قانون سازیوں کا مقصد عموماً عوام کو فائدہ پہنچانا، بہترین گورننس اور سروس ڈلیوری کے معاملات کو بہتر بنانا ہوتا ہے مگر خیبر پختونخوا میں حالات یکسر مختلف ہیں۔ یہاں مفاد عامہ کو بالائے طاق رکھ کر اشخاص کے لئے قانون سازیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
ڈیڈک چیئرمین یعنی ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ چیئرمین کسی بھی ضلع کا سب سے طاقت ور ترین شخص ہوتا ہے، اگر وہ اپنے صوابدیدی اختیارات سے باخبر ہو کیونکہ ڈیڈک چیئرمین کے پاس ضلعی سطح پر ہونے والے تمام ترقیاتی کاموں کا اختیار ہوتا ہے اور کوئی بھی ترقیاتی کام اس کی منظوری کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ ڈیڈک چیئرمین کی نشست صوبائی اسمبلی کے ممبران کو دی جاتی تھی۔ مگر صوبائی حکومت نے من چاہے افراد کو خوش کرنے اور ان کو اختیار دینے کے لئے اب اس حوالے سے قانون سازی کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ ترمیمی بل اسمبلی سے منظور کروایا ہے۔
اس بل کے منظور ہونے کے بعد پہلے سے لگائے گئے تین ممبران قومی اسمبلی کو قانونی تحفظ مل گیا ہے۔ ان تین ممبران قومی اسمبلی میں ڈی آئی خان سے وزیر اعلیٰ کے بھائی فیصل امین گنڈاپور، کرم سے وحدت المسلمین کے انجینیئر حمید حسین اور چترال سے ایم این اے عبدالطیف شامل ہیں جو اس قانون سازی سے مستفید ہوں گے۔ اگرچہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں ڈی آئی خان سے 4 ایم پی ایز موجود ہیں مگر کسی بھی ایم پی اے کا تعلق تحریک انصاف سے نہ ہونے کی وجہ سے گورنر خیبر پختونخوا کے بھائی احمد کریم کنڈی جیسے منجھے ہوئے پارلیمنٹیرین کو بھی نطرانداز کیا گیا۔
اس کے علاوہ ٹورازم کے سرکاری ریسٹ ہاؤسز سے متعلق فیصلہ کرنے کے اختیارات وزیر اعلیٰ کو منتقل کرنے سے متعلق بھی ترمیمی بل صوبائی اسمبلی نے منظور کر لیا۔ اس سے پہلے ٹورازم کمیٹی چیئرمین کا اختیار کابینہ کے پاس تھا۔ یہاں بھی حکومت نے شخصیت کو خوش کرنے کے لئے قانون سازی کی۔
پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر احمد کریم کنڈی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ڈیڈک چیئرمین کی دوڑ میں ایم این ایز کو شامل کرنے کا مقصد صرف ڈی آئی خان میں فیصل امین گنڈاپور کو مستقل بنیادوں پر قانونی کور دینے کی ناکام کوشش ہے۔ یہ معاملہ عدالت میں ہے اور اس پر جلد فیصلہ آ جائے گا مگر قانون سازی کر کے حکومت نے ایک ایسی کھڑکی کھولی ہے جس کے نتائج خود حکومت کے گلے پڑنے والے ہیں۔ مستقبل میں جس کی بھی حکومت ہو گی وہ ایم این ایز کو ڈیڈک چیئرمین لگائے گا۔ انہوں نے سوال کیا کہ صوبائی حکومت کیوں اپنے اختیارات میں وفاقی نمائندوں کو شریک کر رہی ہے؟ احمد کنڈی کا مزید کہنا تھا کہ وفاق میں جس کی بھی حکومت ہوتی ہے، چاہے کل پیپلز پارٹی کی ہو، وہ ایم این ایز سے زیادہ مجبور ہوتے ہیں۔
احمد کنڈی نے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ یا تو وزارت اعلیٰ کی کرسی سنبھالیں یا پھر پی ٹی آئی کے صوبائی صدر کی۔ سیاسی معاملات نے صوبے میں گورننس کے شدید مسائل پیدا کیے ہیں۔ ٹورازم سے متعلق ترمیم پر احمد کنڈی نے کہا کہ اشخاص نے ہمیشہ اس ملک کو برباد کیا ہے، اشخاص کو خوش کرنے اور بااختیار بنانے سے معاملات خراب ہوتے ہیں، گورننس کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ میں نیت پر شک نہیں کرتا مگر اس طرح کی قانون سازی مذاق سے زیادہ کچھ نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبے میں ٹورازم ہے کہاں؟ لوگ خود کو پُرامن اور محفوظ محسوس نہیں کرتے، مسخرے اسمبلی میں بیٹھے ہیں۔ پہلے صوبے کو پُرامن بنائیں، پھر اپنے لئے قانون سازیاں کریں۔ جنوبی اضلاع نوگو ایریاز بن چکے ہیں۔ کرم میں دو ہفتوں سے سڑکیں بند ہیں۔ بنوں میں آئے روز پولیس اہلکار نشانہ بنتے ہیں۔ ایسے میں خود کے لئے قانون سازی بے حسی کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے؟
