہ کی غیر قانونی منظوری سے باز رکھے۔
13 جنوری 2023 کی ایک خبر نے ایف بی آر کے اعلیٰ افسران اور سابقہ نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد کے درمیان کشیدگی کی تصدیق کی۔ ایک اور خبر کے مطابق، ایف بی آر حکام نے 'حکومت کو وفاق کی مالی خودمختاری کو تنظیم نو سے ممکنہ خطرات کے بارے میں خبردار کیا، اگر ان کے مطابق ٹیکس انتظامیہ اور ٹیکسوں میں مزید تقسیم اچھی طرح سے سوچی سمجھی حکمت عملی کے بغیر کی جاتی ہے'۔ شائع ہونے والی متعدد میڈیا رپورٹس نے بھی ایس آئی ایف سی کی جانب سے پاکستان کسٹمز سروس اور IRS کو دو الگ الگ بورڈز میں الگ کرنے کے فیصلے کی تصدیق کی۔
یکم فروری 2024 کو شائع ہونے والی ایک میڈیا رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا، 'انکم ٹیکس کی وصولی میں مسلسل بہتر کارکردگی، اور پچھلے مہینوں میں محصولات کی وصولی میں بہتر شرح نمو کی وجہ سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو 5.12 ٹریلین روپے کا سات ماہ کا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ تاہم، اس مالی سال میں پہلی بار ماہانہ ہدف 9 ارب روپے یا 1.3 فیصد سے چھوٹ گیا۔۔۔ ٹیکس حکام ماہانہ وصولی کی کمی کی وجہ عبوری وزیر خزانہ کی ایف بی آر کی تنظیم نو کی مہم کو قرار دیتے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ اس میں مجوزہ تبدیلیاں، ٹیکس وصولی کے اہداف کو پورا کرنے کے بنیادی مقصد سے دور ہیں'۔
مذکورہ بالا سطور سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان لینڈ ریونیو سروس کیڈر ایف بی آر کی منظور شدہ تنظیم نو کو قبول نہیں کرے گا اور ایس آئی ایف سی کے دباؤ میں نئی حکومت کی طرف سے اس پر عمل درآمد کی صورت میں عدالتی جنگ ہو سکتی ہے۔
ایس آئی ایف سی کو بھی سمجھنا چاہیے کہ واحد قابل عمل حل ٹیکس انتظامیہ کی جامع اصلاحات ہیں، جو کہ بہت ضروری اور طویل التوا ہیں۔ دو آزاد بورڈز جیسی سطحی تبدیلیاں ٹیکس دہندگان کی سہولت اور وسائل کو متحرک کرنے میں ہرگز مدد نہیں کریں گی۔ ایف بی آر میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات ایک عوامی بحث کے ذریعے ہونی چاہئیں، جس میں تمام سٹیک ہولڈرز شامل ہوں، بجائے اس کے کہ کچھ آدھے پکے منصوبوں پر بے مقصد بحث ہو، اور ان پر عمل درآمد کر لیا جائے، جیسا کہ سابقہ نگران کابینہ نے بند دروازوں کے پیچھے منظوری دے کر کیا۔
ایف بی آر کی بنیادی ڈھانچہ جاتی اصلاحات کو قومی منشور کا حصہ ہونا چاہیے تھا، جیسا کہ ایک مضمون میں اس پر تفصیلاً روشنی ڈالی گئی ہے۔ تاہم سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ کی طرح اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اب عام انتخابات کے بعد تمام منتحب سیاسی جماعتوں کے ارکان کو پارلیمان میں اس مسئلہ پر بحث کرنے اور اس بات پر متفق ہونے کی ضرورت ہے کہ آنے والے دنوں میں ٹیکس اصلاحات کا ایجنڈا ان کی اولین ترجیح ہو گا۔
