کوئی قوم کبھی بھی شکست نہیں کھا سکتی جب تک اس میں سچ کو سننے اور سچ کو برداشت کرنے کی ہمت اور قابلیت رہے۔ کسی قوم کے لئے پریشانی کا بڑا سبب اس کی غربت، افلاس اور بیروزگاری نہیں ہے۔ یہ بہت عارضی مظاہر ہیں جن پر قابو پانا زندہ قوموں کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ قوموں کی زندگی میں سب سے مشکل مرحلہ پرانی روایات کو ترک کرنا اور تازہ روایات کو اپنانا ہوتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک اور مشکل مرحلہ قوموں کی زندگی میں وہ ہے جب کوئی قوم اپنی مرضی کا سچ سننے کی عادی ہو جاتی ہے۔ اس معاشرے کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا جو جھوٹ اور پروپیگنڈے پہ خود کو مطمئن کر لے اور لاکھ کوشش کے باوجود سچ کی طرف مائل نہ ہو۔ عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ یہ رویہ کم علمی اور معاشرتی ترقی نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے مگر تاریخ بتاتی ہے کہ ایسا نہیں ہے۔
1930 کے عشرے میں جرمن قوم یورپ کی سب سے پڑھی لکھی، ترقی یافتہ اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں سب قوموں سے آگے تھی۔ اس قوم کی ترقی اور وسائل کا یہ عالم تھا کہ اس نے پوری دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں سے جنگ کرنے کا خطرہ مول لے لیا۔ مگر وہ قوم ایک خطرناک پروپیگنڈے کی نظر ہو گئی۔ اس قوم نے سچ پہ پہرے بٹھا دیے اور جھوٹ کے گہرے سمندر میں غوطہ زن ہو گئی۔ قوم کو اس ڈگر پہ لگانے والے خاموشی سے جھوٹ کی موت کی نظر ہو گئے جنہوں نے دنیا سے جاتے ہوئے بھی جھوٹ کا سہارا لیا اور آج تک یہی نہیں معلوم ہو سکا کہ وہ مرے کیسے اور وہ یورپ کی جدید ترین قوم اپنے سے کئی درجے کم ترقی یافتہ قوموں کے ہاتھوں شکست، ذلت، قتل و غارت، ریپ اور علاقائی بندر بانٹ کا عذاب جھیل رہی تھی۔ ان کی تباہی کی وجہ صرف ایک تھی کہ انہوں نے خود پر سچ کو حرام اور جھوٹ کو حلال کر لیا تھا اور ان کو چن چن کے مارا گیا جو سچ کہنے اور لکھنے کی جرات کرتے تھے۔
اس تمہید کا مطلب نہ تو پاکستان کو جرمنی جیسا ملک ثابت کرنے کی جسارت کرنا ہے اور نہ ہی کسی لیڈر کو ہٹلر جیسا دکھانے کی گستاخی ہو رہی ہے۔ ہر معاشرے اور قوم کا اپنا اپنا سماجی اور معاشرتی ارتقائی سفر ہوتا ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ اگر کسی قوم اور معاشرے میں کوئی ایسا لیڈر ہو جو بالکل سچا ہو اور انتہائی راست گو اور قابل بھروسہ ہو پھر بھی اس قوم اور معاشرے کی بقا کے لئے ضروری ہے کہ ایک طبقہ ایسا رہنا چاہئیے جو اس لیڈر کے عیب اور اس کی خامیاں اس کو بھی اور اس کی قوم کو بھی بتاتا رہے۔ یہ ایک لازمی سیاسی، اخلاقی، مذہبی، معاشرتی اور انتظامی امر ہے جس کو کسی حال میں بھی ترک نہیں کیا جا سکتا۔
ایک مرتبہ حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ اپنے خلافت کے دور میں مسجد کے منبر پر خطبہ دے رہے تھے تو انہوں نے سامعین سے مخاطب ہو کر کہا کہ اگر میں کوئی غلط کام کروں تو آپ لوگ کیا کام کرو گے؟ تو حاضرین میں سے ایک عمر رسیدہ شخص اٹھا اوراپنی تلوار کے دستے پر ہاتھ رکھ کر جناب خلیفہ سے مخاطب ہو کر بولا کہ اگرآپ کوئی غلط کام کرو گے تو اس تلوار سے آپ کی گردن اڑا دیں گے۔ اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ میری قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو غلطی کرنے پر میرا بھی محاسبہ کر سکتے ہیں۔ آج کل مملکت پاکستان تاریخ کے افسوس ناک مراحل سے گزر رہی ہے کیوں ہم نے خود پر سچ کے دروازے بند کر لئے ہیں۔ ہم خوش نمائی اور جھوٹ کے رسیا ہو گئے ہیں۔ جو بھی ہمیں سچ بتانے کی کوشش کرتا ہے اس کے لئے ممکن نہیں ہے کہ ہمارے ہاتھ اور زبان کے شر سے بچ سکے۔ اس سے بھی بڑا افسوس ناک امر یہ ہے کہ جس کو دیکھو اس نے اپنی پارٹی اور اپنے لیڈر کی طرف داری میں حد سے تجاوز کر رکھا ہے۔ ہر پارٹی کے اپنے اپنے نیوز چینل ہیں۔ ہر صحافی زبان کھولتا ہے تو پتہ چل جاتا ہے کہ کس پارٹی سے تعلق رکھتا ہے۔ ٹی وی چینلز والے سیاسی ٹاک شوز میں ہر ہر پارٹی کا نمائندہ صحافی بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے وفادار اور حمایتی اپنی اپنی پارٹی کی پالیسی کو درست اور اپنے اپنے اپنے لیڈر کو سچا اور پارسا ثابت کرنے پر پاگل ہوئے جا رہے ہیں۔ سیاست، صحافت اور مذہب میں منفرد اور سچی بات کرنے والے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
