بابائے قوم حضرت قائد اعظم ؒنے قیام پاکستان سے پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ پاکستان کا آئندہ نظامِ حکومت جمہوریت اور آئین کی بالا دستی سے عبارت ہوگا۔
لیکن افسوس کہ آپ کی جلد رحلت کے ساتھ ہی غیر جمہوری اور غیر آئینی قوتیں فوراً برسر پیکار ہو گئیں اور اپنے غیرجمہوری اور غیر آئنی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے عملی طور پر سر گرم ہو گئیں۔ جمہوریت کے نام پر یہی غیر جمہوری اور غیر قانونی قوتیں در اصل جمہوریت کے عدم استحکام کا سبب بھی بنی۔
یہ ایک حقیقیت ہے کہ غیر جمہوری قوتوں نے ہی در اصل متعدد مواقع پر جمہوریت کی گاڑی کو پٹری سے اُتارنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ بد قسمتی سے قیام پاکستان کے فوراََ بعد متعدد سیاست دانوں نے ضمیر فروشی اور سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کی انتہائی شرم ناک روایات کو جنم دیا۔ جس کی وجہ سے وطنِ عزیز پاکستان میں صرف ایک قلیل عرصہ میں کئی وزارتیں تبدیل ہوئیں اور جمہوری کلچر” لوٹا کریسی“ کی وجہ سے فروغ نہ پا سکا۔
وطنِ عزیز پاکستان میں حالیہ بتدریج سیاسی تبدیلوں کے پیچھے بھی در اصل ”سیاسی لوٹے“ ہی تھے اِن ضمیر فروش سیاسی لوٹوں نے اپنے پیش روؤں کی تقلید کرتے ہوئے غیر جمہوری، غیر آئینی اور ایک انتہائی شرمناک سیاسی تاریخ رقم کی ہے ۔
نہایت افسوس کی بات ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں متعدد معتبر سیاست دانوں کا محض اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ضمیر جاگ اُٹھا اور اُنہوں نے سیاسی عدم استحکام میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔
یہ ایک خوشی کی بات ہے کہ عوامی حلقوں میں لوٹوں کو ذلت آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑا۔ نہایت افسوس کے ساتھ یہ بات بھی اب زبان زد و عام پر ہے کہ متعددغیر منتخب اقلیتی ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی نے بھی ضمیر فروشی کی انتہائی شرمناک روایات کو جنم دیا اور جمہوریت کے عدم استحکام میں مکروہ کردار ادا کیا۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں سابق حکومت کے ایک ممتاز رہنما نے طنزاََ اقلیتی لوٹے رُکن قومی اسمبلی کو غیر منتخب شدہ بھی قرار دیا۔ چونکہ اقلیتی نشستیں متناسب نمائندگی کے ذریعے پُر کی جاتی ہے۔ لہذا اب ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ ان اقلیتی ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی کے لیے بھی نمائندگی کا کوئی آئینی و جمہوری طریقہ اختیار کیا جائے۔
جمہوریت در اصل جلسے، جلوسوں اور رائے عامہ کو ہموارکرنے کا نام ہے لہذا اقلیتی ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو بھی اِس عمل سے گزارا جائے تاکہ اِن کے اندر بھی اقلیتی عوام کے مسائل کو حل کرنے کاجذبہ پیدا ہو سکے اور ان کی جڑیں بھی عوام کے اندر ہوں۔
سابق دور میں چونکہ چند اقلیتی ممبران قومی و صوبائی اسمبلی نا صرف ضمیر فروشی میں ملوث رہے بلکہ اپنی سیاسی جماعت اور پارلیمانی لیڈر اور قائد کی مرضی و منشاء کے خلاف بھی سر گرم عمل رہے۔ چونکہ اب ان اقلیتی ارکان نے نا صرف اپنی پارٹی قیادت سے بے وفائی کی بلکہ اقلیتی عوام کے درینہ مسائل کے حل کرنے میں بھی مکمل طور پر ناکام رہے اِس لیے کہ یہ اقلیتی ممبر قومی و صوبائی اسمبلی عوام کے وٹوں سے منتخب نہیں ہوتے۔
لہذا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ الیکشن کمیشن اور مقتدر قوتیں اقلیتی نشستوں پر بھی سلیکشن کی جائے انتخاب کے طریقے کار کو وضع کرے تا کہ اقلیتی ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی جڑیں بھی عوام کے اندر ہوں ورنہ ان کو ہمیشہ ”غیر منتخب“ ہونے کا طعنہ ہی دیا جائے گا۔
آخر میں دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقل و فہم عطا کرے اور خصوصاََ ہمارے سیاست دان ملکی سیاست میں تحمل و بردباری کا مظاہرہ کریں اور جمہوریت کو مضبوط کرنے میں اپنا کردا ادا کریں چونکہ ان دنوں وطنِ عزیز پاکستان شدید معاشی، سیاسی اور آئینی بحرانوں سے گزر رہا ہے آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
پروفیسر کامران جیمز سیاسیات کے استاد ہیں اور فارمن کرسچین یونیورسٹی لاہور میں پڑھاتے ہیں۔