ایوان صدر میں آج صدر عارف علوی کے ساتھ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم کی اہم ملاقات ہوئی جو کم و بیش دو گھنٹے تک جاری رہی۔ یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب توقع کی جا رہی تھی کہ صدر مملکت وزارت قانون اور الیکشن کمیشن کے مؤقف کو نظرانداز کرتے ہوئے اگلے عام انتخابات کے لئے آج کسی تاریخ کا اعلان کرنے والے تھے۔ ذرائع یہ بتا رہے تھے کہ صدر عارف علوی انتخابات کے لئے نومبر کی کوئی تاریخ دینے جا رہے تھے۔ یہ خبر دی ہے سینیئر صحافی کامران یوسف نے۔
یوٹیوب پر اپنے حالیہ وی-لاگ میں کامران یوسف نے بتایا کہ تینوں اہم شخصیات کے مابین ہونے والی یہ ملاقات نہایت رازداری کے ماحول میں ہوئی۔ ایوان صدر میں جب یہ ملاقات جاری تھی تو اس دوران تمام سٹاف کو چوتھے فلور سے ہٹا دیا گیا تھا۔ صدر مملکت کے ساتھ آرمی چیف کی ایک ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب 28 نومبر 2022 کو آرمی چیف نے کمان سنبھالی تھی۔ اس کے بعد اب دونوں کی ملاقات ہوئی ہے۔اس دوران دونوں کے مابین کم از کم آفیشلی کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ اس ملاقات کے حوالے سے نہ آئی ایس پی آر کی جانب سے کوئی پریس ریلیز جاری گئی ہے اور نا ہی ایوان صدر نے کوئی بیان دیا ہے۔
اس ملاقات میں کون سے معاملات زیر بحث آئے، اس حوالے سے حتمی طور پر تو بس یہی تین شخصیات جانتی ہیں تاہم قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اس میں آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹس ایکٹ ترمیمی بلوں پر صدر کے ٹویٹ کے بعد پیش آنے والی صورت حال پر ضرور بات چیت کی گئی ہو گی۔ مذکورہ بلوں سے متعلق صدر علوی کے مؤقف کے بعد پاکستان کو عالمی سطح پر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
دوسرا معاملہ انتخابات کی تاریخ کا ہے جس پر یہاں بات چیت ہوئی ہو گی کیونکہ الیکشن کمیشن کے شیڈول کے برعکس کوئی تاریخ صدر مملکت دے دیتے ہیں تو انتخابات کو لے کر ملک میں تنازع پیدا ہو سکتا ہے۔ گمان کیا جا سکتا ہے کہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے صدر مملکت سے ایسا کوئی اقدام لینے سے باز رہنے کی بات کی ہو گی۔ بعد ازاں شاہزیب خانزادہ کے پروگرام میں کامران یوسف نے یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی کہ میں آپ کو بہت محتاط انداز میں بتا رہا ہوں کہ صدر عارف علوی جو کہ الیکشن کی تاریخ دینے جا رہے تھے اس ملاقات کی وجہ سے ہی وہ الیکشن کی تاریخ ابھی تک نہیں دے سکے ہیں۔
اس کے علاوہ صدر مملکت چونکہ فوجی اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے مابین ایک رابطہ کار کا کردار بھی ادا کرتے رہے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ اس ملاقات میں اہم پیغامات کا تبادلہ کیا گیا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پس پردہ 1999 کی طرح کوئی ایسا منصوبہ بن رہا ہو جس میں عمران خان کو ملک سے باہر بھجوانے کا انتظام کروایا جا رہا ہو۔ 1999 میں نواز شریف کو اسی طرح سعودی عرب کی مدد سے ملک سے باہر جانے کی اجازت دلوائی گئی تھی اور نواز شریف سعودیہ چلے گئے تھے۔ پاکستان میں جس طرح حالات راتوں رات بدل جاتے ہیں تو ہو سکتا ہے عمران خان کی سزا معطلی اور انہیں ملک سے باہر بھجوانے کا کوئی پس پردہ منصوبہ ترتیب پا رہا ہو۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان باہر چلے جائیں گے؟ عمران خان کے ملک سے باہر جانے کا انحصار دو باتوں پر ہے؛ پہلی یہ کہ کیا عمران خان سیاست سے لاتعلق ہونے اور ملک چھوڑنے کی حامی بھر لیں گے؟ جبکہ دوسری بات یہ کہ کیا کوئی ملک ان کی گارنٹی دینے کو تیار ہو جائے گے؟ عمران خان ماضی میں متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ وہ ملک چھوڑ کر باہر نہیں جائیں گے اور ان کے حامی بھی عمران خان سے یہی توقع کرتے ہیں کہ وہ نواز شریف کی طرح ملک چھوڑ کر نہ جائیں۔ لیکن یہ پاکستان کی سیاست ہے جس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ چیزیں دیکھتے ہی دیکھتے بدل جاتی ہیں اور موجودہ تناظر میں ہونے والی یہ ملاقات نہایت معنی خیز ہے۔