جسٹس شوکت صدیقی: ہیرو یا ولن؟

جسٹس شوکت صدیقی: ہیرو یا ولن؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی بالآخر سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش پر اپنے عہدے سے برطرف کر دیے گئے۔ صدر مملکت عارف علوی نے سپریم جوڈیشیل کونسل کی بھیجی گئی سمری جس میں کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو برخاست کرنے کی سفارش کی گئی تھی اس پر اپنے دستخط ثبت کیے اور یوں وطن عزیز میں جاری طاقت کی اس لڑائی میں ایک اور پیادہ قربان کر دیا گیا۔

شوکت صدیقی پر الزامات

شوکت عزیز صدیقی پر الزامات تھے کہ انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بنچوں کی تشکیل کے بارے میں وکلا بار کونسل سے خطاب کرتے ہوئے آئی ایس آئی کے ان بنچوں کی تشکیل پر اثر انداز ہونے کے الزامات لگا کر کر قومی اداروں کی تضحیک تھی۔ مزید برآں شوکت صدیقی نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے ایک خفیہ ایجنسی کے نمائندوں نے ملاقات کر کے کہا تھا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو انتخابات سے قبل ضمانت نہیں ملنی چاہیے اس لئے آپ ان کی ضمانت کیلئے تشکیل دیے گئے بنچ میں سے شوکت صدیقی کا نام نکال دیجئے۔

شوکت صدیقی نے کیسے گمان کر لیا ہے کہ میڈیا ان کی پریس ٹاک یامؤقف کو من و عن عوام تک پہنچا دے گا؟

جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے اپنی برطرفی پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی برطرفی کے فیصلے کی توقع کر رہے تھے اور وہ جانتے تھے کہ سچ بولنے کی پاداش میں انہیں ملازمت سے برطرف کیا جائے گا۔ شوکت صدیقی نے جلد ہی پریس کانفرنس منعقد کر کے حقائق عوام تک پہنچانے کا عندیہ بھی دیا۔ ظاہر سی بات ہے کہ وہ اپنی برطرفی پر چپ نہیں بیٹھیں گے اور جب وہ مزید حقائق میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچائیں گے یا کسی وکلا کنونشن سے خطاب میں اپنے حصے کا سچ بولیں گے تو شاید مقتدر قوتوں کی سماعتوں میں وہ زہر گھولنے کا باعث بنے گا۔ لیکن حیرت یہ ہے کہ جسٹس شوکت صدیقی نے کیسے گمان کر لیا ہے کہ میڈیا ان کی پریس ٹاک یامؤقف کو من و عن عوام تک پہنچا دے گا۔

وہ غالباً سود و زیاں کی دنیا سے کہیں آگے پہنچ چکے ہیں

یہاں اب خبریں، ریڈیو ٹیلی وژن پر حالات حاضرہ کے پروگرام اور یہاں تک کہ ٹکرز بھی مرضی کے بغیر نہیں چلتے۔ اس میڈیائی دشت کی صحرائی کے بعد کم سے کم اگر میرے جیسا کم فہم شخص یہ بات سمجھ سکتا ہے تو شوکت عزیز صاحب تو بیحد جہاندیدہ انسان ہیں اور غالباً ایک ادارے کے انتہائی اعلی اور بڑے افسر کے خود ان کے گھر جا کر انہیں سمجھانے سے بھی اگر شوکت عزیز صاحب کو یہ بات سمجھ نہیں آئی تو وہ غالباً سود و زیاں کی دنیا سے کہیں آگے پہنچ چکے ہیں۔

شوکت صدیقی کے اقلیتوں کے خلاف تعصبانہ ریمارکس

جسٹس شوکت صدیقی کے اقلیتوں کے خلاف تعصبانہ ریمارکس اور ان کے مذہب کی بنیاد پر دیے گئے فیصلوں سے لاکھ اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن ان کی برطرفی کے طریقہ کار کو کسی بھی صورت درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان کی برطرفی ہمارے ملک کے نظام پر کئی سوالیہ نشانات کھڑے کرتی ہے۔ مثال کے طور پر جب اسی ملک کے منتخب وزیر اعظم نواز شریف کو بنا کسی ثبوت کے سزا سناتے وقت گاڈ فادر اور سسلین مافیا کہہ کر پکارا گیا تو کیا اس سے پارلیمان اور عوامی مینڈیٹ کی تضحیک نہیں ہوئی تھی اور جب نواز شریف اور اس کی بیٹی کو پابند سلاسل رکھ کر ان کی ضمانتوں کی اپیلوں کو التوا میں ڈالا گیا کیا، اس سے قانون و آئین کا نام روشن اور اونچا ہوا تھا؟ کیا نواز شریف اور مریم نواز کی سزائیں معطل ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے کسی معزز جج کو سپریم جوڈیشیل کونسل بھیجا گیا؟ یا کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ کسی بھی موقع پر ایک منتخب وزیراعظم کی تضحیک کرنے والوں کو اسی طرح سپریم جوڈیشیل کونسل کے ذریعے برطرف کر دیا جائے گا؟

قانون اور آئین سے ماورا افراد اور ادارے کسی طور بھی آئین و دستور کی حکمرانی کا خواب پورا نہیں ہونے دیں گے