پاکستان اپنی 76 سالہ تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے اس وقت تک باہر نہیں نکل سکتا جب تک ٹیکس کے نظام کو مکمل طور پر تبدیل نہیں کیا جاتا اور ٹیکس پالیسی کو معاشی ترقی کے لئے سازگار اور عوام دوست نہیں بنایا جاتا۔ صرف یہی ملک کی معاشی خودانحصاری کو یقینی بنا سکتا ہے، جس سے تمام شہریوں کو ریلیف مل سکتا ہے، اور معیشت کو دوبارہ خوشحالی کی راہ پر لایا جا سکتا ہے۔
پاکستان کو ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب کو 20-25 فیصد کی باعزت سطح تک بہتر بنانے کے لیے، قومی اور صوبائی سطح پر محصولات کی وصولی کو بڑھانے کی ضرورت ہے، فی الحال یہ تناسب صرف 9.2 فیصد ہے۔ یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ نئی وفاقی حکومت صوبوں سے مشاورت کے بعد اشیا اور خدمات پر ہم آہنگ ویلیو ایڈڈ سیلز ٹیکس متعارف نہیں کراتی، جیسا کہ بھارت نے 2017 میں کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی نیشنل ٹیکس ایجنسی (این ٹی اے) کا قیام ناگزیر ہے۔
وفاقی اور صوبائی سطحوں پر موجودہ تمام ٹیکس اتھارٹیز کو این ٹی اے میں ضم کر دینا چاہیے۔ این ٹی اے کو خود مختار، جدید، خودکار اور موثر ہونا چاہیے، اس کو قابل عمل اور ایک آزاد بورڈ آف مینجمنٹ کے ذریعے چلایا جائے، جس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے حکام اور آزاد پیشہ ور افراد شامل ہوں۔
این ٹی اے کا خاکہ 'نیڈ فار نیشنل ٹیکس ایجنسی'، بزنس ریکارڈر، یکم نومبر 2013 میں پیش کیا اور اس کا تفصیلی پلان بعد میں مختلف مضامین میں بیان کیا گیا،' نیشنل ٹیکس اتھارٹی کی ضرورت'، بزنس ریکارڈر، 20 اکتوبر 2017،' نیشنل ٹیکس اتھارٹی کا مقدمہ—I '،بزنس ریکارڈر، 30 نومبر 2018، 'نیشنل ٹیکس اتھارٹی کا مقدمہ — II'، بزنس ریکارڈر، 2 دسمبر 2018 اور 'کیس برائے آل پاکستان یونیفائیڈ ٹیکس سروس: پی ٹی آئی اور جدید ٹیکس اصلاحات'، بزنس ریکارڈر، 31 اگست 2018۔
وفاقی ٹیکس ایجنسی (این ٹی اے) کا بلیو پرنٹ 'فلیٹ، کم شرح، وسیع اور متوقع ٹیکسز' (نظر ثانی شدہ ایڈیشن، دسمبر 2020، پرائم انسٹی ٹیوٹ، اسلام آباد) اور 'پاکستان میں ٹیکس اصلاحات: تاریخی اور تنقیدی جائزہ'، (PIDE، اسلام آباد) میں دستیاب ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ ایف بی آر یا ٹیکس وصول کرنے والی کسی دوسری ایجنسی کو قلیل مدتی اصلاحاتی اقدام کے طور پر ایک مجاز اور اہل پروفیشنل بورڈ کے ذریعے چلانے کی ضرورت ہے، اس سے پہلے کہ سب کو ایک ہی قومی ٹیکس اتھارٹی میں ضم کر دیا جائے۔ ماضی میں ایف بی آر کے افسران نے اس کے لئے پاکستان ریونیو بورڈ (PRB) کا نام تجویز کیا تھا۔
وفاقی ٹیکس جمع کرنے والی ایجنسی، جو بھی نام ہو، نا صرف وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے لیے ٹیکس کی وصولی کے لیے ذمہ دار ہونی چاہیے، بلکہ مختلف سماجی اور اقتصادی فوائد اور ترغیبی پروگراموں کا انتظام بھی اس کو ہی کرنا چاہیے، ورنہ ٹیکس کی رضا کارانہ تعمیل ایک خواب ہی رہے گی۔
