Get Alerts

'ٹیکسٹائل سیکٹر کو قابل تجدید توانائی کے ذرائع پر منتقل ہونا ہو گا'

ٹیکسٹائل سیکٹر، جو توانائی کا بڑا صارف ہے اور فوسل فیولز پر انحصار کرتا ہے، کاربن کمی کے لیے ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے۔ قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری سے ناصرف موسمیاتی مسائل کا حل ممکن ہے بلکہ معاشی ترقی اور عالمی مقابلہ بازی کے نئے دروازے بھی کھل سکتے ہیں۔

'ٹیکسٹائل سیکٹر کو قابل تجدید توانائی کے ذرائع پر منتقل ہونا ہو گا'

نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی فیصل آباد میں آلٹرنیٹ ڈویلپمنٹ سروسز اسلام آباد اور نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی کے اشتراک سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس کا مقصد ٹیکسٹائل کی صنعت اور اس کو ماحول دوست بنانے کے حوالے سے ایک تحقیقی رپورٹ کی رونمائی کرنا تھا۔ اس سیمینار میں پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر کے کاربن اخراج کی پروفائلز، توانائی کے استعمال کے نمونوں، اور کاربن کمی کی صلاحیت کو اجاگر کیا گیا جو ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

پاکستان کا ٹیکسٹائل سیکٹر، پیرس معاہدے کے تحت قومی طور پر طے شدہ شراکت کے مطابق 2030 تک گرین ہاؤس گیس کے اخراج کو 30 فیصد تک کم کرنے کے عزم میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے اگر یہ شعبہ قابل تجدید توانائی پر منتقل ہو جائے۔ تاہم، یہ سیکٹر زیادہ تر فوسل فیول پر مبنی گرڈ بجلی پر انحصار کرتا ہے جو اخراج میں بڑا حصہ ڈالتی ہے۔ منظرعام پر آنے والی اس رپورٹ نے ٹیکسٹائل کی صنعت میں توانائی کے استعمال، گرڈ بجلی پر انحصار، اور قابل تجدید توانائی میں منتقلی کے مواقع کا جائزہ لیا۔ تحقیق کا مقصد صنعتی کاربن کمی کی کوششوں کو قومی اور بین الاقوامی موسمیاتی اہداف کے ساتھ ہم آہنگ کرنا تھا۔

آلٹرنیٹ ڈویلپمنٹ سروسز کے سی ای او امجد نذیر نے اپنے خطاب میں کہا کہ موسمیاتی تبدیلوں اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے نمٹنے کے لیے ٹیکسٹائل صنعت کو اپنا کردار کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر، جو توانائی کا بڑا صارف ہے اور فوسل فیولز پر انحصار کرتا ہے، کاربن کمی کے لیے ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے۔ قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری سے ناصرف موسمیاتی مسائل کا حل ممکن ہے بلکہ معاشی ترقی اور عالمی مقابلہ بازی کے نئے دروازے بھی کھل سکتے ہیں۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری بشیر احمد، سابق سی ای او فیسکو (فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی) نے 1994 کے بجلی کی پالیسی اور بجلی کے سرکاری سے نجی شعبے میں منتقلی اور اس کے نتیجہ میں گردشی قرضے اور بڑھتے ہوئے ٹیرف جیسے مسائل کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے صنعتوں کے لیے قابل تجدید توانائی کے حل کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو بالآخر ہوا اور شمسی توانائی کی طرف منتقل ہونا ہو گا۔

احسن عمر، کمرشل ڈائریکٹر، باٹا پاکستان نے اپنے خطاب میں پائیداری کے فریم ورک پر ایک ماڈل پیش کیا جس میں صنعتوں اور صارفین دونوں کی مشترکہ ذمہ داری پر زور دیا کہ وہ کاربن کی کمی میں حصہ ڈالیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر صارفین ماحول دشمن مصنوعات خریدنا بند کر دیں تو کمپنیاں مجبور ہو جائیں گی کہ وہ اپنے طریقے بدلیں۔

این ٹی یو کے پروفیسر ڈاکٹر شہود الزمان نے اے ڈی ایس کی طرف سے تحقیقی رپورٹ کے اہم نتائج پیش کیے جبکہ شیر علی، جنرل منیجر، صداقت ٹیکسٹائل لمیٹڈ نے ٹیکسٹائل صنعت کے قابل تجدید توانائی کی طرف پیش رفت پر روشنی ڈالی۔

آخر میں ڈاکٹر یاسر نواب نے اپنے خطاب میں آگاہ کیا کہ حالیہ دنوں میں بیش تر یورپی ممالک میں ہماری ٹیکسٹائل کی مصنوعات کی خرید کم ہو رہی ہے جس کی وجہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کا کلین اور گرین انرجی کا استعمال نہ کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آنے والے دنوں میں یورپ کے کاربن بارڑ ایڈجسٹمنٹ میکانزم کی وجہ سے ہماری ایکسپورٹ مزید متاثر ہوں گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ ٹیکسٹائل سیکٹر قابل تجدید توانائی پر منتقل ہو۔