پاکستان سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے اس مقام پر آ گیا ہے کہ جہاں پر ہر طبقے کی چیخ چیخ کے آواز آ رہی ہے کہ اگر تم ہمارے ساتھ نہیں ہو تو تمہیں بولنے اور جینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اگر تم نے ہمارے مخصوص ایجنڈے کا ساتھ نہ دیا تو تمہارے اوپر پاکستان کی زمین تنگ کر دیں گے۔ اگر تم نے ہماری پارٹی کی پالیسی کے ہر جھوٹ کو سچ نہ مانا تو تمہیں پارٹی سے نکال دیں گے۔ اگر تم نے قوم کو سچ بتانے کی کوشش کی اور ہمارے مذموم ارادوں کو قوم کے سامنے آشکار کرنے کی کوشش کی تو تم غدار ہو، ننگِ ملت ہو اور ننگِ دین ہو۔ یہ سیاسی طرف داریوں کا دور ہے، یہ پروپیگنڈے کے کھلاڑیوں کا دور ہے، یہ شخصیت کے پجاریوں کا دور ہے اور یہ خاندانی وفاداریوں کا دور ہے۔
ملک بد نصیب میں جس کے پاس طاقت آ جاتی ہے وہ اس کے زور پہ اپنی ہر نادانی، حماقت اور غلط فیصلے کو بندوق کی نوک پہ سچ بنانا چاہتا ہے۔ مگر کوئی بھی صاحب اقتدار اس وقت تک نہ تو خود کو کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ ہی اپنی قوم کو، جب تک اس کے ارد گرد سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے والے لوگ نہ ہوں۔ طاقت کے زینوں پر بیٹھ کر اکثر ہر چیز دھندلی دکھائی دیتی ہے۔ اس کے ایک طرف شیطان تو دوسری طرف رحمان کی تصویر ہوتی ہے۔ سچ اور جھوٹ کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ناممکن نظر آتا ہے۔ اس قوم کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا جو خود ساختہ ناپختگی اور حماقت پہ تل جاتی ہے۔ پھر وہی حالت ہو جاتی ہے جیسے ایک زمانے میں عرب کے ایک ملک میں ایک شخص کا جنازہ پڑھا جا رہا تھا تو پاس سے ایک رند کا گزر ہوا۔ اس نے دیکھا کہ وہ شخص جس کا جنازہ پڑھا جا رہا تھا وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا میں زندہ ہوں۔ رند نے یہ منظر دیکھ کے جنازہ پڑھانے والے مفتی سے پوچھا کہ شخص تو زندہ ہے پھر کیوں اس کا جنازہ پڑھانے پر مُصر ہو تو اس نے کہا کہ دیکھو یہ اکیلا کہہ رہا ہے کہ میں زندہ ہوں جبکہ باقی سب افراد بضد ہیں کہ یہ مر چکا ہے، اب تم ہی بتاؤ میں اس اکیلے شخص کی بات مانوں یا ان سینکڑوں افراد کی؟
نوم چومسکی کہتے ہیں کہ یہ ایک دانشور طبقے کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے میں سچ کو فروغ دے اور جھوٹ کو بے نقاب کرے۔ مگر پاکستان میں تو دانشور طبقہ معدوم ہو کر رہ گیا ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ دانشور طبقہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ناپید کر دیا گیا ہے۔ جو چند 'دانشور' بچے تھے ان میں سے کوئی سیاسی پارٹیوں کی نطر ہو گئے، کچھ مشیر بن گئے، کچھ وزیر بن گئے اورجو باقی بچے تھے وہ سفیر بن گئے ہیں۔ ن۔ م۔ راشد نے کہا تھا کہ:
پہلے بھی تو گزرے ہیں
دور نارسائی کے، 'بے ریا' خدائی کے
پھر بھی یہ سمجھتے ہو، ہیچ آرزو مندی
یہ شبِ زباں بندی، ہے رہِ خداوندی!
تم مگر یہ کیا جانو،
لب اگر نہیں ہلتے، ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں
ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں، راہ کا نشاں بن کر
نور کی زباں بن کر
ہاتھ بول اٹھتے ہیں، صبح کی اذاں بن کر!
عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