اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل پولیس ڈاکٹر اکبر ناصر خان نے انکشاف کیا ہے کہ حکومت سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی سیکیورٹی پر سالانہ 24 کروڑ روپے خرچ کر رہی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ بات بدھ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں سامنے آئی جس کی صدارت پی ٹی آئی کے سینیٹر محسن عزیز نے کی۔
کارروائی کے دوران آئی جی اکبر ناصر سے عمران خان کی سیکیورٹی واپس لینے اور ان کی حفاظت کے لیے تعینات نجی سیکیورٹی کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کرنے کی وجوہات کے بارے میں پوچھا گیا۔
آئی جی نے کمیٹی کو بتایا کہ دو نجی سیکیورٹی کمپنیوں کے علاوہ خیبرپختونخوا، اسلام آباد، گلگت بلتستان پولیس، فرنٹیئر کانسٹیبلری اور رینجرز کے 266 اہلکار عمران خان کی سیکیورٹی کے لیے تعینات کیے گئے ہیں۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ وزارت داخلہ کی جانب سے لائسنس منسوخ کیے گئے تاہم وہ اب بھی سیکیورٹی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
کمیٹی کو بریفنگ میں سربراہ وفاقی پولیس نے واضح کیا کہ سیکیورٹی کیلئے جو بھی لوگ کسی اور جگہ سے آئے، وہ اسلام آباد پولیس کی کمانڈ میں ہیں۔
آئی جی اکبر ناصر نے سابق وزرائے اعظم اور ارکان کی سیکیورٹی پبلک میں زیر بحث لانے کی مخالفت بھی کردی۔ کہا کہ سنجیدگی کا تقاضہ ہے کہ اسے میڈیا میں ڈسکس نہ کیا جائے کیونکہ معلومات حملہ کرنے والوں کے پاس بھی پہنچ جاتی ہیں۔
آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ دیگر تمام وزرائے اعظم کو یکساں سیکیورٹی دی جاتی ہے، ان میں سے کسی کی حفاظت کیلئے 5 سے زیادہ اہلکار تعینات نہیں، جبکہ شاہد خاقان عباسی نے تو بطور سابق وزیراعظم کوئی سیکیورٹی نہیں لی۔
سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ سابق وزیر اعظم ایک 'عالمی رہنما' تھے جنہوں نے متعدد بار اسلامو فوبیا کے بارے میں بات کی ہے۔ فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے محسن عزیز نے کہا کہ سیکورٹی ایجنسیوں اور پولیس نے خود دھمکیوں کی تصدیق کی ہے اور اس صورتحال میں عمران خان کی سیکورٹی واپس لینے کے احکامات 'غیر قانونی اور نامناسب' ہیں۔