آرمی پبلک سکول شہدا کے لواحقین کمیشن رپورٹ پر برہم

آرمی پبلک سکول شہدا کے لواحقین کمیشن رپورٹ پر برہم
سپرم کورٹ آف پاکستان نے حال ہی میں سانحہ آرمی پبلک سکول کی تحقیقات پر مبنی جوڈیشل کمیشن رپورٹ پبلک کرنے کا حکم نامہ جاری کیا ہے۔ عدالت نے اس سانحے کو سکیورٹی اقدامات کی ناکامی قرار دیا ہے۔

رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ اگر عقبی گیٹ پر سکیورٹی گارڈ موجود ہوتے اور دہشتگروں سے مزاحمت کرتے تو بہت بڑے نقصان سے بچا جا سکتا تھا۔ اس غفلت کے باعث سکیورٹی ناکام ہو گئی اور دہشت گرداپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوئے۔

عدالت نے یہ حکم بھی دیا کہ رپورٹ کی کاپیاں شہید ہونے والے بچوں کے والدین کو فراہم کی جائیں۔ تاہم، اے پی ایس شہدا کے لواحقین نے اس رپورٹ پر مکمل عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ رپورٹ کے حقائق کا زاویہ ہی تبدیل کر دیا گیا اور انہیں کسی قسم کا انصاف فراہم نہیں کیا گیا۔

اے پی ایس شہدا کے لواحقین کی تنظیم کے سرگرم رہنما ایڈووکیٹ فضل خان نے voice.pk پر اینکر حیدر کلیم سے بات کرتے ہوئے والدین کا مؤقف پیش کیا۔ انکا کہنا تھا کہ ہمیں مکمل فیصلہ موصول نہیں ہوا مگر میڈیا پر تفصیلات دیکھی ہیں جس پہ بہت زیادہ مایوسی ہوئی ہے۔ انکے مطابق رپورٹ والدین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے اور اس تفصیلی رپورٹ نے ان کے زخموں کو مزید تازہ کر دیا ہے۔

انہوں نے والدین کی طرف سے تفصیلی مؤقف دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس کو شروع سے ہی سنجیدہ نہیں لیا گیا۔ اے پی ایس کا واقعہ جو دسمبر 2014 میں پیش آیا، اس کی تحقیقاتی رپورٹ ایک سال کے اندر آ جانی چاہیے تھی مگر اسکا آغاز ہی تاخیر کر کے 9 مئی 2018 کو کیا گیا اور تقریباً چھ سال بعد ایک ناکارہ اور بوسیدہ رپورٹ شائع کر دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے تھے کہ رپورٹ سے ہمارے دکھوں کا کوئی مداوا ہوگا مگر اس رپورٹ نے ہمیں اور مایوس کر دیا ہے۔روز اول سے ہمارا مطالبہ تھا کہ سپریم کورٹ کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن بنے مگر وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان نے پشاور ہائی کورٹ کو کمیشن بنانے اور حقائق دیکھنے کو کہا۔ پشاور ہائی کورٹ نے بھی انکوائری دسویں نمبر پر موجود جونئیر ترین جج کے سپرد کر دی۔ اس کے باوجود ہم والدین ہر ممکن حد تک اس کمیشن کے آگے پیش ہوئے۔ ہم نے اپنے بیانات ریکارڈ کروائے اورمکمل تعاون کیا۔ انہوں نے کہا کہ  ہم پڑھےلکھے شہری ہیں اور ہمیں آئین و قانون کا مکمل علم ہے، ہم بخوبی آگاہ ہیں کہ ریاست اور شہریوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔ لہٰذا ہم نے کسی بھی قسم کی مداخلت کیے بغیر سارا معاملہ جوڈیشل کمیشن کے سپرد کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم عدالتوں کا بھرپور احترام کرتے ہیں مگر ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ہمارے تحفظات کو توڑ مروڑ کر کسی اور سمت میں لیجانے کی کوشش کی گئی۔ ایسے لگتا ہے کہ یہ فیصلہ کہیں اور سے لکھوا کر سنایا گیا ہے اور معزز جج نےصرف دستخط کیے ہیں۔

انکے مطابق جج صاحب اپنے اختیارات سے کسی اور طرف جا کر اصل حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔افضل ایڈووکیٹ کا خیال ہے کہ طاقتور لوگ بالواسطہ یا بلا واسطہ اس کیس میں ملوث ہیں یا جن پر والدین کو شبہ ہے انکو بچانے کے لئے رپورٹ کی سمت ہی تبدیل کر دی گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس واقعے کی نوعیت دیگر واقعات کی سی نہیں جہاں چھوٹے اور قبائلی علاقوں میں دہشتگردی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں بلکہ یہ واقعہ صوبائی دارالحکومت کی فوجی چھاؤنی کے بیچ و بیچ آرمی کے زیر اہتمام ایک سکول میں باقاعدہ پلان کر کے کیا گیا۔ اس سکول کے گرد  کور کمانڈر ہاؤس، سٹیشن کمانڈر ہاؤس، مختلف یونٹس، پولیس لائنز، کمشنر آفس سمیت تمام ہائی پروفائل اداروں کےدفاتر موجود ہیں۔

