اے ایس ایف کی جانب سے اسلحہ خریدنے میں 24 کروڑ روپے کی خرد برد کرکے جعلی دستاویزات جمع کروانے کا انکشاف ہوا ہے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں سول ایوی ایشن اور پی آئی اے سے متعلق آڈٹ پیراز میں انکشاف ہوا ہے کہ ائیرپورٹ سیکیورٹی فورس نے اسلحہ خریدنے میں 24 کروڑ روپے کی خرد برد کی۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سات روز میں انکوائری کرکے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کرنے کی ہدایات کی۔
آڈٹ دستاویزات کے مطابق اے ایس ایف کراچی نے سال 2017 میں 24 کروڑ روپے سے زائد کا اسلحہ خریدا لیکن کوالٹی اور کوانٹٹی سرٹیفکیٹ نہیں لئے گئے اور نہ ہی اسلحہ کو حاصل کرنے کی سند حاصل کی۔
دستاویزات کے مطابق 365 عدد 9 ایم ایم پستول پراگون ملٹی سروس نامی کمپنی سے 6 کروڑ 20 لاکھ روپے میں خریدے گئے، 160 عدد امریکی ساختہ ایس ایم جیز پاک جاپان ٹریڈنگ کمپنی سے 4 کروڑ میں خریدے گئے اور اس کی خریداری میں بھی خرد برد پائی گئی۔
دستاویزات کے مطابق 1،175 عدد چائنی ساختہ ایس ایم جیز ظفر، اظفر نامی کمپنی سے 4 کروڑ 91 لاکھ روپے میں خریدی گئی اس خریداری میں بھی خرد برد پائی گئی۔
آڈٹ دستاویزات کے مطابق پاک جاپان ٹریڈنگ نامی کمپنی سے امریکی ساختہ 150 ایس ایم جیز 4 کروڑ 48 لاکھ میں جبکہ پراگون ملٹی سروس نامی کمپنی راولپنڈی سے 1،030 عدد ایس ایم جیز 4 کروڑ 71 لاکھ روپے میں خریدی گئی اور ان دونوں خریداری میں بھی شفافیت نظر نہیں آئی۔
نور عالم خان کی صدارت میں پارلیمنٹ کی پبلک اکاونٹس کمیٹی کا اجلاس پارلیمنٹ میں ہوا۔ چیئر پورٹ سکیورٹی فورس کے ہتیھاروں کی خریداری سے متعلق آڈٹ پیرا محکمانہ کمیٹی میں سیٹل کرنے کی کوشش میں پر کمیٹی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے قومی خزانے سے مذاق برداشت نہیں کی جائے گی اور ایک ایک پیسے کا حساب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کریگی۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ آڈٹ کا محکمہ کچھ منظور نظر لوگوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے،کوئی بھی قانون سے بالا تر نہیں ہے، ہر قسم کی خرد برد پر حساب کتاب ہو گا۔ کمیٹی چیئرمین نے کہا کہ ہم اپنا پیٹ کاٹ کر ملک کی حفاظت کیلئے اسلحہ خریدتے ہیں۔
آڈیٹر جنرل نے کمیٹی کو بتایا کہ 2019 میں اس معاملے کی تحقیقات ہوئیں، اے ایس ایف نے جعلی دستاویزات دی تھی۔ پی اے سی نے آٹھ ستمبر تک ذمہ داران کا تعین کرنے کی ہدایت کر دی۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ ذمہ داران کا تعین کر کے ایف آئی آر درج کرائی جائے۔
کمیٹی نے واضح کیا کہ اگر وہ افسران آرمی میں ہیں تو متعلقہ جنرل کو کارروائی کیلئے بتائیں۔