لوگوں کو مفت تعلیم، معیاری صحت کی دیکھ بھال، معقول رہائش/ ٹرانسپورٹ کے علاوہ سماجی تحفظ، جیسے یونیورسل پنشن، معذوری الاؤنس، بڑھاپے کے فوائد، انکم سپورٹ، چائلڈ سپورٹ، ٹیکس کی ادائیگی کے بدلے میں ملنا چاہیے، جیسا کہ 'نئے ٹیکس ماڈل کی ضرورت ہے'، بزنس ریکارڈر، 26 فروری 2021 میں اس پر تفصیلاً بحث کی گئی ہے۔
این ٹی اے کو وفاق کے لیے تمام ٹیکس جمع کرنے کا کام سونپا جا سکتا ہے، جو آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان [آئین] کے آرٹیکل 142 کے مطابق عائد ہیں یا کیے جا سکتے ہیں۔ یہ وفاقی اور صوبائی سطحوں پر محصولات وصول کرنے والی متعدد ایجنسیوں کے خوفناک سائز کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے۔ تا حال یہ تمام محکمہ جات، ون ونڈو کے نیچے کام کرنے کے بجائے، نااہلی، بدعنوانی اور غیر ضروری تعمیل لاگت پیدا کرنے کے لئے جانے جاتے ہیں۔ فی الوقت، ٹیکس دہندگان کو متعدد ٹیکس ایجنسیوں سے نمٹنا پڑتا ہے، جس سے ان کے کاروبار کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔
12 مارچ 2020 کو، وزارت خزانہ کی ایک پریس ریلیز کے مطابق، نیشنل ٹیکس کونسل [این ٹی سی] کا قیام عمل میں آیا اور اس کے ٹرمز آف ریفرنس (TORs) کی منظوری دی گئی۔ ایک پریس رپورٹ کے مطابق، 'جی ایس ٹی کی ہم آہنگی عالمی بینک کے US$750 سے US$900 ملین کے بجٹ سپورٹ قرض کا حصہ ہے'۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 'بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی تجویز کے مطابق، مرکز اور صوبوں نے آخر کار این ٹی سی کے قیام پر اتفاق کیا ہے تاکہ ٹیکس سے متعلق تمام مسائل کو حل کیا جا سکے، خاص طور پر پورے ملک میں سیلز ٹیکس کو ہم آہنگ کرنے کے لیے'۔ یہ رپورٹ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ ہماری حکومتیں اس وقت تک کچھ نہیں کرتیں جب تک کہ قرض دینے والے عالمی ادارے انہیں کچھ کرنے پر مجبور نہ کریں۔
رپورٹ کے مطابق بالآخر یہ فیصلہ کیا گیا کہ این ٹی سی کو آئین میں ترمیم کیے بغیر ٹیکس سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے تکنیکی سطح کی نمائندگی حاصل ہو گی۔
این ٹی سی کی ایک ایگزیکٹو کمیٹی ہے، جس میں وفاقی سیکرٹری خزانہ، ایف بی آر کے چیئرمین، صوبائی فنانس سیکرٹریز اور صوبائی ریونیو اتھارٹیز کے سربراہان، یعنی پنجاب ریونیو اتھارٹی (PRA)، سندھ ریونیو بورڈ (SRB)، خیبر پختونخوا ریونیو اتھارٹی (KPRA) شامل ہیں اور بلوچستان ریونیو اتھارٹی (BRA) شامل ہیں۔
این ٹی سی کی ایگزیکٹو کمیٹی، مذکورہ بالا مختلف مضامین اور کتابوں میں بار بار درخواستوں کے باوجود، نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) کی مانیٹرنگ کمیٹی کو قومی وفاقی ٹیکس ایجنسی کے قیام کی سفارش کرنے میں ناکام رہی ہے۔ قومی وفاقی ٹیکس ایجنسی کا قیام فیڈرل بورڈ آف ریونیو ایکٹ 2007 میں ترمیم کر کے اور آئین کے آرٹیکل 144 کے تحت تمام صوبائی اسمبلیوں سے قراردادیں پاس کر کے کیا جا سکتا ہے، مگر تاحال اس کے لئے کسی بھی حکومت نے دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ یہ اب ممکن ہے جب 8 فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد قومی اور تمام صوبائی اسمبلیاں وجود میں آ چکی ہیں۔