سینیئر صحافی اور پشاور سے سماء نیوز کے بیورو چیف محمود جان بابر اس قانون سازی کے حوالے سے کہتے ہیں کہ تحریک انصاف یہ سب کچھ اس لئے کر رہی ہے کیونکہ وہ کسی پر اعتبار نہیں کرتے اور جہاں جہاں ضرورت ہے وہاں وہ خود اس قسم کی چیزوں پر قبضہ کر رہے ہیں تاکہ وہ خود اچھی پوزیشن میں ہوں۔ ماضی میں ایسی مثالیں ملتی ہیں، مختلف ادوار میں اپوزیشن سے بھی ڈیڈک چیئرمین آئے ہیں۔ پی ٹی آئی دوسروں پر تو تنقید کر رہی ہے مگر خود سب سے زیادہ موروثی سیاست کی بیماری میں مبتلا ہے۔ ماضی میں پرویز خٹک خاندان سے 7، 8 لوگ اسمبلیوں میں بیٹھے تھے۔ جس طرح اپنی پارٹی کے لئے پی ٹی آئی نے موروثی سیاست کو جائز قرار دیا ہے، ایسے لگتا ہے تحریک انصاف جو کہتی ہے سب اس کے اُلٹ کرتی ہے۔
محمود جان بابر کا مزید کہنا ہے کہ ایسی قانون سازیاں صرف پی ٹی آئی نہیں بلکہ جمہوریت کے لئے زہر قاتل ہیں کیونکہ جمہوریتوں میں ووٹ کو مقدم رکھا جاتا ہے اور اپوزیشن کو بھی لوگوں نے ووٹ دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے پاس موقع تھا کہ وہ اچھی روایت بناتے، لوگوں کو قریب لاتے، نفرتیں کم کرتے مگر مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت اپنے لیڈر اور کارکنان کی طرح ضد پر اڑی ہوئی ہے اور اُسی ذہنیت کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کی خطرناک ذہنیت کے مطابق صرف وہی ایماندار ہیں، جمہوری ہیں، خاندانی ہیں یعنی تمام خوبیوں کے مالک ہیں، باقی لوگوں میں ان میں سے ایک بھی خوبی موجود نہیں۔ اگر دیکھا جائے تو خود پسندی تباہی ہے، چاہے وہ مذہبی لحاظ سے ہو یا دنیا کے کسی بھی معاملے میں ہو اور تحریک انصاف میں خود پسندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ دوسری جانب یہ ڈر کا بھی شکار ہیں کہ ایسا نہ ہو اپوزیشن کے ڈیڈک چیئرمین لگ جائیں، وہ اچھا کام کر لیں اور خود کو ثابت کر لیں تو ہماری بدنامی ہو گی۔
محمود جان بابر نے علی امین گنڈاپور کی 8 ماہ کی حکمرانی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ بُری طرح ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ بطور سیاست دان اور بطور وزیر اعلیٰ بھی علی امین گنڈاپور خود کو ثابت نہیں کر پا رہے۔ یہ میرے خیال میں اس صوبے کی بدقسمتی ہے مگر لوگوں نے ووٹ دیا ہے تو اب برداشت کرنا پڑے گا۔ باقی صوبوں میں ترقی ہو رہی ہے، ترقیاتی کام جاری ہیں مگر ہمارے صوبے میں دھمکیوں کی مارکیٹ گرم ہے۔ وفاق پر چڑھائیوں کی تیاریاں ہوتی رہتی ہیں یا ایسی قانون سازیاں ہو رہی ہیں جو جمہوریت کے جنازے کی تیاری سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔
سینیئر صحافی عرفان خان کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ڈیڈک چیئرمین ممبر قومی اسمبلی ہو سکتا ہے مگر اس کے مستقبل میں یقیناً خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ کل جس کی بھی حکومت ہو گی وہ کسی بھی ضلع میں صوبائی نشستیں ہارنے کے بعد ایم این اے کو ڈیڈک چیئرمین لگائے گا جس سے گورننس کے مسائل جنم لیں گے اور پاور سٹرگل جاری رہے گی۔ سمجھ نہیں آتی کہ وزیر اعلیٰ کیونکر خیبر پختونخوا میں اپوزیشن کا کردار ادا کر رہے ہیں؟ ایسی قانون سازیوں کا صاف مطلب خاص لوگوں کو خوش کرنا اور ان کے لئے پیسے کمانے کا راستہ ہموار کرنا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 18 ویں ترمیم کا مقصد اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنا ہے مگر ایسے لگتا ہے صوبائی حکومت واپس اس سے پہلے والے حالات میں جانا چاہتی ہے۔ واضح اکثریت کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ آپ ایسی قانون سازیاں کریں جس سے صوبے کا نقصان ہو اور پارلیمان کی روح کو تکلیف پہنچے۔
عرفان خان کے مطابق وزیر اعلیٰ شروع دن سے وہ کردار ادا نہیں کر رہے جو کسی صوبے کے وزیر اعلیٰ کا ہوتا ہے۔ وہ پارٹی کے صدر تو ہو سکتے ہیں مگر وزیر اعلیٰ کسی بھی طرح سے نہیں لگتے کیونکہ 8 ماہ گزرنے کے باوجود بھی وہ کوئی ایسا کام نہیں کر سکے جو حکومت کے کرنے کا ہو۔ اسی طرح اس وقت صوبے میں امن و امان لانے کے لئے سنجیدہ قیادت کی ضرورت ہے جبکہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کا موڈ دیکھ کر یہ بالکل بھی نہیں لگتا کہ وہ ایسا کچھ کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ عجیب عجیب قسم کی قانون سازیوں میں وقت برباد نہ کرتے۔ افسوس یہ بھی ہے کہ حکومت اس وقت بیوروکریسی کے ہاتھ کا کھلونا بنی ہوئی ہے۔ اس طرح کی قانون سازیاں کرنے کے غلط مشورے بھی بیوروکریسی کی طرف سے مل رہے ہیں۔