شوکت علی جنہوں نے جو گایا وہ پذیرائی کی سرحدوں کو پار کرگیا۔ پنجابی زبان میں گلوکاری کرنے والا ہر گلوکار شوکت علی جیسی شہرت اور مقبولیت چاہتا ہے۔ کیونکہ ان کی گلوکاری میں زندگی کی حرارت اور جوش ملتا ہے۔ جو جب جب نغمہ سرائی کرتے، دلوں کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگتیں۔ لب خود بخود ان کے بولوں کا ساتھ دیتے۔ شوکت علی کو شوکت علی بننے کے لیے ایک پل صراط سے گزرنا پڑا۔ وہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ 1961میں جب گلوکاری کے اسی شوق کو جلا بخشنے کے لیے وہ لاہور میں ریڈیو پاکستان آڈیشن دینے آئے تو سازندوں نے انتہائی بے زاری کا مظاہرہ کیا۔
ایک دو تو ایسے تھے، جنہوں نے شوکت علی کی گلوکاری میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ ان کی بے زاری کا یہ عالم تھا کہ آڈیشن کے دوران ایک دو بار تو ان کا آلہ موسیقی بھی گرا۔ جو اس بات کی جانب اشارہ تھا کہ وہ بس دل رکھنے کے لیے ساز بجارہے ہیں۔ جبھی دل برداشتہ ہو کر شوکت علی الٹے قدموں لوٹ آئے۔ لیکن دو سال کے اندر ہی انہوں نے اپنی منفرد گلوکاری کے ذریعے ریڈیو پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ ان کی خدمات حاصل کریں۔
شوکت علی کامیابی اور کامرانی کی اُس راہ پر چلے، جس کے ہر موڑ پر پذیرائی کی سند انہیں ملتی چلی گئی۔ موسیقار گھرانے سے تعلق تھا، اسی لیے گلوکاری میں کب اونچے سر لگانے ہیں اور کب نیچے اس کا ہنر انہیں بخوبی آتا تھا ۔ پنجاب کا فخر کہلانے والے شوکت علی کے ملی نغموں ’اپنا پرچم ایک اپنا قائد اعظم ایک‘ اور ’ساتھیوں مجاہدوں‘آج بھی جب کہیں بجتا ہے تو سمجھیں جسم و جاں میں ایک نئی روح پھونک دیتا ہے۔ بے پناہ شہرت ملنے کے باوجود جو بھی ان سے ملتا، وہ اس بات کا شاہد ہے کہ شوکت علی انتہائی انکساری اور سادہ طبیعت کے حامل تھے۔کسی رپورٹر نے اس سادگی کی وجہ دریافت کی تو کہا کہ یہی سوال ایک مرتبہ والدہ سے کیا کہ جب لوگ مشہور ہوجاتے ہیں تو ان کے اندر تکبر اور غرور کیوں غالب آجاتا ہے۔ وہ تو ایسے نہیں، جبکہ ان کے چاہنے والے دنیا کے ہرگوشے میں ہیں۔ شوکت علی کے مطابق والدہ نے مسکراتے ہوئے صرف یہ کہا کہ ’میں نے تمہارے منہ سے وہ زہر والی تھیلی کاٹ دی ہے، جو تمہیں دوسروں کو حقیر سمجھنے پر اکسائے۔‘
شوکت علی جہاں محمد رفیع کے بہت بڑے مداح تھے وہیں رفیع صاحب بھی، دونوں کا تعلق پنجاب سے تھا، تو ایک انسیت اور اپنائیت کی جھلک ملتی۔کم عمری میں شوکت علی عموماً رفیع صاحب کے ہی گیت گنگناتے۔ شوکت علی کا کہنا تھا کہ ایک بار لندن میں ان کی رفیع صاحب سے جب ملاقات ہوئی تو انہوں نے شوکت علی کو ’خاں صاحب‘ کہہ کر مخاطب کیا جس پر شوکت علی نے انتہائی عاجزی سے کہا کہ گناہ گار نہ کریں یہ کہہ کر، اپنا شاگرد کہیں بس۔‘ رفیع صاحب جب تک حیات رہے، دونوں کی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔
شوکت علی کی بھٹو خاندان سے خاص محبت اور پیار رہا۔ بھٹو صاحب کو وہ درویش صفت انسان سمجھتے تھے۔ 70کی دہائی میں جب شہنشاہ ایران پاکستان آئے تو شوکت علی کو بطور خاص ان کے سامنے پرفارمنس کے لیے مدعو کیا۔ شوکت علی کو نوڈیرو میں گلوکاری کا مظاہر ہ کرنا تھا۔ لیکن مسئلہ یہ پیش آرہا تھا کہ انہیں اپنے ہارمونیم کو رکھنے کے لیے اونچی چیز نہیں مل رہی تھی۔ تبھی ان کی نگاہ، بھٹو صاحب کے گھر میں رکھے لکڑی کے اونچے گلدان پر پڑی۔ جسے انہوں نے ہارمونیم رکھنے کے لیے ذرا سا کٹوانا شروع کیا۔ نوڈیرو میں ملازم بھاگ کر بھٹو صاحب کے پاس پہنچے اور کہا کہ شوکت علی، گلدان کٹو ارہے ہیں۔ بھٹو صاحب نے برجستہ کہا کہ کرنے دو۔ یہ شوکت علی کا گھر ہے۔ جو چاہے کرے۔ یہ لگاؤ بے نظیر بھٹو تک پہنچا۔
جب 18دسمبر 1987میں بے نظیر بھٹو نے کراچی کے ککری گراؤنڈ میں اپنی شادی کا استقبالیہ دیا تو جہاں ملک بھر کے فنکار اس پرمسرت لمحات میں محترمہ کے ساتھ تھے۔ وہیں شوکت علی نے بھی سینکڑوں کی تعداد میں مہمانوں کی موجودگی میں اپنا جوشیلا ملی نغمہ ’ساتھیوں مجاہدو جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘ ہارمونیم تھام کر سنایا۔ جبکہ شوکت علی نے اپنا ہی لکھا ہوا بے نظیر بھٹو کا سہرہ بھی گنگنایا۔
اگر فرصت ملے تو شوکت علی کا ایک ملی نغمہ ’ اسی زمین کے لیے‘ کا ضرور نظارہ کریں۔ یہ گیت جب 1973میں پی ٹی وی سے نشر کیا گیا تو کورس میں کوئی اور نہیں بشریٰ انصاری بھی تھیں۔ جنہوں نے لہک لہک کر شوکت علی کے ساتھ سُر سے سُر ملائے۔ شوکت علی کا ماننا تھا کہ بعض دفعہ وہ اپنے ہی گانے سن کر رو پڑتے ہیں اور اکثر سوچ کے اس سمندر میں گم رہتے ہیں کہ ان کی وفات کے بعد یہ آواز اکیلی رہ جائے گی۔