این ٹی سی کی تشکیل کے لئے سویڈش ریونیو اتھارٹی [Skatteverket] اور کینیڈین ریونیو اتھارٹی (CRA) کے ماڈلز پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے، جو نا صرف حکومت کے تمام درجوں اور سطح پر ٹیکس جمع کرتے ہیں، بلکہ سماجی تحفظ، فوڈ سٹامپ، یونیورسل پنشن اور انکم سپورٹ وغیرہ جیسے فوائد کو بھی پورا کرتے ہیں۔
این ٹی اے (مکمل ڈیجیٹائزیشن) کے ساتھ مختلف اداروں کے ڈیٹا بیس کو جوڑنا ہی ملک کے لیے خودکار (ای گورنمنٹ) ماڈل کی جانب ایک بہت بڑا قدم ہو سکتا ہے، جو تاحال موجود نہیں ہے اور جس کا ذکر حلف لینے کے بعد نئے وزیر خزانہ نے ایف بی آر حکام سے پہلی ہی میٹنگ میں کیا ہے۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مکمل روڈ میپ 'مالیاتی انضمام کے لیے ٹائم اپ — I'، بزنس ریکارڈر، 21 دسمبر 2018، 'مالیاتی انضمام کے لیے ٹائم اپ —II بزنس ریکارڈر، 23 دسمبر 2018، 'بکھرے ہوئے ٹیکس نظام پر قابو پانا'، بزنس ریکارڈر، 19 اکتوبر 2018، 'بکھرے ہوئے ٹیکس کے تحت کاروبار کرنا'، بزنس ریکارڈر، 7 ستمبر 2018 اور 'کیس برائے آل پاکستان یونیفائیڈ ٹیکس سروس: پی ٹی آئی اور جدید ٹیکس اصلاحات'، بزنس ریکارڈر، 31 اگست 2018 میں زیر بحث آیا ہے۔
نئی وفاقی حکومت، پالیسی سازوں اور مقننہ کو وفاقی بجٹ 2024 میں ٹیکس کے نظام کی تشکیل نو کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ قومی سطح پر ٹیکس کی حقیقی صلاحیت سے استفادہ کیا جا سکے، اور اس کے ساتھ ساتھ شہریوں کو معیاری سماجی خدمات فراہم کی جائیں۔
مالیاتی خسارے کو کم کرنے کے لئے جہاں محصولات کو بڑھانے کی ضرورت ہے، وہیں فضول خرچیوں میں زبردست کمی بھی لازم ہے۔ نئی وفاقی حکومت کو توانائی کے شعبے میں گڑبڑ اور خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں (SOEs) پر عوامی فنڈز کا مزید خون بہانا بند کرنا ہو گا۔ پاکستان کا اصل مخمصہ فرسودہ، نوآبادیاتی طرز کے انتظامی اور عدالتی ڈھانچے، اشرافیہ، کرونیزم، لالچ اور شکاری اشرافیہ کی طرف سے بدعنوانی ہے۔
امید ہے 11 مارچ 2024 کو وفاقی وزیر خزانہ کا حلف لینے والے محترم محمّد اورنگزیب جو کہ پیشہ ور بینکر ہیں، اس کی طرف خصوصی توجہ دیں گے۔ فی الوقت ان کو وزارت خزانہ کے وزیر کا منصب دیا گیا ہے اور اصافی چارج برائے ریونیو بھی، جس سے یہ تاثر قائم ہوا ہے کہ مستقبل میں کسی اور کو یہ منصب ملنے کا امکان ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی تنظیم نو پر وقت ضائع کرنے کے بجائے خود مختار اور خودکار قومی ٹیکس ایجنسی کے قیام کے لئے سنجیدہ کوشش کا آغاز کرنا چاہیے، جس کا اس کالم میں تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