یہ ایک عجیب گورکھ دھندا ہے کہ قانون کو جب جی میں آئے اپنی مرضی سے تراش خراش کر اس میں سے سیاسی اور دیگر مخالفین کو سزائیں سنانے کیلئے راستے نکال لیے جاتے ہیں۔ آج جسٹس شوکت عزیز کو نکالا گیا ہے کل کو جسٹس قاضی عیسیٰ فائز جو مقتدر قوتوں کے دل یزداں میں کانٹے کی مانند کھٹکتے ہیں انہیں بھی باہر نکالا جا سکتا ہے۔ یعنی یہ بات طے ہے کہ اس وطن میں قانون اور آئین سے ماورا افراد اور ادارے کسی طور بھی آئین و دستور کی حکمرانی کا خواب پورا نہیں ہونے دیں گے۔ شوکت عزیز صدیقی کا یوں برطرف ہونا یہ سوال بھی اٹھاتا ہے کہ جب ایک ہائیکورٹ کا جج خود ایک شفاف قانونی مرحلے سے گزر کر انصاف تک رسائی ممکن نہیں بنانے پاتا تو پھر عام آدمی کیوں کر انصاف ملنے کی توقع کرے؟ ویسے بھی جب انصاف فراہم کرنے والے آئین و دستور کے بجائے اس کے کہے کو قانون مانیں تو پھر انصاف اور آئین نامی الفاظ مضحکہ خیز معلوم ہوتے ہیں۔

شوکت عزیز صدیقی صاحب کا باب انجام کو نہیں پہنچا

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا کے مصداق ابھی شوکت عزیز صدیقی صاحب کا باب انجام کو نہیں پہنچا ہے اور اگر ان کی من پسند مذہبی سیاسی جماعتوں کے وکلا ونگز کے علاوہ کسی بڑی سیاسی جماعت کے وکلا ونگ نے ان کی حمایت میں وزن رکھ دیا تو مقتدر قوتوں کو مشرف کی مانند بہت سے بکروں کی بلی دینی پڑ جائے گی۔ خیر کوئی اس وقت جب ایک ان دیکھا مارشل لا اپنے جوبن پر ہے یہ رسک اٹھانے کی ہمت کرتا ہے کہ نہیں یہ بذات خود ایک اہم سوال ہے۔ اسی طرح سوال یہ بھی اہم ہے کہ آخر کب تک بے چہرہ زنجیروں میں آئین، قانون اور جمہوریت کو جکڑ کر مقید رکھا جائے گا اور آخر کب تک رعایا کو خوف میں قید رکھ کر جناح کے پاکستان کو لاپتہ و بے نشاں رکھا جائے گا؟

'اب آزاد ہیں تو کس چیز کا سپنا دیکھیں؟'

فیض احمد فیض نے کہا تھا، یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر تھا جس کا انتظار یہ وہ سحر تو نہیں۔ کاش فیض صاحب کو آج ہم بتا پاتے کہ آج اکہتر برسوں بعد بھی ہم ان کی کہی گئی اس نظم کو دہرا کر دل کو تسلی دے رہے کہ ہیں "لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے"۔ منٹو نے کہا تھا پہلے غلام تھے تو آزادی کے سپنے دیکھتے تھے اب آزاد ہیں تو کس چیز کا سپنا دیکھیں"۔ اب وہ زندہ ہوتے تو انہیں ہم بتاتے کہ منٹو صاحب ہم سامراجی تسلط سے تو آزاد ہو گئے لیکن اپنوں کے تسلط سے آج تک آزادی نہیں پا سکے ہیں اور آج بھی 47 والی آزادی ملنے کے بعد ایک اور آزادی کا سپنا آنکھوں میں لیے بیٹھے ہیں۔ قانون کی آزادی، جمہور کی آزادی، آزادی اظہار رائے جیسے نجانے کتنے ہی سپنے ہیں جو ہماری کئی نسلیں آنکھوں میں لیے اگلے جہاں کوچ کر گئیں۔ مگر کم بخت یہ شام ایسی ہے کہ ڈھلنے کا نام ہی نہیں لیتی۔

یہ تاریکی بھی کبھی نہ کبھی ڈھل جائے گی

جسٹس منیر اور ایوب خان کے زمانے سے چھائی اس تاریک شب کی طوالت بہت طول پکڑ چکی ہے اور کم بخت سحر ہے کہ آنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ گر یہ طے ہے کہ ہر رات کی ایک صبح ہوتی ہے تو پھر ضرور یہ رات اور یہ تاریکی بھی کبھی نہ کبھی ڈھل جائے گی۔ جب یہ تاریکی ڈھلے گی اور جمہور و آئین کا سویرا پھوٹے گا تو جہاں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے شدت پسندانہ خیالات اور کئی متنازعہ فیصلوں کے باعث انہیں بھی اس ظلمت شب کو مسلط کرنے والوں کا حصہ دار قرار کیا جائے گا وہیں جسٹس شوکت عزیز کو ایک کڑے وقت میں آئین و قانون کو مقدم جانتے ہوئے اہل جمہور کے ساتھ کھڑا ہونے والوں میں بھی گردانا جائے گا۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