الیکشن کمیشن نے PTI کو غیرملکی کمپنیوں سے ملنے والی رقوم کی تفصیلات جاری کردیں

الیکشن کمیشن نے PTI کو غیرملکی کمپنیوں سے ملنے والی رقوم کی تفصیلات جاری کردیں
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے پاکستان تحریکِ انصاف کو غیر ملکی کمپنیوں سے ملنی والی رقوم کی تفصیلات بھی جاری کردی گئی ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کی گئی تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کو غیرملکی کمپنیوں سے ممنوعہ رقوم یو ایس اے کی دو ایل ایل سیز کے ذریعے موصول ہوئیں۔

الیکشن کمیشن کے مطابق پی ٹی آئی کو امریکا کی 266 کمپنیوں سے 1لاکھ 29 ہزار 19ڈالر ممنوعہ رقم موصول ہوئی۔

الیکشن کمیشن کا بتانا ہے کہ پی ٹی آئی کو برطانیہ کی 43 کمپنیوں سے 16ہزار 226 ڈالر اور کینیڈا کی 13کمپنیوں سے 6 ہزار71 ڈالر ممنوعہ رقم موصول ہوئی۔

الیکشن کمیشن کے تفصیلی فیصلے کے مطابق تحریکِ انصاف نے جن تیرہ نامعلوم اکاؤنٹس کی ملکیت کو تسلیم نہیں کیا اس کی تفصیلات درج ذیل ہیں، بینک آف پنجاب کوئٹہ برانچ میں قاسم خان سوری نے اکاؤنٹ کھولا، اس اکاؤنٹ سے 5.350 ملین روپے نکالے گئے، قاسم سوری نے جو اکاؤنٹ کھولا 556 ملین روپے جمع کروائے گئے، میاں محمودالرشید کے ذریعے کھلوائے گئے اکاؤنٹس میں 20.372 ملین روپے جمع کروائے گئے، 16.182 ملین روپے مذکورہ اکاؤنٹس سے نکلوائے گئے، اسد قیصر کے نام پر کھلوائے گئے اکاؤنٹ میں2.127 ملین جمع کروائے گئے،اسد قیصر کے اکاؤنٹ سے 2.111 ملین نکلوائے گئے۔

فیصلے میں مزید لکھا گیا کہ پانچ سال میں اکاؤنٹس سے متعلق الیکشن کمیشن میں جمع کرائی معلومات غلط تھیں، پاکستانی بینکوں میں تحریکِ انصاف کے ملازمین کے نام پر 11.104 ملین روپے منتقل کیے گئے، پی ٹی آئی ملازمین کے بینک اکاؤنٹس میں جمع کرائے گئے 11.104 ملین روپے انکی ظاہر آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے، یہ شواہد عکاسی کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے نام پر ملازمین کے اکاؤنٹس میں پیسے بھجوائے جاتے رہے۔

الیکشن کمیشن نے تفصیلی فیصلے میں لکھا کہ ابراج گروپ امریکی حکام کے سامنے فراڈ کرکے پلی بارگین کر چکا ہے، ابراج گروپ نامی جس کمپنی سے پی ٹی آئی نے ڈونیشن لیے وہ فوجداری فراڈ میں ملوث ہے، 2018-21 تک پی ٹی آئی کے پاس موقع تھا کہ وہ فنڈز کے متعلق مکمل حقائق ظاہر کرتی، تحریکِ انصاف تمام حقائق اور فنڈز کا ذریعہ چھپانے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہی، عارف نقوی نے بیان حلفی کے ذریعے تسلیم کیاکہ وہ رضاکارانہ طور پر تحریکِ انصاف کی فنڈ ریزنگ مہم میں شامل رہا، عارف نقوی نے جو پوزیشن لی وہ یو اے ای کے قوانین کے برخلاف ہے، یو اے ای میں فنڈ ریزنگ کے لیے پہلے اجازت لینا پڑتی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ تحریکِ انصاف نے ابراج گروپ کے مالک عارف نقوی سے 21 لاکھ 21 ہزار 500 ڈالرز کی ممنوعہ فنڈنگ وصول کی، تحریکِ انصاف نے یو اے ای میں قائم کمپنی برسٹل انجینئرنگ سے 49 ہزار 965 ڈالرز کی ممنوعہ فنڈنگ وصول کی، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے مالیاتی سال دو ہزار آٹھ، نو سے سال دو ہزار بارہ تیرہ تک فراہم کردہ فورم میں درست حقائق نہیں دیے، 2008 سے لیکر 2013 تک فراہم کردہ اکاؤنٹس کی تفصیلات اسٹیٹ بنک کی تفصیلات کے بر خلاف ہے۔

الیکشن کمیشن نے فیصلے میں مزید کہا کہ تحریکِ انصاف نے الیکشن کمیشن میں 8 اکاؤنٹس کی ملکیت تسلیم کی اور 13 نامعلوم اکاؤنٹس سے لاتعلقی کا اظہار کیا، سٹیٹ بینک سے موصول ڈیٹا کے مطابق پی ٹی آئی نے جن 13 اکاؤنٹس سے لاتعلقی کا اظہار کیا درحقیقت وہ اکاؤنٹس پی ٹی آئی کی سینیئر قیادت کے ذریعے کھولے گئے، پی ٹی آئی نے مزید 3 بینک اکاؤنٹس کو بھی چھپایا جو مرکزی قیادت کے ذریعے کھلوائے گئے، مجموعی طور پر تحریکِ انصاف نے 16 بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات چھپائیں، 16 بینک اکاؤنٹس کا چھپایا جانا پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کی سنگین غفلت ہے، تحریکِ انصاف نے آئین کے آرٹیکل 17 کی ذیلی شق تین کی خلاف ورزی کی جبکہ پی ٹی آئی نے بھارت سے ممنوعہ فنڈنگ وصول کی۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق تحریکِ انصاف نے بھارتی نژاد امریکی بزنس میں رومیتا شیٹی سے 13750 ڈالرز وصول کیے۔ الیکشن کمیشن نے کہا کہ تحریک انصاف وضاحت دے انکے ممنوعہ فنڈنگ کیوں نہ ضبط کر لیے جائیں۔

فیصلے میں دی گئی اہم ترین تفصیلات:

  • تحریک انصاف نے جانتے بوجھتے ایک ایسی کمپنی سے رقم وصول کی جو ایک بزنس ٹائیکون چلا رہا تھا اور یہ شخص فوجداری فراڈ میں ملوث تھا۔

  • تحریکِ انصاف کی جانب سے اصل ڈونرز کی تمام تفصیلات فراہم نہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ ووٹن کرکٹ کو ممنوعہ فنڈز حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا تھا۔

  • پاکستان تحریکِ انصاف نے 13 بینک اکاؤنٹس سے لاتعلقی کا اظہار کیا لیکن سٹیٹ بینک کے ریکارڈ کے مطابق یہ پی ٹی آئی اور اس کی سینیئر قیادت کے نام پر کھولے گئے اکاؤنٹس ہیں۔

  • الیکشن کمیشن نے لکھا کہ پی ٹی آئی کو ان تمام حقائق کے بارے میں علم تھا اور ان اکاؤنٹس کے بارے میں یہ مؤقف تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ یہ لوگ ان اکاؤنٹس سے لاعلم تھے۔

  • سابق وزیر اعظم عمران خان پاکستانی قوانین کے مطابق اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام رہے اور ان کی جانب سے جمع کروائی گئی دستاویزات 'انتہائی غلط ہیں'۔