رپورٹ میں ایک گاڑی کا ذکر کیا گیا ہے کہ مین گیٹ پر گاڑی کوآگ لگائی گئی تاکہ سب کی توجہ اس طرف مبذول ہو جائے۔ اوردہشتگرد سکول کی پچھلی جانب سے سکول میں داخل ہو گئے۔ ان کے نزدیک یہ بالکل غلط ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہی پچھلی دیوار جہاں سے دہشتگرد پھلانگ کرسکول میں داخل ہوئے تھے وہیں ایک سوزوکی کیری ڈبہ تھا۔ دہشتگردوں نے اسے ہی آگ لگائی اور وہ پھلانگ کر اندر داخل ہوئے اور داخل ہوتے ہی بچوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔

والدین کا کہنا ہے کہ مقامی سول الیٹ فورس وہاں سات سے آٹھ منٹ میں پہنچ چکی تھی لیکن بد قستمی سے ان کو اندر جانے ہی نہیں دیا گیا۔انتظامیہ نے سکول کوباہر سے مکمل سیل کر دیا جبکہ سکیورٹی فورسز کو اندر جانے نہیں دیا گیا۔ پولیس جو کہ ایسے واقعات سے نمٹنے کے لئے تربیت یافتہ ادارہ ہے کو یہ کہہ کر اندر جانے سے روک دیا گیا کہ یہ آرمی کا سکول ہے یہاں سول ادارےداخل نہیں ہوسکتے۔

دہشتگروں کے معاملے میں بھی غلط معلومات دی جاتی رہیں کیونکہ حملہ آور کی لاش دیکھنے سے قبل اس بات کا تعین نہیں کیا جاسکتا کہ انکی تعداد کتنی تھی جبکہ آج تک حملہ آوروں کی ڈیڈ باڈیز کو پبلک نہیں کیا گیا۔ حکام نے میڈیا کو جو کہانی سنائی اسی پر یقین کر لیا گیا۔

انکا کہنا تھا کہ سب سے بڑی غفلت یہ ہوئی کہ 28 اگست 2014 کو وفاقی حکومت کی جانب سے ایک تھریٹ الرٹ جاری ہوا تھا۔ فیڈرل گورنمنٹ کی طرفسے صوبائی حکومت کو لکھا گیا تھا کہ پشاور میں آرمی پبلک سکول بوائز پر حملہ ہونے والا ہے۔ پورے پشاور میں اس کے علاوہ کوئی بھی آرمی پبلک سکول کی بوائز برانچ نہیں۔ اس کے بعد وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کی جانب سے اس پر کوئی اپ ڈیٹ نہیں لی گئی۔

والدین نے کہا کہ اس الرٹ کو نظر انداز کرنے والوں میں سے کسی کی سرزنش نہیں کی گئی، کسی کو سزا نہیں دی گئی اور نہ ہی اتنی بڑی غفلت پر کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔

خیبر پختونخواکے وزیر داخلہ اختر علی شاہ نے اینکر پرسن دانش کے پروگرام میں من و عن تسلیم کیا ہے کہ واقعہ انکی غفلت کا نتیجہ ہے۔ علاوہ ازیں چیف پولیس ناصر درانی نے بھی تسلیم کیا تھا کہ یہ سانحہ ہماری غفلت کی وجہ سے ہوا۔

والدین نے کہا کہ ان تمام ذمہ داران کو سزا دینے کی بجائے ترقیاں دی گئیں، بڑے عہدوں سے نوازا گیا اور ریٹائرمنٹ ختم ہونے کے بعد بہت سوں کی مدت ملازمت میں توسیع بھی کروائی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ ہمیں احسان اللہ احسان کے بارے میں مکمل بریفنگ دی گئی تھی کور کمانڈرلیفٹینٹ جنرل ہدایت الرحمٰن  پشاور کی طرف سے انہیں کہا گیا کہ یہ واقعہ تحریک طالبان نے کیا ہے۔ ہم فوراً سے پیشتر انکو منطقی انجام تک پہنچائیں گے مگر احسان اللہ احسان کو ان کی ضرورت کے تحت میڈیا پر لایا گیا کہ اس نے سرنڈر کیا ہے اور اسے گرفتار کیا گیا ہے۔ اسے ملٹری کورٹس کے تحت ایک دن میں سزا دینے کی بجائے ساڑھے تین سال تک مہمان بنا کر رکھا گیا اور پھر وہ بھاگ گیا۔ خود وفاقی وزیر داخلہ نے تسلیم کیا کہ وہ واقعی ہماری حراست سے بھاگ گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں یہ سب حقائق یکسر نظر انداز کر کے صرف ان اداروں کی تعریفیں کی گئی ہیں جنہوں نے اس سانحے پر غفلت کا مظاہرہ کیا اور 147 معصوم جانیں ضائع ہو گئیں۔ انکا کہنا تھا کہ یہ انتہائی حساس کیس تھا جسے انتہائی غیر سنجیدہ طریقے سے نمٹایا گیا۔ ورثا کے والدین مجبور ہیں۔ اس رپورٹ کے بعد بہت سے والدین نا امید ہو چکے ہیں۔