پاکستان کے طول و عرض پہ دیکھا جائے تو اس وقت انتہا پسندی کا گھوڑا ہر طرف بے لگام دوڑتا ہوا نظر آتا ہے۔ ایک طرف انتہا پسند خیالات رکھنے والی تحریک لبیک پاکستان ملک میں رہنے والی اقلیتوں اور دوسرے فرقوں کے مسلمانوں کے لیے زندگی تنگ کر رہی ہے، تو دوسری طرف توہین مذہب کی آڑ میں لوگوں کو بلیک میل کرنے والے عناصر بھی سرگرم عمل ہیں، جنہوں نے اب تک درجنوں افراد کی زندگیوں میں زہر کھول کر انہیں سلاخوں کے پیچھے پھینکوا دیا ہے۔
الزام لگایا جا رہا ہے کہ اس حوالے سے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے کچھ افسران بھی توہین مذہب کے نام پر مال بنانے والے مافیا کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ اس مافیا کی خطرناک سرگرمیوں کے باعث چار بچوں کی ماں، ایک عیسائی عورت، جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلی گئی ہے جبکہ یہ مافیا ایسے پڑھے لکھے نوجوانوں کو بھی اپنا شکار بنانے کی کوشش کر رہا ہے، جو مذہبی یا پھر فرقہ ورانہ حوالے سے ایک مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں اور ان معاملات میں مدلل دلائل کے ذریعے اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس مافیا کے ارکان مختلف واٹس ایپ گروپس اور فیس بک پر مختلف مکالماتی کلبز کو جوائن کرتے ہیں اور اس کے بعد دلیل کے نام پر اپنے مخالف سے ایسی بات کہلوانا چاہتے ہیں جس کو وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کر سکیں۔
معاشرہ اجتماعی طور پر اتنے پاگل پن کا شکار ہے کہ وہ توہین مذہب کے کسی بھی مقدمے کے حوالے سے حالات اور واقعات کا جائزہ لینے کا بالکل قائل نہیں ہے۔ کسی پر توہین مذہب کا الزام لگنے کی دیر ہوتی ہے اور مولوی فوراً گاؤں یا کسی پسماندہ علاقے کی مسجد کے لاؤڈ سپیکر کا غلط استعمال شروع کر دیتا ہے۔ کچھ ہی دیر میں خادم رضوی کے غنڈے وہاں جمع ہو جاتے ہیں اور الزام کے شکار فرد کے گھر کا گھیراؤ کر لیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اسے وہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ موت کے بعد بھی اس کے رشتہ داروں کا پیچھا کیا جاتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ اس کی لاش کی تدفین بھی نہ ہو پائے۔
تھر کا افسوس ناک واقعہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہمارے اجتماعی شعور پر ماتم کے علاوہ کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ ایک ایسی دھرتی جہاں صوفیا نے کئی صدیوں تک لوگوں کے دلوں پر حکومت کی، وہاں اب ریاست کی سرپرستی میں مولویوں کی غنڈہ گردی چل رہی ہے جبکہ جعلی پیر، مشائخ اور تنگ نظر ملاؤں کے اتحاد نے سندھ کی رواداری پسند دھرتی کو زہر آلود بنانے کا قصد کر لیا ہے۔
تاہم سندھ کے قوم پرستوں اور سول سوسائٹی نے مولویوں کو یہ بتایا کہ مذہب کی تشریح پر صرف ان کی اجارہ داری نہیں ہے بلکہ مذہب کی ایک ایسی تشریح بھی کی جا سکتی ہے، جس میں تمام انسان خدا کی مخلوق تسلیم کیے جائیں اور ان کا احترام لازم قرار دیا جائے۔ سندھ کے قوم پرستوں کا یہ کام قابل تحیسن ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مذہبی نفرت کے اس بحرالکاہل میں سندھ کے چند علاقے صرف چھوٹے جزیروں کی طرح ہیں، جنہیں نفرت کی آندھیاں کبھی بھی تہس نہس کر سکتی ہیں۔
ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کو ہر شخص اس لیے بے دھڑک استعمال کرتا ہے کیونکہ ریاست نے بھی اس قانون کو ماضی میں سیاست دانوں، تجزیہ نگاروں اور دوسرے ناقدین کے خلاف استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر جنگ گروپ سے وابستہ کئی افراد کے خلاف اس کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ نواز شریف، احسن اقبال، سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت دوسرے سیاست دانوں کے خلاف بھی اس قانون کو دھمکی کے طور پر استعمال کیا گیا۔
مبصرین سوال اٹھاتے ہیں کہ جب ریاست خود اس قانون کو اس طریقے سے استعمال کرے گی تو اس کے غلط استعمال کو کون روک سکتا ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ توہین مذہب کے قانون اور اس کے حوالے سے طاقت کے توازن کا بھی تجزیہ کیا جانا چاہیے۔ جس طرح مولوی زمینوں پر قبضہ کرتے وقت اس توازن کو ذہن میں رکھتا ہے اور کبھی بھی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے کسی پلاٹ پر کوئی غیر قانونی مسجد یا مدرسہ قائم نہیں کرتا، بالکل اسی طرح اس ہتھیار کا استعمال بھی طاقت وروں کے خلاف کم ہوتا ہے۔
جب کسی عام آدمی پر توہین مذہب کا الزام لگتا ہے اور وہ یہ دلیل دیتا ہے کہ اس کی فیس بک آئی ڈی یا سوشل میڈیا آئی ڈی ہیک کر لی گئی ہے، تو مولوی سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور انہیں معافی نہیں دیتے لیکن اسی مذہبی طبقے نے جنید جمشید اور دوسرے مولویوں کو اس لیے معافی دے دی کیونکہ ان کے تعلقات ریاستی اداروں کے ساتھ تھے۔
فرض کر لیں کہ کل اگر کسی جنرل، کسی جج، کسی بڑے سیاست دان یا کسی بڑے مذہبی رہنما کا بھی سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہیک ہو جائے اور اس سے اگر نعوذ باللہ گستاخانہ مواد اپلوڈ ہو جائے، تو پھر کیا خادم رضوی کے کارکنان اس کے گھر کا بھی گھیراؤ کریں گے؟ پاکستان کے سماج میں موجود طاقت کا توازن یہ واضح طور پر بتاتا ہے کہ اس معاملے میں مذہب کے نام پر بدمعاشی کرنے والے انتہا پسند فوراً بھیگی بلی بن جائیں گے۔
ناقدین کا خیال ہے کہ ریاست اس طرح کے مذہبی عناصر کی اس وقت تک سرپرستی نہیں چھوڑے گی، جب تک ان انتہا پسندوں کے ہاتھ اپنے سرپرستوں کی جانب نہیں بڑھیں گے۔
ماضی میں مولوی طارق مسعود نفرتیں پھیلاتے رہے ہیں اور آج وہ خود نفرت کا شکار ہو گئے ہیں اور ملک واپس آنے میں خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ ایک دوسری صورت یہی ہو سکتی ہے کہ اس طرح مولوی خود اگر اس نفرت کا شکار ہوں تو شاید ان کو یہ ہوش آئے کہ مذہب کے نام پر نفرت کا یہ جو سرطان بڑھ رہا ہے اس کو فوری طور پر روکا جائے ورنہ معاشرے کے حصے میں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔
تیسرا حل یہ ہے کہ جو توہین مذہب کا غلط الزام لگائے، اس کو بھی وہی سزا ملے جو ایک ملزم کو مل سکتی ہے۔ لیکن اس تجویز کی مولوی بھرپور مخالفت کرتے ہیں کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ اگر ایسا کوئی قانون بن گیا اور ایمانداری سے اس پر عمل ہو گیا تو 50 فیصد سے زیادہ ملا جیل کی ہوا کھا رہے ہوں گے۔