حکومت میں موجود فیصلہ سازوں کی جانب سے اس طرح کی اطلاع ملی ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر اور لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس فیورٹ ہیں۔ یہ طے کر لیا گیا ہے کہ ان دونوں کو ترقی دی جائے گی۔ یہ بات بھی طے ہو گئی ہے کہ ان دونوں میں سے ایک آرمی چیف ہوگا اور دوسرا جوائنٹ چیفس آف سٹاف۔ حکومت میں موجود جن چار پانچ لوگوں کے پاس یہ اطلاع ہے، انہی میں سے کسی نے بتائی ہے یہ گرما گرم خبر سینیئر صحافی اعزاز سید کو۔
منگل کی شام اپنے یوٹیوب چینل پر بات کرتے ہوئے اعزاز سید نے بتایا کہ یہ فیصلے کر لیے گئے ہیں اور یہ فیصلے فیصلہ سازوں کی جانب سے ہیں، فوج سے تو محض ان کی رائے لی جائے گی لیکن جنہوں نے فیصلہ کرنا ہے، انہوں نے ہی اعزاز سید کو یہ اطلاع دی ہے۔
عمر چیمہ کے مطابق انہیں قطعاً حیرت نہیں ہوگی اگر عاصم منیر کو آرمی چیف لگا دیا جائے۔ پروگرام میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے پہلے دن سے یقین ہے کہ آخری دو میں سے ایک تو جنرل عاصم منیر لازماً ہوں گے۔ پھر چاہے وہ آرمی چیف لگ جائیں یا جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی۔ مگر لیفٹننٹ جنرل سے جنرل وہ ضرور بنیں گے۔ البتہ دوسرا شخص کون ہوگا، اس کے بارے میں تو کوئی متضاد آرا ہو سکتی ہیں، دو میں سے ایک جنرل عاصم منیر ہی ہوں گے۔ مجھے ذاتی طور پر حیرت ہوگی اگر جنرل عاصم منیر دو میں سے ایک نہ ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ 26 ستمبر کو جنرل عاصم منیر کی ترقی ہوئی لیکن وہ اس وقت ایک غیر ملکی مشن پر تھے۔ انہوں نے 26 اکتوبر کو لیفٹیننٹ جنرل کے طور پر عہدہ سنبھالا اور ان کو ایک مہینہ اضافی دے دیا گیا کیونکہ انہیں بیج ایک مہینے کے بعد لگے تھے۔ اس لئے وہ اب ریس میں شامل ہو گئے ہیں۔ سورڈ آف آنر بھی رکھتے ہیں۔ او ٹی ایس کورس کے ہیں۔ گریجویشن کے بعد والے کورس کے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق بھی او ٹی ایس کورس کے تھے اور آرمی چیف بنے تھے۔ فوج کے اندر بھی لانگ کورس اور او ٹی ایس افسروں کے مابین لابنگ ہوتی ہے کہ ہمارا بندہ آئے یا ہمارا آئے۔
عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ ترقی ملنے کے وقت ملک سے باہر ہونا اور پھر اتنی دیر تک لیفٹیننٹ جنرل کے ستارے نہ لگنا، اس سے لگتا تو یہی ہے کہ خدا کی قدرت عاصم منیر کے ساتھ ہے۔ 12 اکتوبر کو جنرل عامر ریٹائر ہوئے ہیں۔ وہ سورڈ آف آنر تھے مگر وہ پہلے ہی دوڑ سے باہر ہو گئے۔ ابھی تین چار لوگ اور ہیں جنہوں نے ریٹائر ہونا ہے۔
اعزاز سید کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کے بعد جو پانچ لوگ ان ریٹائرمنٹس کے بعد بچتے ہیں ہم ان کا ذکر کر رہے ہیں۔ ان پانچ لوگوں کا آپس میں بھی بہت اچھا تعلق ہے۔ پچھلے دنوں منگلہ میں ایک شادی تھی اور وہاں یہ سارے اکٹھے تھے۔ لیکن اعزاز سید کہ ان میں سے ایک بندہ ٹانگ کھینچنے والا بھی ہے جو آج کل غلط سرگرمیوں میں مصروف ہے۔
عمر چیمہ نے یاد دلایا کہ آرمی چیف کے حوالے سے لابنگ بھی ہوتی ہے۔ راحیل شریف کو جب نواز شریف نے لگایا تو انہوں نے اپنے قریبی ساتھیوں کو ایک وجہ یہ بتائی تھی کہ ریس میں شامل باقی سارے لوگوں نے سفارشیں کروائی تھیں مگر راحیل شریف وہ واحد جنرل تھے جنہوں نے سفارش نہیں کروائی تھی۔
جنرل اظہر عباس جنرل باجوہ کے پرنسپل آف سٹاف بھی رہ چکے ہیں تو کافی حد تک ان کی جنرل باجوہ سے مطابقت ہے۔ عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جس نے لابنگ کی اس کو نقصان کا احتمال زیادہ ہوگا۔ اعزاز سید کا کہنا تھا کہ اس وقت لابنگ البتہ جاری ہے اور میں جلد ایسے لوگوں کا بھی بتاؤں گا جو اس وقت لابنگ میں مصروف ہیں۔ ایک پرانے lobbyist ہیں جو اس وقت باقاعدہ activist بنے ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ 12 ستمبر کو صحافیوں کے ساتھ ایک نشست میں ایک سینیئر وفاقی وزیر نے کہا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر آرمی چیف کے عہدے کے لئے 'مضبوط امیدوار' ہیں۔
نیا دور پر عبداللہ مومند کی خبر کے مطابق جب ان سے پوچھا گیا کہ آنے والے آرمی چیف کی دوڑ میں مضبوط امیدوار کون ہو سکتا ہے، وفاقی وزیر نے جواب دیا کہ ویسے تو اس معاملے پر نومبر سے پہلے بحث کرنا بے کار ہے اور وزیر اعظم سمری ملنے کے بعد اس پر غور و فکر کرے گا، لیکن میری نظر میں لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر آرمی چیف کے عہدے کے لئے ایک مضبوط امیدوار ہیں۔ پھر بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